تھرپارکر میں کوئلے کی کان کنی ماحولیاتی تباہی، صحت کے خطرات اور مقامی آبادی کی مشکلات کو بڑھا رہی ہے، صاف توانائی ہی حل ہے۔
فاطمہ خان، ریسرچر گرین انرجی

تھرپارکر میں جاری کوئلے کی کان کنی اور اس کی توسیع پاکستان کے توانائی کے منظرنامے میں ایک نیا باب کھول رہی ہے، لیکن یہ باب اپنے ساتھ سنگین ماحولیاتی اور سماجی سوالات بھی لا رہا ہے۔ تھر بلاک ٹو کی پیداواری صلاحیت سات اعشاریہ چھ ملین ٹن سے بڑھا کر گیارہ سے بارہ ملین ٹن سالانہ کر دی گئی ہے، جس کے نتیجے میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج میں سالانہ چودہ سے سولہ ملین ٹن کا اضافہ متوقع ہے۔
یہ اضافہ ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب پاکستان پہلے ہی دو سو چالیس ملین ٹن سے زیادہ گرین ہاؤس گیسز خارج کر رہا ہے اور ماحولیاتی تبدیلی کے خطرات میں دنیا کے سب سے زیادہ متاثرہ ممالک میں شمار ہوتا ہے۔ یہ منصوبہ صرف فضائی آلودگی تک محدود نہیں ہے۔
کان کنی کے عمل میں زیر زمین پانی بڑی مقدار میں نکالا جا رہا ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق سالانہ نکاسی تقریباً صفر اعشاریہ صفر دو فیصد پانی کے برابر ہے، لیکن یہ وہ پانی ہے جو نمکین یا کھارا ہے اور جس میں کل محلول مادہ چھ ہزار پی پی ایم تک پایا گیا ہے۔

اس پانی کو گورانو ریزروائر میں جمع کیا جا رہا ہے۔ مقامی دیہاتیوں کی شکایات ہیں کہ اس سے قریبی کنویں کڑوے ہو گئے ہیں، کھیت برباد ہو رہے ہیں اور مویشی مرنے لگے ہیں۔ صحرائی خطے میں جہاں پانی ہی زندگی ہے، وہاں یہ نقصان صرف ماحولیاتی مسئلہ نہیں بلکہ انسانی بقا کا سوال ہے۔
صحت کے حوالے سے ایک تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ اگر یہ منصوبے تیس سال چلتے ہیں تو تقریباً انتیس ہزار افراد فضائی آلودگی سے قبل از وقت موت کا شکار ہو سکتے ہیں۔ بچوں میں دمے کے تقریباً بیس ہزار نئے کیس سامنے آ سکتے ہیں اور چالیس ہزار مرتبہ ایمرجنسی روم کے دورے کرنا پڑیں گے۔
لاکھوں کام کے دن ضائع ہوں گے اور ہزاروں افراد معذوری کے ساتھ زندگی گزارنے پر مجبور ہو جائیں گے۔ دھول، دھواں اور کوئلے کے ذرات نے پہلے ہی مقامی لوگوں میں سانس اور جلدی امراض بڑھا دیے ہیں۔ معاشرتی پہلو بھی کم سنگین نہیں ہیں۔
دیہاتوں کو بار بار بے دخل کیا جا رہا ہے تاکہ کان کنی اور ریزروائر کے لیے جگہ بنائی جا سکے۔ زمین بیچنے یا ہتھیانے کے بعد لوگ اجنبی جگہوں پر غربت اور بے روزگاری کا شکار ہو رہے ہیں۔ ان کے روزگار اور سماجی ڈھانچے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں۔
کمپنیوں نے وعدہ کیا تھا کہ lined تالاب، دھول پر قابو پانے کے اقدامات اور شجرکاری جیسے منصوبے شروع کیے جائیں گے، مگر ان کے نفاذ میں کمی اور شفافیت کی عدم موجودگی نے ان وعدوں کو مشکوک بنا دیا ہے۔

یہ تمام مسائل اس وقت اور بھی تشویش ناک لگتے ہیں جب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ تھر میں متبادل ذرائع توانائی کی کتنی بڑی گنجائش موجود ہے۔ تھرپارکر میں سال کے تقریباً تین سو دن سورج چمکتا ہے، جو اسے دنیا کے بہترین سولر زونز میں شامل کرتا ہے۔
اسی طرح سندھ اور بلوچستان کے ساحلی علاقے ہوا کی توانائی کے لیے غیر معمولی موزوں ہیں، جہاں بجلی پیدا کرنے کی استعداد ہزاروں میگا واٹ تک ہے۔ اگر تھر کوئلے پر لگنے والی سرمایہ کاری کا صرف ایک حصہ بھی ان منصوبوں پر لگایا جائے تو پاکستان کا توانائی بحران چند برسوں میں پائیدار بنیادوں پر حل کیا جا سکتا ہے۔
دنیا بھی تیزی سے اسی سمت جا رہی ہے۔ چین اور بھارت جیسے ممالک جو کبھی کوئلے پر انحصار کرتے تھے، اب اربوں ڈالر سورج، ہوا اور ہائیڈروجن توانائی میں لگا رہے ہیں۔ عالمی مالیاتی ادارے بھی اب انہی منصوبوں کو فنڈ کر رہے ہیں جو ماحول دوست ہوں۔
پاکستان نے پیرس معاہدے کے تحت یہ وعدہ کیا ہے کہ وہ دو ہزار تیس تک قابل تجدید توانائی کا حصہ نمایاں طور پر بڑھائے گا، لیکن زمینی حقیقت یہ ہے کہ آج بھی فوسل فیول میں سرمایہ کاری بڑھائی جا رہی ہے۔
اگر یہی روش برقرار رہی تو نہ صرف عالمی سرمایہ کاری ہم سے دور ہو جائے گی بلکہ مقامی آبادی کی مشکلات بھی ناقابل برداشت ہو جائیں گی۔ تھرپارکر کے لوگ براہ راست ان منصوبوں کی قیمت ادا کر رہے ہیں۔
مقامی خواتین کو کئی کلومیٹر دور سے پانی لانا پڑتا ہے، بچے دھوئیں اور گرد کے باعث سکول جانے سے محروم ہو رہے ہیں اور بوڑھے افراد کو صحت کی سہولیات تک رسائی نہ ہونے کے برابر ہے۔ سماجی کارکنوں کی رپورٹ کے مطابق کان کنی سے متاثرہ خاندانوں کو نہ مناسب معاوضہ دیا جا رہا ہے اور نہ ہی پائیدار متبادل روزگار فراہم کیا جا رہا ہے۔
اس کے نتیجے میں غربت اور معاشرتی ناہمواری مزید بڑھ رہی ہے۔ بین الاقوامی ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر پاکستان تھر کے کوئلے پر انحصار جاری رکھتا ہے تو یہ نہ صرف اس کے ماحولیاتی اہداف کو نقصان پہنچائے گا بلکہ آنے والی دہائیوں میں پانی اور خوراک کے بحران کو بھی شدت دے گا۔
عالمی درجہ حرارت بڑھنے کے ساتھ ساتھ پاکستان کے صحرائی علاقے مزید خشک اور کمزور ہو جائیں گے۔ بارشوں کا پیٹرن مزید غیر یقینی ہوگا اور زرعی پیداوار میں کمی آئے گی۔
یہ بھی پڑھیں
سیلاب کے دوران سانپ: ماحولیاتی تبدیلی کا ایک ان دیکھا خطرہ
کیا بیلہ اور لیاری کا ثقافتی ورثہ مٹ رہا ہے؟
یہ اثرات سب سے زیادہ غریب طبقے پر پڑیں گے، جو پہلے ہی زندگی کی بنیادی سہولتوں سے محروم ہیں۔لہٰذا یہ فیصلہ پاکستان کے مستقبل کا امتحان ہے۔
کیا ہم وقتی بجلی کے لیے اپنے پانی، اپنی زمین اور اپنی فضا قربان کرتے رہیں گے یا پھر صاف توانائی کے راستے پر چل کر آنے والی نسلوں کو ایک محفوظ، انصاف پر مبنی اور پائیدار مستقبل دیں گے؟ تھر کے لوگ، ماحولیاتی ماہرین اور عالمی برادری سب یہی سوال پوچھ رہے ہیں۔ اس کا جواب ہمیں آج دینا ہے۔