فروزاں ماحولیاتی رپورٹس

زندگی کا تصور : کیا کلچر اور فن ماحولیاتی بحران کا حل ہیں؟

زندگی کا تصور

زندگی کا تصور پروگرام کلچر، فنون اور ماحولیاتی بحران کو جوڑتے ہوئے کراچی میں مکالمے اور تخلیقی اظہار کے ذریعے نیا شعور پیدا کر رہا ہے۔


کلائمیٹ ایکشن سینٹر (سی اے سی) اور پروفیسرسعدیہ عباس, رٹگرز یونیورسٹی, کے اشتراک اور نیشنل اکیڈمی آف پرفارمنگ آرٹس (ناپا) کے تعاون سے, ”زندگی کا تصور”کے نام سے ایک تاریخی اور ہمہ جہتی پروگرام کا آغاز ہوا۔

افتتاحی دو روزہ اجلاس 17 اور 18 اگست کو ناپا، کراچی میں منعقد ہوا، جس میں ماہرین، فنکاروں، دانشوروں، سرگرم کارکنوں اور کمیونٹی اراکین نے بھرپور شرکت کی۔

یہ منصوبہ کلائمیٹ ایکشن سینٹر کی نمایاں پہچان ”کلائمیٹ نیریٹیوز” (Climate Narratives) کا حصہ ہے، جو ماحولیاتی بحران کو محض ایک سائنسی یا ماحولیاتی مسئلہ نہیں بلکہ ایک ثقافتی اور فکری چیلنج کے طور پر پیش کرتا ہے۔

اس پروگرام کا مقصد کہانی، فنون، تعلیم اور مکالمے کے ذریعے اس بحران کے بارے میں معاشرتی شعور کو تبدیل کرنا ہے۔

یاسر دریا، ڈائریکٹر سی اے سی نے افتتاحی کلمات میں کہا کہ ”ہم ایک ایسے ثقافتی ردعمل کی تشکیل چاہتے ہیں جو مقامی ماحولیاتی بہبود اور عالمی سطح پر سیاروی حدود کے درمیان توازن پیدا کرے۔ ‘زندگی کا تصور’ اسی مقصد کے تحت ہے کہ ہم مستقبل کو وہ شکل دیں جو ہم سب مل کر تعمیر کریں گے۔”

زندگی کا تصور

یاسر دریا، ڈائریکٹر سی اے سی نے

افتتاحی کلمات میں کہا کہ ”ہم ایک

ایسے ثقافتی ردعمل کی تشکیل چاہتے

ہیں جو مقامی ماحولیاتی بہبود اور

عالمی سطح پر سیاروی حدود کے

درمیان توازن پیدا کرے۔ ‘زندگی کا

تصور’ اسی مقصد کے تحت ہے کہ ہم

مستقبل کو وہ شکل دیں جو ہم سب مل

کر تعمیر کریں گے”۔

افتتاحی خطاب میں سعدیہ عباس نے اپنے ابتدائی کلمات میں، اور اپنی تقریر ” against ruin” کی تمہید باندھتے ہوئے کہا: ہم سب ایک ساتھ ماحولیاتی بحران کا سامنا کر رہے ہیں اور اس کا مقابلہ بھی ہمیں مل کر کرنا ہوگا۔

لہذا یہ جدوجہد صرف سائنسی، قانونی یا سیاسی نہیں ہے۔ جیسا کہ بہت سے مفکرین اور ادیب تسلیم کرتے ہیں۔

اس لئے ہمیں یہ از سرِ نو سوچنا ہوگا کہ ہم اس دنیا میں کیسے جی رہے ہیں؟ اور یہ بھی کہ ہمیں اپنی زندہ دنیا کے ساتھ اپنے تعلق کو دوبارہ سمجھنے کی ضرورت ہے ۔

تاہم اس کے لیے ہمیں مزید لوگوں کی توجہ، وابستگی اور شمولیت چاہیے۔

ہمیں اپنے تمام تخلیقی، علمی اور فکری وسائل کو یکجا کرنا ہوگا۔ ہمیں علومِ انسانی کی ضرورت ہے۔

علاوہ ازیں ہمیں فنکاروں کی ضرورت ہے۔ ہمیں ادیبوں اور محققین کی ضرورت ہے۔ ہمیں اداکاروں اور مظاہرہ کاروں کی ضرورت ہے۔ حتی کہ ہمیں آپ کی ضرورت ہے۔

زندگی کا تصور

معروف مصورہ اور نقاد نیلوفر فاروق نے کہا: ”یہ منصوبہ ایک ایسا پلیٹ فارم ہے جہاں مقامی تعلیمی ادارے اور ثقافتی کارکن یکجا ہو کر مکالمے کے ذریعے اجتماعی تخیل کو نئی سمت دے سکتے ہیں۔”

منعقد ہوا۔”Connecting Transformative Energies” پروگرام کے پہلے دن ایک اہم سیشن بعنوان

پروگرام میں اس سوال پر گفتگو کی گئی کہ تخیل کس طرح ہمیں حال کی پابندیوں سے آگے لے جا کر متبادل مستقبل کی سمت سوچنے پر آمادہ کر سکتا ہے۔

اس نشست کی نظامت معروف مصورہ اور نقاد نیلوفر فاروق نے کی، جبکہ پینل میں : سائرہ دانش احمد، شریک بانی کراچی کلیکٹیو, سمیتہ احمد، چیف آپریٹنگ آفیسر، ناپا, عمران مشتر نفیس، فنکار, امین رحمان، بصری فنکار (آن لائن شرکت)شامل تھے: ۔

افتتاحی دن کی سب سے نمایاں سرگرمی سندھی زبان کی طویل عرصے بعد پہلی فیچر فلم ”Indus Echoes” کی خصوصی اسکریننگ تھی۔

جسے فلم ساز راہل اعجاز نے ڈائریکٹ کیا اور جو Anthem Films کے تعاون سے پیش کی گئی۔

اعجاز نے اس موقع پر کہا : ” میری یہ فلم سن 2022 میں شروع ہوئی تھی، لیکن دراصل دریائے سندھ اور لوگوں کی زندگیوں کے تعلق پر سوچ بہت پہلے سے میرے ذہن میں پنپ رہی تھی۔

میری اس دریا سے وابستگی اور اس کے حقوق و احترام کی آواز بلند کرنے کا جذبہ اس فلم کی بنیاد بنا۔

انہوں نے مزید کہا کہ تین برس بعد یہ فلم سی اے سی کے ’’زندگی کا تصور ‘‘ پروگرام کا حصہ بنی ہے، جو ان کے نظریات سے ہم آہنگ ہے۔ علاوہ ازیں اسے مقامی ناظرین تک پہنچانے کے ساتھ ساتھ ایک بڑے فکری و تخلیقی مکالمے کا حصہ بناتی ہے۔

اسکریننگ کے بعد ایک اور اہم پینل ڈسکشن بعنوان ”Imagining the Life of the Indus” منعقد ہوا۔

اس نشست کی نظامت پروفیسر سعدیہ عباس نے کی۔ پینل میں یاسر حسین, راہل اعجاز, آفاق بھٹی شامل تھے ۔

گفتگو کا محور فلم انڈس ایکوز اور اس کے ذریعے دریائے سندھ اور انسانی زندگیوں کے باہمی رشتے کو نئے زاویے سے دیکھنا تھا۔

مقررین نے دریا کی علامتی، ماحولیاتی اور تہذیبی اہمیت پر روشنی ڈالی اور اس بات پر زور دیا کہ فن اور تخیل ہمیں دریا کے مستقبل کے بارے میں سوچنے کی نئی راہیں فراہم کر سکتے ہیں۔

زندگی کا تصور


دوسرے دن کی خاص بات پروفیسر دیپیش چکرورتیکی شہرہ آفاق کتاب The Climate of History in a Planetary Age کا اردو ترجمہ متعارف کرانا تھا۔ اس نشست میں مترجم علی صدیقی، محقق طارق بن آزاد, اور خود مصنف نے شرکت کی۔

چکرابرتی نے کہا: ”زندگی کا تصور‘‘ جنوبی ایشیا میں اپنی نوعیت کی ایک منفرد مثال ہے، جس نے علم اور کلچر کو عوامی دائرے میں یکجا کیا ہے۔ لہذا میں اسے ایک انقلابی اور جدت پسندانہ اقدام سمجھتا ہوں۔

”انہوں نے مزید کہا کہ ایسے منصوبے تاریخ، سیاست اور ماحول کے باہمی رشتے کو سمجھنے کے لیے نہایت اہم ہیں۔

پروفیسرسعدیہ عباس نے اپنے خطاب میں کہا کہ ہم نے اس کتاب کو اردو میں منتقل کر کے علم تک رسائی کو عام کیا ہے۔

: یہ بھی پڑھیں

کیا میئر کراچی گرین لائن فیز 2 منصوبے میں رکاوٹ بن رہے ہیں؟

اسلام آباد میں کلائمیٹ یوتھ سمٹ 2025کا انعقاد

شمالی پاکستان میں گلیشیائی جھیل پھٹنے کا خطرہ

میری خواہش ہے کہ ایک دن ایسا اجلاس ہو جہاں ہر شخص اپنی مادری زبان میں بات کرے اور ہم مترجم فراہم کریں۔ یہ علم اور اظہار کی جمہوریت ہے” ۔

اس موقع پر یاسر دریا کا کہنا تھا کہ یہ ترجمہ پاکستانی معاشرے کے لیے اہم سنگ میل ہے، جو ہمیں اجتماعی طور پر نئے طریقوں سے سوچنے پر ابھارتا ہے۔

ایک فورم’’زندگی کا تصور‘‘ کو آگے کیا کرنا چاہیے ؟ ” کے عنوان سے منعقد ہوا، جس کی نظامت سعدیہ عباس نے کی۔

اس میں ایڈووکیٹ عبیرہ اشفاق، کمیونٹی رہنما حفیظ بلوچ (سندھ انڈیجینس رائٹس الائنس)، اور ادیب قلندر میمن نے اظہارِ خیال کیا۔

اپنا تبصرہ لکھیں