سیلاب اور قیمتی سانپ پاکستان میں نہ صرف انسانی جانوں کے لیے خطرہ ہیں بلکہ وائلڈ لائف ریسکیو، ادویات اور معیشت کے لیے بھی اہمیت رکھتے ہیں۔
محمد وحید اختر چوہدری

سیلاب اور قیمتی سانپ پاکستان میں — پس منظر اور موجودہ صورتحال
سانپ: ایک تحقیق کے مطابق انڈیا سے 200 سے زائد اقسام کے نایاب نسل کے سانپ ( ا یناکونڈا،کوبرا اور پنیر ) ، ضلع جھنگ میں سیلابی پانی کے ذریعے بہہ کر پاکستان آچکے ہیں۔
ضلع جھنگ کے مختلف دیہات میں سروے کرنے کے دوران پتہ چلا ہے کہ سیلابی پانی کے بہاؤ کے ساتھ انڈیا سے پاکستان آنے والے سانپوں کی تعداد سینکڑوں میں ہے۔
یہ وہ سانپ ہیں جو پاکستان کے وائلڈ لائف کے مطابق، بہت قیمتی ہیں اور پاکستان وائلڈ لائف کا نیا چیلنج بھی ہیں ۔ واضح رہے کہ ان سے بہت ساری ادویات تیار کی جاتی ہیں جو بہت مہنگی اور قیمتی سمجھی جاتی ہیں۔
لہذا اس ضمن میں محکمہ وائلڈ لائف کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ خود یا دیگر وائلڈ لائف کی تنظیموں کے ساتھ مل کر ان قیمتی سانپوں کو ریسکیو کرے۔ بعد ازاں ان سے قیمتی ادویات اور معیشت کے لیے اسے فائدہ مند بنائیں۔ مزید برآں یہ کہ ان سانپوں کو برادر ملک چین کو فروخت کر کے ملک سانپوں سے قیمتی زیر مبادلہ بھی کمائے۔
واضع رہے کہ یہ سانپ بہت عرصے سے ڈیمو ں کے اندر پانی میں موجود تھے اور اب وہ حالیہ بارشون کے نتیجے میں سیلابی پانی کے ساتھ بہہ کر پاکستان آگئے ہیں۔ علاوہ ازیں حفاظتی بند کے ساتھ ساتھ سینکڑوں کی تعداد میں یہ سانپ ان علاقوں میں جہاں سیلابی پانی انڈیا سے آیا ہے دیکھے جا سکتے ہیں جوآئندہ آنے والے دنوں میں انسانی جانوں کو بہت زیادہ نقصان پہنچائیں گے۔
یہ سانپ پانی اترنے کے بعد مٹی کے اندر کھڈوں میں سراخوں میں درختوں کے اوپر چلے جاتے ہیں اور پھر موقع ملتے ہی انسانوں اور قیمتی جانوروں کو ڈس لیتے ہیں جس سے بہت زیادہ جانی نقصان ہوتا ہے۔


یہ قدرت کی طرف سے ایک تحفہ ہے جوسیلاب کے ذریعے پاکستان میں آیا، ہے کچھ علاقوں میں لوگوں نے ایناکوڈا کوبرا جیسے 20 فٹ سے زیادہ لمبے سانپ فائرنگ کر کے مار دیے ہیں۔
جس طرح انسانوں اورجانوروں کو ان کی حفاظت کے نقطہ نظر سے ریسکیو کیا جاتا ہے اسی طرح قدرتی آفات میں دنیا بھر میں اس قسم کے سانپوں کو بھی ریسکیو کیا جاتا ہے تاکہ ان سے قیمتی ادویات اور ویکسین بنا کر انسانی جانوں کو بچایا جا سکے۔
عالمی تناظر — چین، تھائی لینڈ اور دیگر ممالک میں سانپوں کا استعمال
پوری دنیا میں سانپوں کی مختلف قسموں سے فائدے حاصل کیے جاتے ہیں،چین،تھائی لینڈ،کوریا،ویتنام، ہانگ کانگ، تائیوان سمیت کئی ملکوں میں ان سانپوں کو بطور خوراک بھی استعمال کیا جاتا ہے۔
سانپوں سے تیار ہونے والی دوائیں اور الکحل مصنوعات
تھائی لینڈ میں سانپ کے ساتھ ایک خاص قسم کی شراب پی جاتی ہے جس میں سانپ کو ایک شکنجے میں ڈال کر درمیان سے چیرا دیا جاتا ہے اس میں سے جو خون نکلتا ہے اس کو شراب کے ساتھ مکس کر کے پیا جاتا ہے جو کہ کافی مہنگا ہوتا ہے۔
سانپ بطور خوراک اور مہنگی ڈشز
تھائی لینڈ اور چین جیسے ملکوں میں سانپ سے بنی ڈشیں کافی مہنگی ہوتی ہیں اس لیے وائلڈ لائف، ریسکیو ڈبل ون ڈبل ٹو اور وائلڈ لائف پر کام کرنے والی تنظیموں جیسے اداروں کو ان قیمتی سانپوں کے بارے میں کوئی لائحہ عمل تیا ر کرنا چاہیے۔
انسانی جانوں، مویشیوں، فصلوں اور دیگر املاک کے ساتھ ایسے جانداروں کے بارے میں بھی غور کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ یہ انسانوں کو اور مویشیوں کو نقصان بھی پہنچاتے ہیں اس لیے ان کو ریسکیو کر کے بہت سارا قیمتی زر مبادلہ دیگر فائدے حاصل کیے جا سکتے ہیں۔
اس حوالے سے اینیمل یونیورسٹی کی ایک پروفیسر نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ بد قسمتی سے ہمارے ملک میں دریاؤں، سمندروں، ندی نالوں اور میدانی علاقوں میں پائے جانے والے ایسے جانوروں کے بارے میں تحقیق کرنے اور اس سے فائدہ اٹھانے کے لیے کوئی بھی ادارہ سنجیدہ نہیں ہے۔

تاہم پوری دنیا میں ایسے جانوروں و حشرات سے فائدہ اٹھانے کے لیے کروڑوں روپے کے فنڈ مخصوص کیے جاتے ہیں۔
وہاں خصوصی سانپ گھر بنے ہوئے ہیں جہاں ان کو پالا جاتا ہے اور ان کا زہر حاصل کر کے قیمتی ویکسین تیار کی جاتی ہیں۔
اینیمل یونیورسٹی کی ایک پروفیسر کا کہنا تھا کہ میں نے خود ایک چینی کمپنی کے ساتھ کام کیا ہے جو پاکستان کے مختلف علاقوں سے چھپکلیاں،کالے بچھو اور مختلف قسم کے سانپ پکڑ کر چین بھجواتی تھی۔
کلائمٹ چینج اور وائلڈ لائف رائٹر ہونے کے ناطے میرا فرض بنتا ہے کہ میں اس بارے میں اپنی تحریر کے ذریعے محکمہ وائلڈ لائف اور اس حوالے سے کام کرنے والے افراد اور تنظیموں کو آگاہ کروں تاکہ ان نایاب اور قیمتی اثاثے سے فائدہ حاصل کیا جا سکے۔
انھوں نے عوام سے اپیل کی ہے کہ آئندہ کوئی سانپ نظر ائے تو اس کو مارنے کی بجائے ریسکیو والوں کو فون کریں وہ خود ہی اسے پکڑ کر وائلڈ لائف کے حوالے کر دیں گے۔
جیسے انسانوں کے حقوق ہوتے ہیں اسی طرح جانوروں کو بھی حقوق ہوتے ہیں انسانوں کی طرح ان کے حقوق کا تحفظ کرنا بھی ہماری ذمہ داری ہے محمد وحید اختر چوہدری پی پی ائی نیوز ایجنسی کے لیے کام کرتے ہیں اس کے ساتھ فروزاں میں مختلف موضوعات پر لکھنے کے ساتھ سوشل میڈیا،پرنٹ میڈیا پر بھی لکھتے ہیں۔