سیلاب کے دوران سانپ ماحولیاتی تبدیلی، ہجرت اور انسان–سانپ تصادم کا نیا خطرہ بن کر ابھر رہے ہیں۔ آگاہی اور احتیاط ہی تحفظ ہے۔
صائمہ حمید

پاکستان ان ممالک میں شامل ہے جو دنیا بھر میں ماحولیاتی تبدیلی کی سب سے زیادہ لپیٹ میں ہیں (Germanwatch Climate Risk Index, 2024)۔ ہر سال آنے والی قدرتی آفات نہ صرف انسانی زندگیوں کو متاثر کرتی ہیں بلکہ ماحولیاتی نظام کے توازن کو بھی یکسر بدل دیتی ہیں۔
سن2025 کے تباہ کن سیلاب، جن میں 20 لاکھ سے زائد افراد بے گھر ہوئے اور پنجاب و سندھ کے بڑے علاقے زیرِ آب آگئے (DAWN, 2025)، اس بات کی تازہ ترین مثال ہیں کہ یہ بحران انسانی بھی
ہے اور ماحولیاتی بھی۔ پاکستان میں حالیہ برسوں میں سیلابی صورتحال میں اضافہ ہوا ہے۔ موسمیاتی تبدیلی کے باعث غیر معمولی بارشیں، دریاؤں کا طغیانی میں آنا، اور زمین کا دھنسنا اب ایک عام مشاہدہ بنتا جا رہا ہے۔ یہ آفات صرف انسانوں کو ہی نہیں بلکہ جنگلی حیات کو بھی متاثر کر رہی ہیں۔ ان متاثرہ جانداروں میں سب سے نمایاں سانپ ہیں۔
سیلاب کے دوران سانپوں کی نقل مکانی — ایک نظرانداز پہلو
سیلاب کے دوران اکثر نظرانداز ہونے والا ایک پہلو سانپوں کی جبری ہجرت ہے۔ جب بارش یا سیلاب کے دوران زمین کے بل اور بلّیاں بھر جاتے ہیں تو سانپ اپنے ٹھکانے چھوڑنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ وہ اونچی جگہوں، کھیتوں، درختوں یا بعض اوقات انسانی آبادیوں کا رخ کرتے ہیں۔ اس وقت لوگوں کو اچانک بڑی تعداد میں سانپ نظر آتے ہیں، جس سے خوف اور افواہیں پھیل جاتی ہیں۔
سیلابی پانی ان کے بل اور نچلے علاقے ڈبو دیتا ہے، جس کے باعث یہ جانور نسبتاً اونچی جگہوں پر آ جاتے ہیں، جہاں اکثر انسانی آبادیاں موجود ہوتی ہیں۔ ecological niche کی تبدیلی براہِ راست
مزید برآں، سیلاب کے دوران چوہے اور دوسرے چھوٹے جانور بھی اپنی پناہ گاہوں سے نکل آتے ہیں۔ چونکہ سانپ بنیادی طور پر ان ہی جانوروں پر خوراک کے لیے انحصار کرتے ہیں، اس لیے وہ ان کا پیچھا کرتے ہوئے انسانی بستیوں میں داخل ہو جاتے ہیں۔ نتیجتاً یہ محض ”پناہ کی تلاش” نہیں بلکہ ”خوراک کے حصول کی مجبوری” بھی ہے

غلط فہمیاں، خوف اور سانپوں کا قتل — سیلاب کے دوران سانپ پر عوامی ردِعمل
کے مطابق WWF–Pakistan, 2025
پاکستان میں پائے جانے والی زیادہ تر سانپوں کی اقسام غیر زہریلی ہیں۔ لیکن جب سیلاب آتا ہے تو خوف اور لاعلمی کے باعث لوگ ہر قسم کے سانپ مار دیتے ہیں۔
پھر کوبرا اور وائپر جیسے زہریلے سانپ Sand boa ہو یا اژدھا (Python) پھر چاہے وہ بے ضرر
کے مطابق DAWN, 2025
سن 2025 کے سیلاب میں ڈببلیو ڈبلیو ایف –پاکستان نے کئی ایسی رپورٹیں پیش کیں ہیں جن کے مطابق اژدھا انسانی بستیوں میں داخل ہو گئے اور مقامی لوگوں نے محض خوف کے باعث انہیں ہلاک کر دیا۔
پاکستان میں پایا جانے والا غیر زہریلا سانپ ہے۔ (Python) نوٹ: اژدھا
سیلاب کے دوران افواہیں اور کہانیاں تیزی سے پھیلتی ہیں۔
مثلاً:“انڈیا سے قیمتی سانپ آ گئے ہیں۔
سیلاب میں ایناکونڈا نکل آئے ہیں۔
یہ باتیں سائنسی لحاظ سے بے بنیاد ہیں۔ پاکستان اور بھارت میں تقریباً ایک جیسی انواع پائی جاتی ہیں اور ایناکونڈا صرف جنوبی امریکا میں پایا جاتا ہے۔ یہ غلط فہمیاں انسانی خوف کو بڑھاتی ہیں اور ایسے سانپ بھی مارے جاتے ہیں جو دراصل کھیتوں کے چوہے اور کیڑے مکوڑے قابو میں رکھتے ہیں۔
سانپ بطور قدرتی کنٹرول ایجنٹ — سیلاب کے بعد چوہوں کی آبادی پر اثر
سیلاب کے بعد صرف انسان اور سانپ ہی بے گھر نہیں ہوتے بلکہ چوہے اور دوسرے چھوٹے جاندار بھی زیرِ آب علاقوں سے نکل کر کھیتوں اور گھروں میں پھیل جاتے ہیں۔ یہ چوہے نہ صرف انسانی خوراک اور فصلوں کو نقصان پہنچاتے ہیں بلکہ بیماریوں (جیسا کہ لیپٹوسپائروسیس) کے پھیلاؤ کا بھی ذریعہ بنتے ہیں۔
یہاں سانپ فطری طور پر ایک“قدرتی کنٹرول ایجنٹ”کا کردار ادا کرتے ہیں۔
کے مطابق Ali et al., 2022, Zoological Studies
تحقیقی رپورٹس کے مطابق ایک سانپ اپنی زندگی میں ہزاروں چوہے کھاتا ہے، اگر یہ چوہے زندہ رہیں تو وہ اناج کے ذخائر اور کاشتکاری کو شدید نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ اسی وجہ سے ماہرین کا کہنا ہے کہ سانپوں کو ختم کرنے کے بجائے ان کے کردار کو سمجھنا اور محفوظ رکھنا زیادہ ضروری ہے، کیونکہ وہ ماحولیاتی توازن اور زرعی معیشت دونوں کی حفاظت کرتے ہیں۔
عالمی تناظر — سیلاب کے دوران سانپ اور انسان کا بڑھتا تصادم
یہ مسئلہ صرف پاکستان کا نہیں، دنیا بھر میں موسمیاتی تبدیلی کے ساتھ سانپ–انسان تصادم میں اضافہ ہو رہا ہے
بھارت (آسام، بہار) – سن2017 اور سن2019 کے سیلاب میں سانپ کے کاٹنے کے واقعات تقریباً دُگنے ہو گئے (Sharma et al., 2020, Toxicon)۔
بنگلہ دیش – سن2007 کے سیلاب کے دوران رسل وائپر کے کاٹنے کے کیسز بڑھ گئے کیونکہ کھیت مسلسل پانی میں ڈوبے رہے (Alirol et al., 2010, PLOS Neglected Tropical Diseases)۔
آسٹریلیا (کُوئنز لینڈ، 2011) – زہریلا Brown snake بڑی تعداد میں رہائشی علاقوں میں پہنچ گیا، جس پر حکومت نے باقاعدہ ریسکیو مہم شروع کی (Australian Museum, 2012)۔
یہ مثالیں واضح کرتی ہیں کہ سیلاب اور موسمیاتی دباؤ والے علاقوں میں سانپ–انسان تصادم تیزی سے بڑھ رہا ہے، اور آگاہی نہ ہونے کی وجہ سے نقصان بھی بڑھتا ہے۔

احتیاط، آگاہی اور ذمہ دارانہ رویہ — سیلاب کے دوران سانپوں سے نمٹنے کا محفوظ طریقہ
سیلاب کے بعد جب سانپ انسانی بستیوں میں آتے ہیں تو گھبراہٹ کے بجائے علم اور احتیاط ضروری ہے۔ زیادہ تر سانپ زہریلے نہیں ہوتے اور انسانوں سے خود دور رہنا چاہتے ہیں۔ وہ عام طور پر صرف اس وقت کاٹتے ہیں جب انہیں خطرہ محسوس ہو۔
: عوام کو درج ذیل اقدامات اپنانے چاہئیں
ملبہ یا جھاڑیوں کو ہٹاتے وقت لمبی لکڑی یا اوزار استعمال کریں۔
اونچے جوتے پہنیں۔
سانپ کو دیکھ کر فوراً پیچھے ہٹ جائیں تاکہ اسے نکلنے کا راستہ مل سکے۔
زہریلا سانپ نظر آئے تو اسے مارنے کے بجائے مقامی محکمہ وائلڈ لائف یا ریسکیو ٹیم کو اطلاع دیں۔ یہی عمل زیادہ محفوظ اور ماحول دوست ہے۔
نتیجہ — سانپ دشمن نہیں، ماحولیاتی نظام کا محافظ ہے
سن2025 کے سیلاب اس حقیقت کو اجاگر کرتے ہیں کہ ماحولیاتی تبدیلی صرف انسانی نہیں بلکہ جنگلی حیات کا بھی بحران ہے۔
سانپ، جو عام طور پر خوف کی علامت سمجھے جاتے ہیں، دراصل ماحولیاتی توازن کے ضامن ہیں۔
اگر ہم نے اس تعلق کو اپنی موسمیاتی پالیسیوں میں شامل نہ کیا تو نہ صرف حیاتیاتی تنوع بلکہ انسانی زندگیاں بھی خطرے میں رہیں گی۔