فروزاں فروزاں کے مضامین

زمین کی تھکن: زرخیزی ختم، فصلیں خطرے میں

پاکستان میں زمین کی زرخیزی میں کمی اور فصلوں کی گرتی پیداوار — ماحولیاتی بحران کی نئی شکل

زمین کی زرخیزی میں تیزی سے کمی اور فصلوں کی گرتی پیداوار دنیا کے لیے ایک بڑا خطرہ، ایف اے او کی رپورٹ کے مطابق 1.7 ارب افراد زمین کے انحطاط سے متاثر ہیں۔

Land degradation in Pakistan and its impact on crop yield and food security

دنیا کی بڑھتی ہوئی آبادی اور لامحدود معاشی دوڑ نے زمین کو اس حد تک استعمال کیا اپنی سانسوں کی گنتی کرنے لگی ہے۔ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے خوراک و زراعت (ایف اے او) کی تازہ رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں تقریباً 1.7 ارب افراد ایسے علاقوں میں رہائش پذیر ہیں جہاں انسانی سرگرمیوں، جیسے بے تحاشا زراعت، جنگلات کی کٹائی، صنعتی آلودگی اور بے قابو شہری پھیلاؤ نے زمین کو بُری طرح نقصان پہنچایا ہے۔

نتیجتاً، زمین کی زرخیزی تیزی سے ختم ہورہی ہے، جس سے خوراک کی عالمی پیداوار خطرناک حد تک متاثر ہو رہی ہے۔

زمین کا انحطاط، خاموش تباہی کا عمل

“زمینی انحطاط”یا لینڈ ڈگریژن محض ایک ماحولیاتی اصطلاح نہیں، بلکہ ایک ایسی عالمی المیہ کہانی ہے جو خوراک، پانی اور انسانی زندگی کے بنیادی ستونوں کو کمزور کر رہی ہے۔ایف اے او کی رپورٹ کے مطابق، ہر سال تقریباً 10 ملین ہیکٹر زرخیز زمین بنجر ہو رہی ہے۔

یہ رقبہ تقریباً پورے جنوبی کوریا کے برابر ہے۔زمین کے بگاڑ کے اس عمل میں سب سے زیادہ اثر انداز ہونے والے عوامل درج ذیل ہیں

غیر پائیدار زراعتی طریقے جیسے ضرورت سے زیادہ کھاد کا استمال، کیمیائی جراثیم کش ادویات، اور زمین کی بار بار جوتائی۔جنگلات کی بے دریغ کٹائی جس سے مٹی کا کٹاؤ بڑھتا ہے۔

پاکستان میں زمین کی زرخیزی میں کمی اور فصلوں کی گرتی پیداوار — ماحولیاتی بحران کی نئی شکل
پاکستان میں زمین کی زرخیزی میں کمی اور فصلوں کی گرتی پیداوار — ماحولیاتی بحران کی نئی شکل

شہری اور صنعتی پھیلاؤ کے نتیجے میں زرعی زمین تعمیرات میں بدلتی جا رہی ہیں۔موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے شدید بارشیں، قحط اور درجہ حرارت میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے۔

ایف اے اوکی رپورٹ میں واضح کیا گیا ہے کہ اگر موجودہ رفتار برقرار رہی تو 2050 تک 90 فیصد زمین کسی نہ کسی درجے میں خراب ہوچکی ہوگی۔

خوراک کی سلامتی خطرے میں

اقوام متحدہ کے مطابق زمین کی زرخیزی میں کمی کا مطلب ہے خوراک کے ذخائر میں کمی، قیمتوں میں اضافہ، اور بھوک میں اضافہ۔ دنیا میں پہلے ہی تقریباً 735 ملین افراد بھوک کا شکار ہیں، اور اب زمین کی بربادی اس بحران کو مزید گہرا کر رہی ہے۔

رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ زمین کے انحطاط کی وجہ سے آئندہ دو دہائیوں میں فصلوں کی اوسط پیداوار 12 فیصد تک کم ہوسکتی ہے۔ اس کمی کا سب سے زیادہ اثر افریقہ، جنوبی ایشیا اور لاطینی امریکہ کے ترقی پذیر ممالک پر پڑے گا، جہاں آبادی تیزی سے بڑھ رہی ہے۔

پاکستان کا تناظر:بنجر ہوتی زمین کا خطرہ

پاکستان میں زمینی انحطاط ایک ابھرتا ہوا مگر خطرناک بحران بن چکا ہے۔ پاکستان کونسل آف ریسرچ اِن واٹر ریسورسز (پی سی آر ڈبلیو آر) کے مطابق، ملک کی 60 فیصد زرعی زمین مختلف درجوں میں زرخیزی سے محروم ہو چکی ہے۔ خاص طور پر جنوبی پنجاب، سندھ کے صحرائی علاقے اور بلوچستان کے کئی اضلاع میں زمین کی پیداواری صلاحیت تیزی سے گِر رہی ہے۔زرعی ماہرین کے مطابق اس کی بنیادی وجوہات درج ذیل ہیں:

زمینی پانی کا زیادہ استعمال اور نمکیات (سلینیٹی) کا بڑھ جانا۔کھادوں اور کیمیائی زہروں کا ضرورت سے زیادہ استعمال۔ کاشتکاری کے غیر سائنسی طریقے۔جنگلات کی کٹائی اور چراگاہوں کی تباہی۔
پاکستان میں گندم، کپاس اور چاول جیسی اہم فصلیں زمین کی زرخیزی میں کمی سے سب سے زیادہ متاثر ہو رہی ہیں۔ ایک حالیہ مطالعے کے مطابق، فی ایکڑ گندم کی پیداوار میں گزشتہ دس برسوں میں 18 فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔

زمین کا نظامِ تنفس: مٹی

زمین کا سب سے نازک اور اہم حصہ مٹی ہے، جو ہماری خوراک کا براہِ راست ذریعہ ہے۔ ایس اے او کے مطابق، دنیا کی 33 فیصد مٹی پہلے ہی غیر صحت مند ہو چکی ہے۔ جب مٹی میں نامیاتی مادہ (آرگینک میٹرز) کم ہوتا ہے تو وہ فصلوں کو غذائی اجزا فراہم کرنے کی صلاحیت کھو دیتی ہے۔مٹی کی صحت برقرار رکھنے کے لیے“پائیدار کاشتکاری”(سسٹینیبل ایگری کلچر) ناگزیر ہے، جس میں نامیاتی کھاد، فصلوں کی گردش، کم جوتائی، اور قدرتی کھادوں کے استعمال پر زور دیا جاتا ہے۔

زمین کی بحالی:امید کی کرن

اقوام متحدہ نے 2030 تک زمین کے انحطاط کو صفر کرنے (لینڈ ڈیگریسن نیوٹریلیٹی) کا ہدف مقرر کیا ہے۔ اس کے لیے ایف اے او، یو این ای پی اور یو این سی سی ڈی مل کر مختلف ممالک میں”لینڈ ریسٹوریشن پروجیکٹ”پر کام کر رہے ہیں۔

ان منصوبوں کے تحت درج ذیل اقدامات کیے جا رہے ہیں

درختوں کی بحالی اور جنگلات کا تحفظ۔مٹی کی صحت کے لیے نامیاتی طریقوں کا فروغ۔پانی کے مؤثر استعمال کے لیے ڈرِپ اریگیشن (ڈرپ اریگیشن) اور رین واٹر ہارویسٹنگ۔دیہی کمیونٹیز کی تربیت اور زمین کے پائیدار استعمال کی آگاہی۔

پاکستان میں زمین کی زرخیزی میں کمی اور فصلوں کی گرتی پیداوار — ماحولیاتی بحران کی نئی شکل

زرعی پالیسیوں کی ناکامی

بیشتر ترقی پذیر ممالک کی زرعی پالیسیاں ابھی تک پیداوار بڑھانے پر مرکوز ہیں، پائیداری پر نہیں۔ یہ ایک خطرناک رجحان ہے کیونکہ قلیل مدتی پیداوار میں اضافے کے لیے زمین کو طویل مدتی نقصان پہنچایا جا رہا ہے۔

پاکستان کی زرعی پالیسیوں میں اب بھی زمین کی بحالی، نامیاتی کھادوں کے فروغ، یا مٹی کی صحت کے جائزے کو خاطر خواہ اہمیت نہیں دی جا رہی۔ نتیجتاً، زمین کی طبعی ساخت بگڑ رہی ہے اور پانی جذب کرنے کی صلاحیت کم ہو رہی ہے۔

معاشی اور ماحولیاتی اثرات

زمین کی تباہی صرف زراعت تک محدود نہیں بلکہ یہ معیشت، صحت اور ماحولیاتی توازن پر بھی براہِ راست اثر ڈال رہی ہے۔زمین بنجر ہونے سے کسانوں کی آمدنی کم ہو رہی ہے۔

شہروں کی جانب ہجرت بڑھ رہی ہے۔جنگلات اور حیاتیاتی تنوع (بائیو ڈائیورسٹی) خطرے میں پڑ رہے ہیں۔اور سب سے بڑھ کر، کاربن کے ذخائر کم ہونے سے موسمیاتی تبدیلی کی رفتار مزید تیز ہو رہی ہے۔

پاکستان میں زمین کی زرخیزی میں کمی اور فصلوں کی گرتی پیداوار — ماحولیاتی بحران کی نئی شکل

پاکستان کے لیے ممکنہ راستے

پاکستان کے لیے وقت آ چکا ہے کہ وہ اپنی زرعی حکمت عملی کو بنیادی طور پر تبدیل کرے۔اس حوالے سے ماہرین درج ذیل سفارشات دیتے ہیں

زمین کی مٹی کا قومی ڈیٹا بیس قائم کیا جائے۔نامیاتی کاشتکاری کے فروغ کے لیے مراعاتی پالیسی۔درخت لگانے اور چراگاہوں کے تحفظ کے لیے مقامی کمیونٹیز کو شامل کیا جائے۔پانی کے جدید اور مؤثر نظامات (ڈرپ/اسپرنکل) کا فروغ۔تعلیمی نصاب میں زمین کے تحفظ کو شامل کیا جائے۔

یہ بھی پڑھیں

جب کھیت زہر اُگلنے لگیں

پائیدار ترقی اور موسمیاتی انصاف

زمین ہماری سانس ہے

زمین صرف مٹی نہیں، بلکہ زندگی کا بنیادی حوالہ ہے۔ ہم جو کچھ کھاتے، پیتے یا پہنتے ہیں، سب اسی سے جڑا ہے۔ اگر زمین بیمار ہو جائے تو انسان کی بقا ناممکن ہو جاتی ہے۔ایف اے او کی تازہ رپورٹ ہمیں ایک خاموش مگر گہری وارننگ دے رہی ہے کہ زمین کی چیخیں اب سنائی دینے لگی ہیں۔ اگر آج ہم نے زمین کی بحالی کے لیے اجتماعی، سائنسی اور عملی اقدامات نہ کیے تو کل نہ صرف فصلیں، بلکہ پوری تہذیب مٹنے کے دہانے پر ہوگی۔

اپنا تبصرہ لکھیں