آسیان ماحولیاتی اعلامیہ 2025: صاف، محفوظ اور پائیدار ماحول کو انسانی حق قرار دیا گیا۔ پاکستان کے لیے لمحۂ فکریہ اور عملی سبق۔
فروزاں تجزیاتی رپورٹ
کولالمپور سے تاریخی قدم: انسان اور زمین کا نیا معاہدہ
جنوب مشرقی ایشیائی ممالک کی تنظیم آسیان نے 26 اکتوبر 2025 کو کولالمپور میں اپنے اجلاس کے دوران ایک تاریخی ماحولیاتی اعلامیہ منظور کیا جس کا عنوان ہے
”حق محفوظ، صاف، صحت مند اور پائیدار ماحول“(The Right to a Clean, Safe, Healthy and Sustainable Environment)۔
یہ اعلامیہ ماحولیاتی پالیسی، انسانی حقوق اور پائیدار ترقی کے اخلاقہ و قانونی عہد اور تعلق کو نئی جہت فراہم کرتا ہے۔ یہ محض ایک سیاسی بیان نہیں بلکہ انسان اور زمین کے باہمی رشتے کی قانونی و اخلاقی توثیق ہے۔
“صاف اور محفوظ ماحول میں جینا ہر انسان کا بنیادی حق ہے، کوئی عیاشی نہیں۔”
پسِ منظر: وہ خطہ جو ماحول کی جنگ لڑ رہا ہے
جنوب مشرقی ایشیا کا شمار دنیا کے ان خطوں میں ہوتا ہے جہاں آب و ہوا کی تبدیلی، فضائی آلودگی، سمندری سطح میں اضافہ، اور حیاتیاتی تنوع کے خاتمے جیسے مسائل تیزی سے بڑھ رہے ہیں۔
پچھلی دہائی میں آسیان ممالک،جن میں انڈونیشیا، ملائیشیا، تھائی لینڈ، فلپائن، ویتنام، کمبوڈیا، لاؤس، میانمار، سنگاپور اور برونائی شامل ہیں نے مختلف ماحولیاتی معاہدے کیے، مگر کوئی ایسا فریم ورک موجود نہیں تھا جو ماحول کو ایک بنیادی انسانی حق کے طور پر تسلیم کرے۔

اقوامِ متحدہ کے ماہرین کے مطابق، یہ اعلامیہ دنیا میں اُس رجحان کو مضبوط کرتا ہے جو اس بات کو تسلیم کرتا ہے کہ”صاف اور محفوظ ماحول میں جینا انسان کا بنیادی حق ہے، نہ کہ ایک عیاشی یا رعایت“۔
اس سے قبل 2002 میں آسیان نے ”بین ا لسرحدی ہیز پلوشن معاہدہ“ کے ذریعے جنگلات کی آگ سے پیدا ہونے والی دھوئیں کے مسئلے پر علاقائی تعاون کا آغاز کیا تھا، مگر 2025 کا اعلامیہ اس سے کہیں زیادہ جامع اور اخلاقی بنیادوں پر استوار ہے۔
اعلامیے کے اہم نکات
ماحول بطور انسانی حق
اعلامیے میں صاف، محفوظ، صحت مند اور پائیدار ماحول تک رسائی کو بنیادی انسانی حق تسلیم کیا گیا ہے۔اس میں یہ واضح کیا گیا کہ حکومتوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ ایسا ماحول فراہم کریں جہاں انسان عزت اور سلامتی کے ساتھ زندگی گزار سکے۔
شفافیت اور عوامی شمولیت
تمام رکن ممالک پر زور دیا گیا ہے کہ وہ ماحولیاتی معلومات تک عوامی شرکت، شفافیت،معلومات تک رسائی اور فیصلوں میں شہریوں کی شمولیت کو یقینی بنائیں۔یہ عہد ”ماحولیاتی جمہوریت“کے اصول کو فروغ دیتا ہے یعنی ماحول سے متعلق پالیسیوں میں عوامی آواز کی اہمیت۔
قانونی و انتظامی ذمہ داریاں
آسیان ممالک نے اتفاق کیا کہ وہ اپنے قومی قوانین میں ماحولیاتی حقوق کو شامل کریں گے، اور بین الاقوامی معاہدوں کی پاسداری کریں گے جیسے پیرس معاہدے اور 2030 کے پائیدار ترقی کے اہداف (ایس ڈی جیز)۔
علاقائی تعاون اور کمزور طبقات کا تحفظ
اعلامیے میں خاص طور پر خواتین، نوجوان، مقامی قبائل، اور معذور افراد کو ماحولیاتی پالیسیوں کا مرکزی فریق تسلیم کیا گیا ہے۔اس کے ساتھ علاقائی شراکت داری، معلومات کے تبادلے، اور تکنیکی مدد کو لازمی قرار دیا گیا ہے۔

عملی اقدامات اور فالو اپ پلان
آسیان کے انسانی حقوق کمیشن (اے آئی سی ایچ آر) کو یہ ذمے داری دی گئی ہے کہ وہ اعلامیے کی بنیاد پر ایک عملی لائحہ عمل (علاقائی پلان آف ایکشن) تیار کرے، جو ہر ملک میں قابلِ نفاذ پالیسیوں کی سمت متعین کرے گا۔
ماحولیاتی انصاف کی سمت ایک قدم
یہ اعلامیہ دراصل”ماحولیاتی انصاف“کے تصور کو تقویت دیتا ہے۔عالمی سطح پر ماہرین کا ماننا ہے کہ یہ اعلامیہ پیرس معاہدے اور اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی 2022 کی قرارداد کے تسلسل میں ایک تاریخی قدم ہے، جس میں دنیا بھر میں ماحول کے حق کو تسلیم کیا گیا تھا۔

اقوام متحدہ کے ماحولیاتی ماہر ڈاکٹر ڈیوڈ بوئڈ کے مطابق’’ آسیان کا یہ اعلامیہ صرف خطے کے لیے نہیں، بلکہ دنیا بھر کے لیے ایک ماڈل ہے کہ کس طرح ماحولیاتی حقوق کو انسانی حقوق کے دائرے میں شامل کیا جا سکتا ہے‘‘۔
پاکستان کے لیے اس اعلامیے کی اہمیت
اگرچہ پاکستان آسیان کا رکن نہیں، مگر یہ اعلامیہ ہمارے لیے کئی حوالوں سے سبق آموز ہے۔پاکستان کے آئین میں ماحولیات کو براہِ راست بنیادی حق کے طور پر تسلیم نہیں کیا گیا۔
آسیان کا ماڈل یہ راہ دکھاتا ہے کہ کس طرح آئینی سطح پر”صاف ماحول کے حق“کو تسلیم کیا جا سکتا ہے۔جنوبی ایشیا میں سارک کی ماحولیاتی کارکردگی محدود رہی ہے۔
آسیان کے اس اقدام سے سیکھا جا سکتا ہے کہ خطے کی تنظیمیں ماحولیاتی ایجنڈے کو کس طرح مؤثر بنا سکتی ہیں۔پاکستان میں ماحولیاتی فیصلہ سازی عموماً عوامی شمولیت سے محروم ہوتی ہے۔
آسیان اعلامیہ اس پہلو پر زور دیتا ہے کہ شفافیت اور عوامی شرکت کے بغیر پائیدار ماحول ممکن نہیں۔
چیلنجز اور تنقید
ہر اعلامیہ کی طرح اس معاہدے کو بھی عمل درآمد کے کئی چیلنجز درپیش ہیں،کئی ممالک میں قانون تو بن جاتے ہیں مگر ان پر عمل نہیں ہوتا۔
ماحولیاتی پالیسیوں کے لیے مضبوط نگرانی نظام ضروری ہے۔ترقی پذیر ممالک کو مالی و تکنیکی مدد کے بغیر ان اہداف تک پہنچنا مشکل ہوگا۔
بعض ناقدین نے توجہ دلائی ہے کہ اعلامیے میں“دیسی”کی اصطلاح استعمال ہوئی ہے”دیسی لوگ“نہیں جو شناخت کے اعتبار سے ایک کمی ہے۔خطے میں بعض ممالک صنعتی ترقی اور ماحولیاتی تحفظ کے درمیان توازن قائم کرنے میں مشکلات کا شکار ہیں، جو نفاذ کی راہ میں رکاوٹ بن سکتی ہیں۔
مستقبل کی سمت
کولالمپور اعلامیہ دراصل ایک ایسے مستقبل کی سمت اشارہ کرتا ہے جہاں ماحولیاتی پالیسی محض درخت لگانے یا کاربن کم کرنے تک محدود نہیں بلکہ انسانی وقار، سماجی انصاف اور زمین کی بقا سے جڑی ہوئی ہے۔
‘‘ماحولیات محض درختوں کی کہانی نہیں، انسان کے جینے کی شرط ہے۔’’
پاکستان کے لیے بھی یہ لمحہِ فکریہ ہے کہ آیا ہم اپنے شہریوں کو ایسا ماحول فراہم کر پا رہے ہیں جو صحت مند، محفوظ اور پائیدار ہو؟
اگر آسیان جیسے ترقی پذیر ممالک کا گروپ یہ قدم اٹھا سکتا ہے تو جنوبی ایشیا کیوں نہیں؟ یہ وہ سوال ہے جو ہمارے ماحولیاتی ماہرین، پالیسی سازوں اور سول سوسائٹی کو اب خود سے پوچھنا ہوگا۔
کولالمپور اعلامیہ محض ایک دستاویز نہیں بلکہ ایک وژن ہے۔ایسا وژن جو کہتا ہے کہ ”ماحولیات محض درختوں کی کہانی نہیں، انسان کے جینے کی شرط ہے“۔
کیا اسے دیکھنا یاد ہے؟
عرب دنیا میں موسمیاتی تبدیلی: گرین جابز کے نئے مواقع اور معاشی تبدیلی
آسیان نے یہ تسلیم کر کے دنیا کو پیغام دیا ہے کہ ماحول کی تباہی دراصل انسانی حق تلفی ہے۔
پاکستان اور دیگر جنوبی ایشیائی ممالک کے لیے یہ وقت ہے کہ وہ اس مثال سے سبق لیں، اپنے آج آئین، پالیسی اور سماجی رویوں میں ماحولیاتی انصاف کے اصول کو شامل کریں
تاکہ آنے والی نسلوں کے لیے زمین صرف باقی نہ رہے، بلکہ قابلِ جینے بھی ہو۔

کوالالمپور میں منعقدہ اس بین الاقوامی کانفرنس نے ماحولیاتی تحفظ کے بارے میں عالمی بیانیے کو ایک نئی سمت دی ہے۔ انسان اور زمین کے درمیان “نئے معاہدے” کا تصور بظاہر ایک علامتی جملہ معلوم ہوتا ہے، مگر اس کے پیچھے حقیقت میں ایک گہرا پیغام پوشیدہ ہے۔اور وہ یہ کہ دنیا مزید تاخیر کی متحمل نہیں ہو سکتی۔
اس کانفرنس کی اہمیت اس لیے بھی زیادہ ہے کہ اس میں صرف ماہرین اور پالیسی ساز ہی نہیں، بلکہ نوجوان لیڈرز، ماحول دوست تنظیمیں اور تحقیقاتی ادارے بھی شریک ہوئے۔ یہ شمولیت اس بات کا ثبوت ہے کہ ماحولیاتی بحران کوئی تکنیکی یا سرکاری مسئلہ نہیں رہا؛ یہ ایک اجتماعی انسانی چیلنج بن چکا ہے۔
اجلاس میں کلین انرجی، خصوصاً سولر ٹیکنالوجی کی طرف منتقلی، شجرکاری، اور ماحول دوست پالیسیوں کی ضرورت پر جس شدت سے زور دیا گیا ہے، وہ ایک مثبت پیش رفت ہے۔ تاہم، اصل امتحان ان سفارشات پر عملی اقدامات اور حکومتی ارادوں کا ہے۔ دنیا بھر میں ماحول کے تحفظ سے متعلق وعدے تو بہت کیے جاتے ہیں، مگر ان پر عمل درآمد اکثر سست یا ناکافی رہتا ہے۔
کوالالمپور کا یہ تاریخی قدم امید کا پیغام ضرور ہے، لیکن اس امید کو حقیقت بنانے کے لیے ممالک کو اپنی معاشی ترجیحات پر نظر ثانی کرنا ہوگی۔ ترقی کی دوڑ میں اگر زمین کی سانسیں کمزور پڑ جائیں، تو انسان کی ترقی بھی معنی کھو بیٹھتی ہے۔
بہرحال، یہ کانفرنس مستقبل کی ایک ایسی جھلک دکھاتی ہے جہاں انسان اور زمین کے درمیان تعلق باہمی احترام، توازن اور ذمہ داری کی بنیاد پر استوار ہو۔اور یہی وہ سوچ ہے جسے عالمی پالیسی میں شامل کرنا وقت کی ضرورت بن چکا ہے۔