فروزاں فروزاں کے مضامین

کراچی کا بنیادی ڈھانچہ بحران میں: ابراہیم کا سانحہ اور کھلے مین ہولز کا خطرہ

“Karachi infrastructure crisis mein khula manhole aur Ibrahim ka sanaha – nakasi nizam ki badhalti surat-e-haal

کراچی انفراسٹرکچر بحران،کھلے مین ہولز اور ناکارہ نکاسیِ آب بچوں کی زندگیاں خطرے میں ڈال رہے ہیں، ابراہیم کا سانحہ اس بگڑتے نظام کی نشانی ہے۔

“Karachi infrastructure crisis mein khula manhole aur Ibrahim ka sanaha – nakasi nizam ki badhalti surat-e-haal

آج پاکستان کا معاشی انجن، 3کروڑ سے زائد آبادی کا شہر اور ساحلی خطے کا اہم ترین معاشی و ماحولیاتی مرکز جسے دنیا پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی کے نام سے جانتی ہے۔ کراچی انفراسٹرکچر بحران کے انہدام کا ایسا شکار ہے کہ یہاں رہائش، نقل و حمل، نکاسی آب، صحتِ عامہ اور ماحول کے ہر شعبے میں سنگین مسائل جنم لے چکے ہیں۔

یہی بگاڑ بالاآخر ایسی دل دہلا دینے والی خبروں میں ڈھلتا ہے “بچہ گٹر میں گر کر جاں بحق”۔ گزشتہ دنوں کمسن ابراہیم کا گٹر میں گر کر موت کے منہ میں چلے جانا کوئی انوکھا واقعہ نہیں تھا، اور یہی اس شہری سانحے کا سب سے بڑا المیہ ہے۔

کراچی انفراسٹرکچر بحران کے باعث، شہر میں کھلے مین ہولز، ٹوٹے ڈھکن، غیر تسلی بخش نکاسی آب اور برسوں سے نظرانداز شدہ شہری منصوبہ سازی نے بچوں کی زندگیوں کو روزانہ کی بنیاد پر خطرے میں ڈال رکھا ہے۔

ابراہیم کی موت ایک سوال ہے! آخر کراچی جیسا شہر، جس کی معیشت پورے ملک کو سہارا دیتی ہے، اپنے بچوں کے لیے بھی محفوظ کیوں نہیں؟ آج کھلے مین ہولزایک خاموش قاتل کا روپ دھار چکے ہیں۔

“Karachi infrastructure crisis mein khula manhole aur Ibrahim ka sanaha – nakasi nizam ki badhalti surat-e-haal
ابراہیم کا سانحہ کراچی کے بوسیدہ شہری انفراسٹرکچر اور کھلے مین ہولز کی خطرناک حقیقت کو بے نقاب کردیا ہے۔

کراچی میں سینکڑوں مین ہولز بغیر ڈھکن کے موجود ہیں۔ کچھ برساتی پانی میں چھپ جاتے ہیں، کچھ چوری ہو جاتے ہیں، اور کچھ محکمہ جاتی غفلت کا نتیجہ ہوتے ہیں۔

بدقسمتی سے یہ صورتحال کوئی عارضی بے ترتیبی کی نہیں بلکہ شہر کے پورے نکاسی آب کے نظام میں موجود دیرینہ بدانتظامی کی علامت ہے۔

کے یم سی، واٹر اینڈ سیوریج کارپوریشن، ڈی ایم سیزاور دیگر اداروں کے درمیان اختیارات کی کھینچا تانی صورتحال کو بگاڑنے میں بنیادی کردار کی حامل ہے۔

غیر مربوط شہری منصوبہ بندی،سڑکوں اور سیوریج لائنوں کی مرمت میں بے حد تاخیر،بارشوں کے بعد ہنگامی اقدامات کا فقدان۔یہ تمام عوامل مل کر ایسے سانحات کو مسلسل جنم دیتے ہیں جن کا شکار وہ بچے بنتے ہیں جن کے کندھوں پر قوم کا مستقبل رکھا جاتا ہے۔

ابراہیم جیسے حادثات صرف بدانتظامی نہیں بلکہ موسمیاتی بحران کے بڑھتے اثرات سے بھی جڑے ہیں۔

کراچی سمندر کے ساتھ واقع ایک کم بلندی اور گنجان آبادی والا شہر ہے جہاں بارشیں معمول سے کہیں زیادہ شدید ہو رہی ہیں جس کے نتیجے میں شہری سیوریج سسٹم کا بار بار اوور فلو ہونا معمول بن چکا ہے۔

شہر کے کئی علاقے عارضی جھیلوں میں بدل جاتے ہیں اورمین ہولز کے ساتھ کھلے نالے پانی میں ڈوب کر موت کے جال بن جاتے ہیں۔

ماہرین پہلے ہی متنبہ کرچکے ہیں کہ کراچی جنوبی ایشیا کے ان شہروں میں شامل ہے جو شدید موسمیاتی خطرات کے مرکز میں داخل ہو چکے ہیں۔ یعنی اگر شہری انفرا اسٹرکچر پہلے ہی بوسیدہ ہو تو ماحول اور موسم میں ہر معمولی تبدیلی بھی جان لیوا ثابت ہوتی ہے۔

اس بات میں کوئی دو رائے نہیں ہو سکتی کہ کراچی کا بنیادی انفرا اسٹرکچر کم از کم دو دہائیوں سے زوال کا شکار ہے۔سیوریج لائنیں پرانی اور ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو چکی ہیں،واٹر اینڈ سیوریج کارپوریشن کے پاس فنڈز اور عملے کی کمی ہے۔

غیر رسمی بستیوں میں بغیر نقشے کے تعمیرات کھلے عام ہو رہی ہیں اور کوئی ادارہ انہیں روکنے والا نہیں،نالوں پر تجاوزات اور ان پر بنے غیر سائنسی ڈھانچے شہری انفرا اسٹکچر کا منہ چڑا رہے ہیں،کچرے اور پلاسٹک کے بوجھ سے بند ہوتی ڈرینج اور سولڈ ویسٹ کے مسائل، ان سب عوامل نے مل کر پاکستان کے معاشی حب کو ناقابل رہائش شہر میں تبدیل کر دیا ہے۔

ایسے شہر میں مین ہول کا کھلا ہونا محض ایک غفلت نہیں بلکہ انتظامی ذمے داریوں کے پورے نظام کا انہدام ہے۔ کیا یہ ماحولیاتی مسئلہ ہے یا انتظامی؟ اصل میں دونوں۔

یہ امر اب حقیقت بن چکی ہے کہ کراچی کے شہری مسائل اب ایک اجتماعی بحران کی شکل اختیار کر چکے ہیں، جہاں،موسمیاتی تبدیلی،سمندر کی سطح میں اضافہ،اربن ہیٹ آئی لینڈ ایفیکٹ،سیلابی بارشیں اور شہری اداروں کی بدانتظامی کے ساتھ سیاسی جماعتوں کی چپقلش یہ سب ایک ہی لڑی میں جڑ چکے ہیں۔

ابراہیم کی کہانی اسی بڑے ماحولیاتی و شہری بحران کی ایک المناک مثال ہے۔ اس کا ذمہ دار کون ہے؟ یہ سوال ابھی بھی اپنی جگہ موجود ہے۔

ہر سانحے کے بعد یہی سوال اٹھتا ہے،مین ہول کس نے کھلا چھوڑا؟ذمہ دار کون ہے؟اداروں نے ٹائم پر کارروائی کیوں نہ کی؟احتیاطی اقدامات کیوں نہیں کیے گئے؟

لیکن ان سوالات کے جواب کبھی نہیں ملتے، اور کچھ دن بعد زندگی معمول پر آ جاتی ہے،تاوقت یہ کہ کوئی نیا ابراہیم ایک اور کھلے مین ہول میں گر کر جان سے ہاتھ نہ دھو بیٹھے۔

“Karachi infrastructure crisis mein khula manhole aur Ibrahim ka sanaha – nakasi nizam ki badhalti surat-e-haal
ابراہیم کا سانحہ کراچی کے بوسیدہ شہری انفراسٹرکچر اور کھلے مین ہولز کی خطرناک حقیقت۔ میئر کراچی کا لواحقین سے معذرت اور دکھ کا اظہار

اگر کراچی کو محفوظ شہر بنانا ہے تو چند بنیادی اقدامات فوری طور پر ناگزیر ہو چکے ہیں جن میں سیوریج سسٹم کی مکمل آڈٹ اور ری ڈیزاننگ،پرانی اور ٹوٹی لائنوں کی ہنگامی تبدیلی،مین ہول مانیٹرنگ سسٹم، GPSٹیگ شدہ، لاکڈ کور، اور موبائل ایپ رپورٹنگ سسٹم،شہری اداروں کے درمیان اختیارات کی وضاحت،کے یم سی، ڈی ایم سیز،واٹر اینڈ سیوریج کارپوریشن کے درمیان مربوط حکمت عملی،بارشوں کے دوران ایمرجنسی رسپانس یونٹ،ہر علاقے میں مین ہول کور کی مستقل نگرانی کے ساتھ شہر کی ماحولیاتی منصوبہ بندی،کلائمیٹ رسک بیسڈ اربن پلاننگ، تاکہ شہر کو آنے والے موسمیاتی واقعات سے محفوظ رکھا جا سکے۔

عوامی آگاہی کی مہم ،گلی، محلے، اسکول، کالونی سطح پر کھلے مین ہولز کی فوری رپورٹنگ اور حفاظتی علامات کی تنصیب شامل ہے۔

ابراہیم کی موت شہر کے لیے آخری وارننگ ہونی چاہیے۔یہ سانحہ ایک بچے کی موت نہیں،یہ کراچی کے شہری نظام کے لیے ریڈ الرٹ ہے۔

“Karachi infrastructure crisis mein khula manhole aur Ibrahim ka sanaha – nakasi nizam ki badhalti surat-e-haal
ابراہیم کا سانحہ کراچی کے بوسیدہ شہری انفراسٹرکچر اور کھلے مین ہولز کی خطرناک حقیقت ۔

اگر یہ شہر آج بھی نہیں جاگتا، اگر شہری ادارے اور شہر میں متحرک سیاسی جماعتیں اب بھی اپنی ترجیحات درست نہیں کرتے، اگر ماحولیاتی اور موسمیاتی حقیقتوں کو سنجیدگی سے نہ لیا گیا تو یہ سلسلہ کبھی نہیں رکے گااور کراچی انفراسٹرکچر بحران بڑھتا جائیگا۔

یہ بھی پڑھیں

ایگرو کارپوریشنز کا اثر: عالمی منافع کی بھوک اور زمین کی آخری پکار

کسانوں اور ماہی گیروں کا 99 ارب ڈالرز کا نقصان

کراچی کے ہر بچے کو محفوظ گلیاں، محفوظ راستے اور تحفظ کا حق ہے۔یہ حق ابراہیم کے بعد آنے والے ہر بچے کے لیے ہم سب کو مل کر یقینی بنانا ہوگا۔

اپنا تبصرہ لکھیں