فروزاں ماحولیاتی رپورٹس

ماحولیاتی تحفظ کی فرنٹ لائن: کیٹی بندر کے مینگروو اور مقامی مچھیروں کی زندگی

مینگروو

سائیکلون یا سونامی آ بھی جائے تو ہماری ڈیفنس لائن یہ 20 سے 25 فٹ والے مینگروو ہوں گے، فاریسٹ آفیسر محمد خان جمالی

مینگروو

انڈیا کے چولستان بارڈر سے منسلک سندھ کے ضلع ٹھٹہ کی حدود میں اہم ترین بندرگاہ کیٹی بندرگھارو سے 120 کلومیٹر جب کہ صوبائی دارالحکومت کراچی کے جنوب مشرق میں 200 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔

ٹھٹہ ٹول ٹیکس سے بھنبھور، گھارو، میرپور ساکرو، گاڑھو اور بگان کے بعد کیٹی بندر ٹاؤن آتا ہے جو تقریبا پانچ ہزار گھروں پر مشتمل ہے جس میں 15 سے 20 ہزار کے قریب افراد آباد ہیں۔ 19 ویں صدی میں یہاں کی آبادی زیادہ تعداد میں ہوا کرتی تھی تاہم مسلسل نقل مکانی کی وجہ سے آج یہاں محض چند گاؤں ہی باقی رہ گئے ہیں۔

زمین کا وہ ٹکڑا جو تقریباایک ہزار ایکڑ پر مشتمل ہو اسے کیٹی اور بندر یا بندرگاہ کا مطلب ساحلی جگہ ہے۔پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی سے تعلق رکھنے والے صحافیوں کے ایک گرپ نے گرین میڈیا انیشیٹو اور سندھ محکمہ جنگلات کے تعاون سے کیٹی بندر کا دورہ کیا۔

کیٹی بندر جاتے ہوئے سڑک کے دونوں اطراف کھیت کھلیان نظر آئے ۔ اس جگہ چاول کی فصل جن میں موٹا چاول اُگتا ہے کہ علاوہ سانچی پان کی فصل، مرچوں کی فصل، کیلے کے درخت اور سری لنکن ناریل کے درخت موجود تھے ۔ یہ فصلیں 2022 فلڈ کے بعد اب 2025 میں کاشت ہوتی دکھائی دیں۔ اور ایک جو اہم چیز دیکھنے کو ملی وہ یہ کہ کیٹی بندر ٹاؤن پہنچنے تک پورے کیٹی بندر کے اطراف میں مینگروو کے ہزاروں کی تعداد میں درخت دکھائی دیے۔

مینگروو کا مطلب دلدل یا جھاڑی کے ہیں جو زرخیز گیلی زمینوں اور ساحلی علاقوں میں اگتے ہیں، اس حوالے سے شہزاد صادق ڈویژنل فارسٹ آفیسر نے بتایا کہ 2012 کے بعد یہاں لاکھوں کی تعداد میں مینگروو کے جو پودے لگائے گئے ، انکے بیج کراچی سے لائے گئے جو مینگروو کے بڑے درختوں سے نکلتے ہیں۔

صادق ڈویژنل فارسٹ آفیسر نے مزید بتایا کہ کیٹی بندر میں 17 کریکس مطلب کھاڑی یا گھاٹی ہیں اور ان میں سے چھوٹی چھوٹی کریکس نکلتی ہیں۔

ان کریکس اور مینگروو کی اقسام کو دکھانے اور تفصیلی معلومات فراہم کرنے کی غرض سے محکمہ جنگلات سندھ کے آفیشلز نے ہمیں کیٹی بندر دریا کی ایک کریکس جھامڑو کا دورہ کرایا۔ انہوں نے بتایا کہ یہاں ڈیلٹا میں صبح صبح بڑی تعداد میں ڈولفن مچھلیاں دکھائی دیتی ہیں اور یہاں مچھلیوں کے علاوہ بھی کئی اقسام کے جانور موجود ہیں جن میں سانپ، کیکڑے، جنگلی بلی، بغلے اور دیگر پرندے شامل ہیں۔

انہوں نے کہا کہ 80 کی دہائی میں طاہر قریشی جنہیں بابائے مینگروو بھی کہا جاتا ہے، نے مینگروو لگانے کی شروعات کی تھی اور اس وقت آٹھ سے سات نسل کے مینگروو پائے جاتے تھے تاہم اب چار اقسام ہی زندہ بچی ہیں۔

مینگرووز

مینگروو کی اقسام کے حوالے سے معروف ایکو لوجسٹ رفیع الحق نے بتایا کہ مینگروو کی جو نسل سب سے زیادہ پائی جاتی ہے اسکا نام اوبی سینا مرینا ہے، دوسری رایزوفورا ہے جس کے چوڑے پتے ہوتے ہیں، تیسری نسل جس پر پھول اگتے ہیں اسے سیریپس ٹیگل کہتے ہیں جبکہ چھوتی نسل کو ایجیرس کورنیکولٹم کہا جاتا ہے اور یہ مینگروو سیلابی پانی کے آنے سے مزید ہرے بھرے ہوجاتے ہیں۔

زراعت نہ ہونے کی وجہ سے یہاں کے لوگوں کی کمائی کا بڑا ذریعہ ماہی گیری ہے۔ یہ لوگ کئی کئی دن تک بحیرہ عرب میں مچھلیوں کا شکار کرتے ہیں۔

کیٹی بندر پہنچتے ہی میری ملاقات نظیر ناقو نامی ماہی گیر سے ہوئی جو کیٹی بندر کے پانی میں مچھلیاں پکڑنے کے لیے بوٹ لے جانے کی تیاری کر رہا تھا۔ اس نے بتایا کہ پانچ سال پہلے میں یہاں نہیں رہتا تھا لیکن پانی کی قلت کے باعث میں یہاں آکر اپنے بیوی بچوں کے ہمراہ آباد ہوگیا۔ یہاں میں نے جھاڑ اور گارے کی مدد سے اپنے گھر کو تیار کیا اور روزانہ ہوڑی لے کے کیٹی بندر کے دریا میں چلا جاتا ہوں۔

مینگرووز

یاد رہے کہ ہوڑی اس بوٹ کو کہتے ہیں جو تقریبا 20 فٹ کی لمبائی پر مشتمل ہوتی ہے اور اس کے انجن میں ایک پسٹن اور ایک چھوٹی موٹر جو کم ہارس پاور کی لگی ہو اور اس طرح کی ہوڑی یعنی بوٹ کی قیمت تقریبا چار سے پانچ لاکھ روپے ہوتی ہے جبکہ اس سے بڑی بوٹ یا لانچ جو تقریبا 30 فٹ کی لمبائی پر مشتمل ہوتی ہے جس کے انجن میں آٹھ سے دس پسٹن لگے ہوں اور بڑی ہارس پاور کی موٹر لگی ہوتی ہے اس کی قیمت سات سے آٹھ کروڑ روپے تک کی ہوتی ہے اسے ہوڑا کہا جاتا ہے۔

نظیر ناقو نے بتایا کہ جس طرح گاڑی چلانے والے کو ڈرائیور کہتے ہیں اسی طرح ہم ہوڑی، ہوڑا یعنی بوٹ یا لانچ چلانے والے کو سندھی زبان میں ناقو یا کیپٹن کہا جاتا ہے۔

اس کا کہنا تھا کہ ہوڑی اس نے قرضے پر لی ہے، کیٹی بندر کے بارے میں بتایا کہ دریا کا پانی دن میں 2 دفعہ چھ گھنٹے کے لیے اوپر آتا ہے جسے ہم ” جوار ” کہتے ہیں اور باقی چھ گھنٹے پانی نیچے رہتا ہے جسے ہم ” بگی “کہتے ہیں، پانی اوپر آنے سے مچھلیاں، جھینگے، کیکڑے پکڑنے میں ہم مچھیروں کو آسانی ہوتی ہے۔

نظیر ناقو نے یہ بھی بتایا کہ گرمیوں کے مہینے ہم مچھیروں کی خوشحالی کے دن ہوتے ہیں جب دن میں 24 گھنٹے پانی اوپر ہی رہتا ہے جبکہ سردیوں میں کچھ مہینے ایسے ہوتے ہیں جس میں پانی 24 گھنٹے نیچے ہی رہتا ہے جس کی وجہ سے مچھلیاں پکڑنے میں بہت مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

ماہی گیر نظیر ناقو نے کہا کہ طوفان اور سیلاب میں ہم مقامی مچھیروں کو خوشی ملتی ہے اس سے کیٹی بندر کے دریا میں بڑی تعداد میں مچھلیاں آجاتی ہیں اور ہم مقامی لوگوں کو میٹھا پانی بھی فراہم ہو جاتا ہے۔

اس کا کہنا تھا کہ کیٹی بندر ٹاؤن میں میٹھے پانی کی لائن بھی موجودہے جس سے کبھی کبھار پینے کا صاف پانی ہمیں میسر آجاتا ہے بصورت دیگر ہمیں پانی خریدنا پڑتا ہے ۔ عمومی طور پر یہاں لائٹ کا کوئی انتظام نہیں اور اس کا اندازہ سندھ فارسٹ آفس کیٹی بندر کی چھتوں پر سولر سسٹم لگا دیکھ کر بخوبی ہوجاتا ہے ۔ اسی سولر سسٹم کی بنا پر سندھ فارسٹ آفس کے کمروں کے پنکھے اور لائٹیں جل رہی تھیں۔

سندھ محکمہ جنگلات کے رینج فارسٹ آفیسر محمد خان جمالی نے بتایا کہ کیٹی بندر ٹاؤن آج تک قدرتی آفات سے محفوظ رہا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ جب بھی سائیکلون یا سونامی اس طرف آرہا ہوتا ہے تو ڈیلٹا کی وجہ سے ایک پوائنٹ ایسا آتا ہے جہاں سے ان کارخ عمان، بلوچستان یا انڈیا کی جانب ہو جاتا ہے۔

انہوں نے مزید بتایا کہ اگر کوئی سائیکلون یا سونامی آ بھی جائے تو ہماری ڈیفنس لائن پر 20 سے 25 فٹ والے مینگروو ہوں گے کیونکہ سونامی یا سائیکلون سب سے پہلے ان سے ٹکرائے گا۔

ماہی گیر نظیر ناقو نے بتایا کہ میں کیٹی بندر دریا میں روزانہ بنیاد پر 12 سے 15 ہزار مالیت تک کی مچھلیاں، جھینگا، کیکڑے شکار کرتا ہوں، یہاں مشکا مچھلی کی تعداد زیادہ ہے۔

انہوں نے بتایاکہ وہ شکار کی گئی مچھلی، جھینگا، کیکڑے کو کیٹی بندر میں موجود فش ڈیپو میں فروخت کر دیتے ہیں۔

کیٹی بندر میں موجود فش ڈیپو کے مالک نےتفصیلات سے آگاہ کرتے ہوئے بتایا کہ جس ماہی گیرپر بوٹ کا قرضہ ہوتا ہے تو وہ روزانہ کی بنیاد پر شکار کی گئی مچھلیاں ہمیں فروخت کردیتا ہے جو ہم کراچی فشری میں لے جاکر فروخت کرتے ہیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ مچھیرے ہمیں مچھلیاں فروخت اس لیے کرتے ہیں کہ روزانہ کی بنیاد پر کراچی فشری جانے آنے کے خرچے سے بچ سکیں۔

تاہم یہ ایک دلچسپ امر ہے کہ جن مچھیروں پر قرضہ نہیں ہوتا، وہ اپنی بوٹ لانچ کے مالک ہوتے ہیں۔ اس لیے وہ خود کراچی فشری جاکر پکڑی گئی مچھلیاں فروخت کرتے ہیں۔

فش ڈیپو کے مالک نے مزید بتایا کہ کئی بار ایسا ہوتا ہے کہ ایک دن میں لاکھوں روپے مالیت کی مچھلیاں بھی ماہی گیر پکڑ لیتے ہیں۔ تاہم یہ ایک محنت طلب کام ہے اور اس میں قسمت کا عمل دخل زیادہ ہوتا ہے ۔

ماہی گیر نظیر ناقو نے بتایا کہ مچھلیاں، جھینگا، کیکڑے کی فروخت سے ملنے والی رقم سے میں اپنی بوٹ کا قرضہ اتارنے کے ساتھ ساتھ اس کی مینٹینس، ڈیزل کا خرچہ اور اپنے گھر کے روزانہ کی بنیاد پر اخراجات پورے کرتا ہوں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہمارے علاقے میں اسکول نزدیک نہ ہونے کی وجہ سے میرے بچے تعلیم سے محروم ہیں۔

یہ بھی پڑھیں

پاکستان میں فضائی آلودگی اور پی ایم 2.5 کے اثرات: سانس لینا خطرے میں

پلاسٹک کہانی: تحفظ سے تباہی تک

نظیر ناقو نے دکھ اور افسوس بھری آواز کے ساتھ اسپتال کی صورتحال کا خلاصہ کرتے ہوئے بتایا کہ علاج کے لیے چھوٹی ڈسپنسری تو موجود ہے لیکن وہاں دوائی موجود نہیں۔ ہماری عورتوں کو علاج معالجے کے سلسلے میں دیسی طریقہ علاج پر گزارا کرنا پڑتا ہے۔ ہمارےی بستی میں سانپ اگر بدقستی سے لوگوں کو کاٹ لے تو ڈسپنسری میں دوا ہی نہیں ہے۔ نتیجہ برقوت علاج نہ ہونے کی وجہ سے موت واقع ہوجاتی ہے۔

نظیر ناقو نے کہنا ہے کہ ہم مچھیروں کی زندگی کا وقت روزانہ ایک جیسا ہی گزرتا ہے ۔ چاہے سردی ہو گرمی ہو آندھی یا طوفان ہو، بس اس دن کا انتظار ہے کہ ہمیں پانی سے کوئی ایسی نایاب مچھلی، کیکڑا اور جھینگا مل جائے جس سے ہمارے حالات بھی بدل جائیں۔

اپنا تبصرہ لکھیں