ماحولیاتی رپورٹس

موسمیاتی تبدیلی اور باسمتی چاول: پاکستان کے لیے بڑھتا ہوا بحران

موسمیاتی اور ماحولیاتی تبدیلی اب کوئی دور کا خطرہ نہیں بلکہ موجودہ اور زندہ حقیقت ہے، باسمتی چاول اس کی ایک بڑی مثال ہے


پاکستان کی معیشت اور ثقافت میں چاول کی خاص اہمیت ہے، خصوصاً باسمتی چاول جو دنیا بھر میں اپنی خوشبو، لمبے دانے اور منفرد ذائقے اور معیار کی وجہ سے شہرت رکھتا ہے۔

پاکستان اور بھارت عالمی سطح پر باسمتی چاول کے سب سے بڑے برآمد کنندگان ہیں اور اس سے نہ صرف زرمبادلہ حاصل ہوتا ہے بلکہ لاکھوں کسانوں کا روزگار بھی وابستہ ہے۔

پاکستان دنیا کے اُن چند ممالک میں بھی شامل ہے جن کی معیشت اور معاشرت براہِ راست زراعت پر انحصار کرتی ہے۔

زراعت نہ صرف خوراکی ضروریات پوری کرتی ہے بلکہ برآمدات کے ذریعے قیمتی زرمبادلہ بھی فراہم کرتی ہے۔ ان زرعی مصنوعات میں باسمتی چاول کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔

تاہم حالیہ برسوں میں موسمیاتی تبدیلی کے اثرات نے اس فصل کو شدید خطرات سے دوچار کر دیا ہے۔ شدید بارشیں، غیر متوقع سیلاب، خشک سالی اور درجہ حرارت میں غیر معمولی اضافہ ایسے عوامل ہیں جو باسمتی کی پیداوار کو متاثر کر رہے ہیں۔

ستمبر سن 2025 میں سامنے آنے والی رپورٹس نے اس خدشے کو مزید واضح کیا ہے کہ پاکستان اور بھارت میں مون سون کی حالیہ بارشوں اور سیلاب کے بعد باسمتی چاول کی پیداوار میں نمایاں کمی آئی ہے۔

اس کے نتیجے میں عالمی منڈی میں قیمتیں بڑھ گئی ہیں اور پاکستان کے زرعی و معاشی نظام پر نئے سوالات کھڑے ہو گئے ہیں۔

موسمیاتی تبدیلی اور بارشوں کا اثر


پاکستان میں گزشتہ چند برسوں کے دوران بارشوں کے پیٹرن میں نمایاں تبدیلی آئی ہے۔ کبھی خشک سالی اور کبھی اچانک سیلاب جیسی صورتحال پیدا ہو جاتی ہے۔ک مون سون کے دوران بارشوں کی شدت اور دورانیہ غیر متوقع ہو گیا ہے۔

پاکستان میں حالیہ مون سون کے دوران غیر معمولی بارشوں نے زرعی زمینوں کو شدید نقصان پہنچایا۔

پنجاب، جو کہ باسمتی چاول کا سب سے بڑی پیداوار کا مرکز ہے، خاص طور پر متاثر ہوا ہے۔ کھیتوں میں کھڑا پانی فصلوں کو جڑ سے نقصان پہنچا رہا ہے اور کسان اگلی کاشت کے بارے میں پریشان ہیں۔

ماہرین کے مطابق یہ سب گلوبل وارمنگ کے نتیجے میں جنوبی ایشیا کے موسمی نظام میں ہونے والی تبدیلیوں کا ثبوت ہے۔

موسمیاتی تبدیلی اور باسمتی چاول پاکستان کے لیے بڑھتا ہوا بحران

موسمیاتی ماہرین کے مطابق بارشوں کے پیٹرن میں تبدیلی اور اچانک سیلابی کیفیت براہِ راست کلائمیٹ چینج کا نتیجہ ہے۔

گلوبل وارمنگ کے باعث جنوبی ایشیا میں بارشوں کی شدت اور غیر متوقع وقت میں بارشیں ہونے کے امکانات بڑھ گئے ہیں۔ اس کے نتیجے میں فصلوں کی بڑھوتری کا پورا سائیکل متاثر ہوتا ہے۔

زرعی تناظر: کسانوں کی مشکلات


باسمتی چاول کی کاشت کرنے والے کسان آج کل شدید مشکلات سے دوچار ہیں۔ پانی زیادہ ہونے کی وجہ سے کھیتوں میں جڑیں سڑنے لگتی ہیں، جبکہ بعض علاقوں میں بارش کے بعد زمین کی زرخیزی بھی متاثر ہوئی ہے۔

پنجاب اور سندھ، جو چاول کی سب سے بڑی پیداوار کے علاقے ہیں، حالیہ مون سون کی شدید بارشوں اور پانی کے ریلوں سے متاثر ہوئے ہیں۔ ہزاروں ایکڑ پر کھڑی فصلیں برباد ہو گئی۔ کسانوں کے مطابق صرف ایک دن کی موسلا دھار بارش کئی ماہ کی محنت پر پانی پھیر دیتی ہے۔

واضع رہے کہ باسمتی ایک نازک فصل ہے جسے متوازن درجہ حرارت اور خاص مقدار میں پانی درکار ہوتا ہے۔ زیادہ یا کم بارش اس کی پیداوار اور معیار دونوں کو متاثر کرتی ہے۔

کسانوں کو درپیش مسائل

بارش اور سیلاب کے بعد ہزاروں ایکڑ پر کھڑی فصل ضائع ہو گئی۔ اگلی کاشت کے لیے معیاری بیج محفوظ نہ رہ سکے، زیادہ نمی کی وجہ سے کھیتوں میں کیڑے اور بیماریاں بڑھ گئی ہیں جو چاول کی فصل کو مزید متاثر کر رہی ہیں۔

زیادہ نمی کے باعث کھیتوں میں کیڑوں اور بیماریوں کا پھیلاؤ بڑھ جاتا ہے جس کی وجہ سے کسانوں کو زیادہ مقدار میں کیڑے مار ادویات استعمال کرنا پڑتی ہیں، جو اخراجات میں اضافے کے ساتھ ساتھ ماحولیات کے لیے بھی خطرناک ہیں۔

کاشتکاری کے اخراجات میں بھی اضافہ ہو جاتا ہے کیوں کہ کسانوں کو کھیتوں کو دوبارہ آباد کرنے اور بیج لگانے کے لیے اضافی سرمایہ درکار ہوتاہے۔

یہ صورتحال نہ صرف زرعی پیداوار بلکہ کسانوں کی معاشی زندگی پر بھی براہِ راست اثر انداز ہوتی ہے۔مسلسل بارشوں اور پانی کھڑا ہونے سے زمین کی زرخیزی کم ہو رہی ہے۔

موسمیاتی تبدیلی اور باسمتی چاول پاکستان کے لیے بڑھتا ہوا بحران

ماہِ مٹی میں موجود غذائی اجزا بہہ جاتے ہیں اور فصل کی جڑیں صحیح طریقے سے نشوونما نہیں پا سکتیں۔ اس کے نتیجے میں چاول کے دانے کا معیار متاثر ہوتا ہے، جو عالمی منڈی میں پاکستانی باسمتی کی ساکھ کے لیے نقصان دہ ہے۔

قیمتوں میں اضافہ اور تجارتی بحرانقیمتوں میں اضافہ اور تجارتی بحران

بیج، کھاد اور زرعی ادویات کی قیمتوں میں پہلے سے ہی اضافہ ہے۔ اوپر سے بارشوں اور سیلاب کی وجہ سے کسانوں کو دوبارہ کاشت کے لیے سرمایہ درکار ہے۔

چھوٹے کسان اس نقصان کو برداشت کرنے کی سکت نہیں رکھتے، جس سے زرعی شعبے میں غربت اور بے روزگاری بڑھ رہی ہے۔ موسمیاتی تبدیلی کے نتیجے میں باسمتی چاول کی پیداوار میں کمی نے مقامی اور عالمی سطح پر قیمتوں میں اضافہ کر دیا ہے۔

رپورٹس کے مطابق بھارت اور پاکستان میں پیداوار متاثر ہونے سے باسمتی کی قیمت فی ٹن $50 تک بڑھ گئی ہے۔

پاکستان کے لیے یہ دوہرا بحران

مقامی مارکیٹ میں مہنگائی کی وجہ سے عوام کو روزمرہ خوراک مہنگی مل رہی ہے۔ باسمتی کی پیداوار کم ہونے سے برآمدات متاثر ہوئیں اور زرِمبادلہ کمانے کا موقع کم ہو گیا۔ا

قتصادی ماہرین کے مطابق اگر یہی صورتحال جاری رہی تو پاکستان کی زرعی معیشت کو اربوں روپے کا نقصان ہو سکتا ہے۔

چاول پاکستان کی کل برآمدات کا تقریباً 8 فیصد ہیں، اور اس شعبے میں کمی پورے تجارتی توازن کو متاثر کر سکتی ہے۔

پاکستان میں چاول عام آدمی کی خوراک کا لازمی حصہ ہے۔ پیداوار کم ہونے سے مقامی مارکیٹ میں چاول کی قیمتوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔

متوسط اور غریب طبقہ اس سے سب سے زیادہ متاثر ہوتا ہے کیونکہ ان کے بجٹ میں خوراک پہلے ہی سب سے بڑا حصہ لیتی ہے۔

عالمی پہلو: غذائی سلامتی کے خطرات

پاکستان اور بھارت مل کر دنیا کی باسمتی کی زیادہ تر برآمدات فراہم کرتے ہیں۔ جب دونوں ممالک میں پیداوار متاثر ہو تو عالمی قیمتیں تیزی سے بڑھتی ہیں۔

رپورٹس کے مطابق اس وقت عالمی منڈی میں باسمتی چاول کی قیمت میں فی ٹن 50 ڈالر تک اضافہ ہوا ہے۔ باسمتی چاول صرف پاکستان یا بھارت تک محدود نہیں بلکہ مشرق وسطیٰ، یورپ اور امریکہ میں بھی بڑی تعداد میں استعمال ہوتا ہے۔

جب جنوبی ایشیا میں پیداوار کم ہوتی ہے تو اس کے اثرات براہِ راست عالمی منڈی میں دیکھے جاتے ہیں۔مشرق وسطیٰ جہاں پاکستانی باسمتی سب سے زیادہ برآمد ہوتا ہے، وہاں قیمتوں میں اضافہ خوراک کی مہنگائی کو بڑھا رہا ہے۔

یورپی درآمد کنندگان متبادل ذرائع تلاش کر رہے ہیں لیکن کوالٹی کے لحاظ سے پاکستانی اور بھارتی باسمتی کا کوئی نعم البدل نہیں۔

موسمیاتی تبدیلی کے باعث اگر چاول سمیت دیگر اناج کی پیداوار متاثر ہوتی رہی تو دنیا کو مستقبل میں خوراک کی شدید کمی کا سامنا ہو سکتا ہے۔

موسمیاتی تبدیلی سے صرف چاول ہی نہیں بلکہ دیگر اناج اور اجناس بھی متاثر ہو رہی ہیں۔ یہ صورتحال دنیا کو مستقبل میں خوراک کی کمی کے خطرے سے دوچار کر رہی ہے۔

اگر وقت پر اقدامات نہ کیے گئے تو دنیا کو بڑے پیمانے پر فوڈ کرائسز کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

برآمدات میں کمی

پاکستان کی برآمدات میں چاول آٹھ فیصد سے زیادہ حصہ رکھتے ہیں۔ اگر پیداوار میں کمی آتی رہی تو نہ صرف برآمدات میں کمی ہوگی بلکہ تجارتی خسارہ بھی بڑھ جائے گا۔

زرمبادلہ کے ذخائر پہلے ہی دباؤ کا شکار ہیں، ایسے میں چاول کی برآمدات میں کمی معیشت کو مزید کمزور کرے گی۔

پاکستانی باسمتی کی سب سے بڑی منڈی مشرق وسطیٰ ہے، جہاں لاکھوں پاکستانی مزدور بھی مقیم ہیں۔ جب قیمتیں بڑھتی ہیں تو مقامی صارفین متاثر ہوتے ہیں اور مہنگائی کا دباؤ ان ممالک کی حکومتوں پر بھی پڑتا ہے۔

یورپی منڈی میں پاکستانی باسمتی اپنی خوشبو اور معیار کے باعث منفرد حیثیت رکھتا ہے۔ تاہم، پیداوار کم ہونے سے سپلائی چین متاثر ہوئی ہے۔

یہ بھی پڑھیں

ارلی وارننگ سسٹم: قدرتی آفات کے خلاف پہلا دفاعی مورچہ

نارا کینال میں مگر مچھ کا حملہ: خاتون شدید زخمی

یورپی صارفین کو یا تو زیادہ قیمت پر چاول خریدنا پڑ رہا ہے یا متبادل ذرائع تلاش کرنے پڑ رہے ہیں، جو ان کے ذائقے اور معیار کی توقعات پر پورے نہیں اترتے۔

سائنسی اور تحقیقی پہلو

موسمیاتی لچکدار بیج (Climate-Resilient Seeds)

زرعی سائنسدان اس وقت ایسے بیج تیار کرنے پر کام کر رہے ہیں جو زیادہ بارش، سیلاب یا خشک سالی کا سامنا کر سکیں۔ تاہم، ان بیجوں کو بڑے پیمانے پر کسانوں تک پہنچانے کے لیے حکومتی مدد اور سرمایہ کاری کی ضرورت ہے۔

جدید آبپاشی کے نظام جیسے ڈرپ ایریگیشن اور اسپرنکلر سسٹم جیسے جدید طریقے پانی کے مؤثر استعمال کو ممکن بناتے ہیں۔ پاکستان جیسے پانی کی کمی والے ملک میں ان کا استعمال ناگزیر ہو چکا ہے۔

پاکستان میں زرعی تحقیق کے اداروں کو فنڈز کی شدید کمی کا سامنا ہے۔ اگر تحقیق کو ترجیح نہ دی گئی تو کسان جدید ٹیکنالوجی سے محروم رہیں گے اور زرعی پیداوار مزید کم ہو گی۔

پالیسی اور حکومتی اقدامات

پالیسی اور حکومتی اقدامات

موجودہ صورتحال میں حکومت نے متاثرہ کسانوں کے لیے ریلیف پیکجز کا اعلان کیا ہے، لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ وقتی حل ہیں۔

اصل ضرورت زرعی پالیسی میں طویل مدتی اصلاحات کی ہے۔حکومت کو اس ضمن میں ہنگامی بنیادوں پراقدامات اٹھانا ہوں گے جیسے زرعی سبسڈی میں اضافہ کرنا ہو گا تاکہ کسان آسانی سے بیج اور کھاد خرید سکیں۔

بیمہ اسکیمیں جاری کرنا ہوں گی جو کسانوں کو قدرتی آفات سے تحفظ فراہم کریں۔ عالمی اداروں کے ساتھ شراکت داری کر کے موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کا مقابلہ کرنے کے لیے فنڈز اور ٹیکنالوجی حاصلکے حصول کو ممکن بنانا ہو گا۔

ڈیٹا بیسڈ پالیسی سازی کرنا ہو گی تاکہ درست اعداد و شمار کی بنیاد پر فیصلے کیے جا سکیں۔اگر پاکستان نے بروقت اقدامات کیے تو باسمتی چاول کی پیداوار کو محفوظ رکھا جا سکتا ہے۔

موسمیاتی لچکدار بیج، جدید آبپاشی کے نظام اور کسانوں کی تربیت اس سمت میں اہم اقدامات ہوں گے۔ بصورتِ دیگر پاکستان نہ صرف زرعی شعبے بلکہ پوری معیشت میں بحران کا شکار ہو سکتا ہے۔

پاکستان کے لیے اس بحران سے نکلنے کا واحد راستہ یہ ہے کہ وہ پائیدارموسمیاتی زرعی پالیسیوں کو اپنائے۔

باسمتی چاول کی پیداوار اور قیمتوں پر موسمیاتی تبدیلی کے اثرات پاکستان کے لیے ایک واضح انتباہ ہیں۔ یہ بحران صرف زراعت تک محدود نہیں بلکہ معیشت، برآمدات اور عوامی زندگی پر بھی اثر انداز ہو رہا ہے۔

اگر پاکستان نے فوری طور پر جامع اور طویل مدتی پالیسی نہ اپنائی تو مستقبل میں خوراک کی کمی اور معاشی مسائل شدت اختیار کر جائیں گے۔

موسمیاتی اور ماحولیاتی تبدیلی اب کوئی دور کا خطرہ نہیں بلکہ موجودہ اور زندہ حقیقت ہے، اور باسمتی چاول اس کی ایک بڑی مثال ہے۔

پاکستان کو چاہیے کہ وہ اس موقع کو ایک پالیسی شفٹ کے آغاز کے طور پر دیکھے اور زرعی معیشت کو موسمیاتی تبدیلی کے تقاضوں کے مطابق ڈھالے۔

یہی راستہ نہ صرف کسانوں کے روزگار کو محفوظ کرے گا بلکہ عالمی سطح پر پاکستان کی غذائی و تجارتی پوزیشن کو بھی مستحکم بنائے گا۔

حوالہ جات


AP News – Flood-hit India, Pakistan face rising basmati prices amid crop losses (2025-09-08)
Reuters – Flood-hit India, Pakistan face rising basmati prices amid crop losses (2025-09-08)
FAO – Climate Change and Food Security: Risks and Responses (2016)
IPCC – Climate Change 2022: Impacts, Adaptation and Vulnerability
World Bank – Agriculture and Climate Change: A Global Perspective (2023)
The Guardian – South Asia’s climate crisis and its impact on crops (202

اپنا تبصرہ لکھیں