کوپ 30 سے قبل عالمی رپورٹس خبردار کر رہی ہیں: زمین کا درجہ حرارت بڑھ رہا ہے، غربت گہری ہو رہی ہے، اور عمل کا بحران شدت اختیار کر گیا ہے۔
فروزاں رپورٹ
دنیا ایک نئے موڑ پر کھڑی ہے۔ پیرس معاہدے کے نو سال بعد، عالمی درجہ حرارت صنعتی دور کے مقابلے میں 1.48 ڈگری سیلسیس تک بڑھ چکا ہے۔ اسی پس منظر میں عالمی ماحولیاتی کانفرنس (کوپ 30)، جو رواں سال نومبر میں برازیل کے شہر بیلیم (Belém) میں منعقد ہوگی، ایک فیصلہ کن موڑ تصور کی جا رہی ہے۔
اس کانفرنس سے قبل مختلف بین الاقوامی اداروں نے ایسی رپورٹس جاری کی ہیں جو واضح کرتی ہیں کہ اگر فوری اور بڑے پیمانے پر اقدامات نہ کیے گئے، تو زمین کو محفوظ رکھنے کی آخری کھڑکی بند ہو سکتی ہے۔
قوامِ متحدہ ماحولیاتی پروگرام (UNEP): Emissions Gap Report 2024
یہ رپورٹ اس سوال کا جواب دیتی ہے کہ کیا دنیا اب بھی 1.5 ڈگری سینٹی گریڈ کاہدف حاصل کر سکتی ہے؟
رپورٹ کے مطابق اگر دنیا کے ممالک اپنے موجودہ وعدوں پر قائم رہے تو دنیا اس صدی کے آخر تک 2.6 تا 3.1 ڈگری تک گرم ہو جائے گی۔اس کے اہم نکات کا جائزہ لیا جائے تو اس میں بتایا گیا ہے کہ:
سن2030 تک اخراجات میں 42 فیصد کمی درکار ہے۔
سن2035 تک یہ کمی 57 فیصد ہونی چاہیے تاکہ 1.5 ڈگری کاہدف پانا ممکن رہے گا۔اگر موجودہ رفتار برقرار رہی تو پیرس معاہدہ ایک علامتی وعدہ بن کر رہ جائے گا۔

یہ رپورٹ متنبہ کرتی ہے کہ ”الفاظ نہیں، اقدامات“ درکار ہیں۔ رپورٹ میں دنیا کی حکومتوں کو تجاویز دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ وہ شمسی توانائی، ہوائی توانائی، گرین انڈسٹری اور قدرتی جنگلاتی نظاموں میں فوری سرمایہ کاری کریں جب کہ ترقی یافتہ ممالک اپنے”کاربن قرض“ کی ادائیگی کرتے ہوئے ترقی پذیر دنیا کے لیے مالیاتی امداد میں اضافہ کریں۔
یو این ڈی پی اور آکسفورڈ یونیورسٹی کی مشترکہ رپورٹ
Global Multidimensional Poverty Index 2025
یہ رپورٹ ماحولیاتی خطرات اور غربت کے باہمی تعلق پر مبنی ہے۔اس رپورٹ کے اعداد و شمار کے مطابق دنیا کے 1.1 ارب افراد کثیر جہتی غربت میں مبتلا ہیں۔ان میں سے 80 فیصد ایسے علاقوں میں رہتے ہیں جو شدید موسمی خطرات (سیلاب، خشک سالی، گرمی، آلودگی) سے دوچار ہیں جب کہ 651ملین افراد کو ایک سے زیادہ موسمیاتی خطرات لاحق ہیں۔
اس رپورٹ کے مطابق موسمیاتی تبدیلی کا اصل چہرہ انسانی بحران ہے۔ غربت، خوراک کی کمی، پانی کی قلت اور صحت کی تباہی اب ایک ہی لڑی میں بندھ چکی ہیں۔
رپورٹ یہ بھی تجویز کرتی ہے کہ کوپ 30میں ”موسمیاتی انصاف“کو مرکزی موضوع بناتے ہوئے ایسے مالیاتی ماڈلز متعارف کرائے جائیں جو غریب اور کمزور ممالک کی موافقت (adaptation) میں مدد دے سکیں۔
اقوامِ متحدہ اقتصادی و سماجی کمیشن برائے ایشیا و بحرالکاہل
(ESCAP) 2024 Review of Climate Ambition in Asia and the Pacific
یہ رپورٹ ایشیا–پیسیفک خطے کے لیے انتباہ ہے کہ اگر علاقائی تعاون نہ بڑھا تو موسمیاتی اہداف ناقابلِ حصول رہیں گے۔اس کے اہم نکات میں کہا گیا ہے کہ خطے کے کئی ممالک نے وعدے تو کیے ہیں مگر عملی اقدامات نہ ہونے کے برابر ہیں۔
حکومتوں کو توانائی، ٹرانسپورٹ اور صنعتی شعبوں کو”مربوط حکمتِ عملی“کے تحت بدلنے کی ضرورت ہے۔علاقائی سطح پر ٹیکنالوجی کی منتقلی کو ترجیح دینی ہوگی۔
پاکستان کے لیے یہ رپورٹ ایک آئینہ ہے۔ 2022 اور 2025کے سیلاب کے نقصانات کے باوجود پاکستان کا عالمی اخراج میں حصہ 1 فیصد سے بھی کم ہے، مگر اثرات سب سے زیادہ اسی خطے پر پڑ رہے ہیں۔
عالمی ادارہ صحت (WHO)
Climate Crisis is a Health Crisis
ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے مطابق، موسمیاتی تبدیلی صرف ماحولیاتی نہیں بلکہ صحت کا بحران بھی ہے۔شدید گرمی، آلودہ فضا، ناقص خوراک اور بیماریوں کے پھیلاؤ نے انسانی صحت کے نظام کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔
ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کی سفارشات میں کہا گیا ہے کہ ممالک اپنی قومی صحت پالیسیوں میں موسمیاتی موافقت شامل کریں۔ غریب طبقات کو صحت کے موسمیاتی اثرات سے محفوظ بنانے کے لیے عالمی فنڈز قائم کیے جائیں۔
عالمی بینک کی رپورٹ
Damage Mechanism 2025 Climate Finance and Loss &
یہ رپورٹ ظاہر کرتی ہے کہ اگر ترقی یافتہ ممالک نے اپنے مالی وعدے پورے نہ کیے تو موسمیاتی انصاف محض ایک نعرہ بن کر رہ جائے گا۔اس رپورٹ کے اہم نکات میں کہا گیا ہے کہ موسمیاتی موافقت اور نقصان کے ازالے کے لیے سالانہ 200 ارب ڈالر درکار ہیں اور اب تک ترقی یافتہ ممالک صرف 83 ارب ڈالر فراہم کر رہے ہیں۔لاس اینڈ ڈیمج فنڈ کی شفافیت اور مساوی تقسیم کو کوپ 30میں مرکزی حیثیت دینی ہوگی۔

دنیا کے معتبر تریں اداروں کی یہ رپورٹس ایک ہی پیغام دیتی ہیں کہ دنیا کے پاس وقت تیزی سے ختم ہو رہا ہے۔موسمیاتی بحران اب اقتصادی اور انسانی بحران کی شکل اختیار کر چکا ہے۔وعدے اپنی اہمیت کھو رہے ہیں، اب ”عمل“ہی واحد نجات ہے۔اس صورتھال میں جنوبی ایشیا کو ایک آواز بن کر سامنے آنا ہوگا۔
یہ بھی پڑھیں
پاکستان میں برقی گاڑیاں: چیلنجز کے باوجود روشن مستقبل
مارگلہ ہلزکی تباہی کی داستان ، بحالی ممکن مگر کیسے؟
کوپ 30: پاکستان اور جنوبی ایشیا کا موقع
پاکستان کے لیے کوپ 30 صرف ایک کانفرنس نہیں بلکہ بقا کی جنگ ہے۔یہ موقع ہے کہ پاکستان لاس اینڈ ڈیمج فنڈمیں اپنا مؤثر کردار ادا کرے۔موافقتی پالیسیوں کو صحت، پانی، زراعت اور شہری منصوبہ بندی کے ساتھ جوڑے۔علاقائی تعاون (مثلاً سارک یا ای سی او) کو موسمیاتی میدان میں فعال بنائے۔
کوپ 30سے قبل دنیا کے بڑے ادارے خبردار کر چکے ہیں کہ گرمی بڑھ رہی ہے، زمین سسک رہی ہے، اور غریب انسان سب سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں۔اگر اب بھی عمل نہ کیا گیا تو آنے والے برسوں میں نہ پیرس معاہدہ بچ سکے گا، نہ زمین کا توازن۔یہ وقت ہے وعدوں سے آگے بڑھ کر اقدام کرنے کا۔
