فروزاں فروزاں کے مضامین

اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی اور موسمیاتی بحران: عالمی عہد و پاکستان کے نئے منصوبے

اقوام متحدہ

اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی 2025 نے یہ ثابت کیا ہے کہ موسمیاتی بحران عالمی ایجنڈے میں سب سے اہم مسئلہ بن چکا ہے


اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی 2025 کے اجلاس میں موسمیاتی بحران ایک بار پھر مرکزی موضوع رہا۔عالمی پالیسی سازوں نے متفقہ طور پر اس بات کا اعتراف کیا کہ عالمی درجہ حرارت تیزی سے بڑھ رہا ہے اور فوری طور پرعملی اقدامات نہ کیے گئے تو یہ بحران انسانی بقا کو شدید خطرات میں ڈال دے گا کیوں کہ موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے موجودہ صورتحال میں گرمی کی شدید لہریں، جنگلاتی آگ، غیر معمولی بارشیں، سمندری طوفان اور خشک سالی معمول بنتے جا رہے ہیں۔

سائنسدانوں کی تحقیق بتاتی ہے کہ اگر عالمی درجہ حرارت 1.5°C سے زیادہ بڑھا تو زمین پر رہنے والی کئی انواع معدومیت کے دہانے پر پہنچ جائیں گی، اور لاکھوں لوگ اپنے گھروں سے بے دخل ہو جائیں گے۔ موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں عالمی سطح پر متعددنئے اقدامات اٹھانے کا اعلان کیا گیا۔

اجلاس کے دوران کئی ممالک اور بین الاقوامی اداروں نے ایسے منصوبے اور اہداف کا اعلان کیا جو موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات کو کم کرنے میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔

ان میں سے چند اہم نکات زیر ِتحریر ہیں۔

کلائیمٹ فنانس میں اضافہ

ترقی یافتہ ممالک نے ایک مرتبہ پھریہ وعدہ دہرایا کہ وہ ترقی پذیر ممالک کو ہر سال سو بلین ڈالرفراہم کریں گے تاکہ وہ اپنے موسمیاتی منصوبوں کوعملی جامہ پہنا سکیں۔ اس کے ساتھ ساتھ لاس اینڈ ڈیمج فنڈ کے دائرہ کار کو بڑھانے کا بھی اعلان کیا گیا تاکہ سیلاب، طوفان اور دیگر آفات سے متاثرہ ممالک کو فوری مالی امداد فراہم کی جا سکے۔

متبادل توانائی کے ذرائع

یورپ اور ایشیا کے کئی ممالک نے عہد کیا کہ وہ 2030 تک اپنی توانائی کا کم از کم 70% حصہ متبا دل توانائی کے ذرائع سے حاصل کریں گیجس میں شمسی،ونڈاور ہائیڈرو پاور بنیادی ذرائع ہوں گے۔ جرمنی اور ڈنمارک نے اعلان کیا کہ وہ ونڈ انرجیمیں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کریں گے۔

میتھین کے اخراج میں

کمی یاد رہے کہ جی20 ممالک نے میتھین گیس کے اخراج میں کمی کو ترجیحی بنیادوں پر شامل کیا ہے۔ یہ طے پایا کہ 2030 تک میتھینکے اخراج میں 30% کمی لائی جائے گی کیونکہ یہ گیس عالمی حدت میں اضافہ کرنے والی سب سے خطرناک گرین ہاؤس گیسز میں شمار ہوتی ہے۔

موسمیاتی تبدیلی سے مطابقت پیدا کرنے والے منصوبے

اس موقع پرافریقہ، جنوبی ایشیا اور لاطینی امریکا کے لیے Climate Adaptation پر خصوصی توجہ دی گئی۔ جب کہ، پانی کے ذخائر کی بحالی، زراعت میں کلائیمیٹ اسمارٹ ٹیکنیک اور پینے کے صاف پانی کی فراہمی جیسے منصوبوں کے لیے خطیر سرمایہ مختص کرنے کا اعلان کیا گیا۔

لاس اینڈ ڈیمج فنڈ کی مضبوطی

یہ ایک حقیقت ہے کہ چھوٹے جزیرہ نما ممالک سمندروں کی سطح میں ہونے والے اضافے کی نتیجے میں فنا کے خطرات سے دوچار ہیں انھوں نے اجلاس میں زور دیا کہ ان کی بقا سمندر کی بلند ہوتی سطح کے ہاتھوں شدید خطرے میں ہے۔ ان کے مطالبات کو تسلیم کرتے ہوئے لاس اینڈ ڈیمجفنڈ کے عملی نفاذ کے لیے ایک باقاعدہ روڈ میپ تیار کرنے پر بھی اتفاق کیا گیا۔

پاکستان کے نئے منصوبے

پاکستان دنیا کے اُن ممالک میں شامل ہے جو موسمیاتی تبدیلیوں سے سب سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں۔ سیلاب 2022 اور رواں سال کے مون سون نے یہ حقیقت عیاں کر دی کہ پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک کے پاس بڑے پیمانے پر آفات سے نمٹنے کی صلاحیت محدود ہے۔ اسی پس منظر میں پاکستان نے اس اجلاس اور دیگر متعلقہ فورمز پر کئی منصوبے پیش کیے، جنہیں عالمی سطح پر سراہا گیا۔

توانائی مکس میں تبدیلی

پاکستان نے اعلان کیا کہ وہ 2035 تک اپنی توانائی کا 62% حصہ متبادل ذرائع (خصوصاً سولر اور ہائیڈرو پاور) سے حاصل کرے گا۔ اس کے ساتھ ساتھ 2030 تک 1200 MW اضافی نیوکلر توانائیبھی پیدا کی جائے گی تاکہ توانائی کے شعبے میں کاربن کے اخراجات میں کمی لائی جا سکے۔ یہ اعلان اس بات کا مظہر ہے کہ پاکستان صاف توانائی کے مستقبل کی طرف بڑھنے کے لیے پرعزم ہے۔

پبلک ٹرانسپورٹ کی تبدیلی

پاکستان نے یہ ہدف رکھا ہے کہ 2030 تک عوامی ٹرنسپورٹ کا 30% حصہ ماحول دوست بسوں (الیکٹرک بسوں وغیرہ) پر مشتمل ہوگا۔ اس منصوبے کے تحت بڑے شہروں میں فضائی آلودگی کم کرنے کے ساتھ ساتھ گرین ہاؤس گیسز کے اخراج میں کمی لائی جا سکے گی۔

کلائیمٹ بجٹ کی شروعات

پاکستان نے پہلی مرتبہ مالی سال 2025-26کے لیے کلائیمٹ بجٹمتعارف کروانے کا اعلان کیا ہے۔ اس بجٹ کے تحت تقریباً 30% ترقیاتی منصوبوں کو کلائیمٹ پبلک انویسمینٹ مینجمینٹ اسسمینٹ (CPIMA) کے ذریعے پرکھا جائے گا تاکہ ان کے ماحولیاتی اثرات کا تعین کیا جا سکے۔

ارلی وارننگ سسٹم

واضع رہے کہ یہ اقدام خطے میں اپنی نوعیت کا پہلا تجربہ ہے۔ ارلی وارننگ سسٹم پاکستان نے UNDP اور چین کے اشتراک سے ”ٹیلرڈ انٹیلیجنس فار ایکشن ایبل “(TIAEWS) منصوبہ شروع کیا ہے۔ اس منصوبے کے تحت گلگت بلتستانمیں آٹو میٹیڈویدر اسٹیشن اور وارننگ پوسٹقائم کیے جا رہے ہیں تا کہ گلیشیل لیک آؤٹ برسٹ فلڈ (GLOFs) جیسے خطرات کا بروقت اندازہ لگایا جا سکے۔

انویسٹمینٹ پلان (این ڈی سیز)

پاکستان نے اپنے قومی سطح کے منصوبوں (NDCs) کے تحت ایک انویسٹمنٹ پلانپیش کیا ہے، جس میں ویسٹ مینجمنٹ،صحت، جنگلات،زراعت کے ساتھ مطابقت کے منصوبے شامل ہیں۔ اس کے مطابق پاکستان کو ان منصوبوں پر عمل درآمد کے لیے تقریباً 2,367 ملین ڈالرکی سرمایہ کاری کی ضرورت ہوگی۔

دیگر ممالک کے اقدامات اور پاکستان کا موازنہ

یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ جہاں ترقی یافتہ ممالک نے متبادل توانائی اور میتھین اخراج میں کمی کے بڑے بڑے اہداف مقرر کیے ہیں، وہیں پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک نے بھی اپنی بساط کے مطابق عملی اقدامات تجویز کیے ہیں۔ اگرچہ وسائل کی کمی پاکستان کے لیے سب سے بڑا چیلنج ہے، لیکن کلائیمٹ بجٹ اور ارلی وارننگ سسٹم جیسے اقدامات اس بات کا ثبوت ہیں کہپاکستان اپنی ذمہ داریوں سے غافل نہیں۔

مثال کے طور پر بھارت نے بھی اعلان کیا کہ وہ 2030 تک پانچ سو گیگا واٹ متبادل توانائی پیدا کرے گا۔ اسی طرح بنگلہ دیش نے ساحلی حفاظتکے بڑے منصوبوں پر سرمایہ کاری کا عہد کیا ہے۔ ان کے مقابلے میں پاکستان کے اہداف اگرچہ کم ہیں، مگر ان کا تعلق براہِ راست عوامی تحفظ اور روزمرہ زندگی سے ہے، جو انہیں زیادہ قابلِ عمل بناتا ہے۔

تنقیدی جائزہ

اگرچہ عالمی اور قومی سطح پر کیے گئے اعلانات حوصلہ افزا ضرورہیں، مگر ان پر عمل درآمد سب سے بڑا چیلنج ہے کیوں کہ موسمیاتی فنانس کے وعدے اب تک تاخیر کا شکار رہے ہیں، اور ترقی پذیر ممالک تک فنڈز کی رسائی مشکل انتہائی مشکل بنا دی گئی ہے۔ تاہم یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ پاکستان سمیت ترقی پذیر ملکوں کے منصوبے اس وقت تک کامیاب نہیں ہو سکتے جب تک عالمی برادری مالی امداد فراہم نہ کرے اور شفافیت کے ساتھ ان منصوبوں پر عمل درآمد نہ کیا جائے۔

کیا اسے دیکھنا یاد ہے؟

ڈیم: کیا پاکستان کے لیے سیلابی متبادل حل ہے؟

موسمیاتی تبدیلی کے تناظر میں ارلی وارننگ سسٹمزاگرچہ آفات کے نقصانات کو کم کرنے میں مددگار ثابت ہو سکتے ہیں، مگر جب تک مقامی سطح پر لوگوں کو تربیت اور معلومات فراہم نہیں کی جائیں گی، یہ نظام مکمل طور پر مؤثر نہیں ہو سکتے۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی 2025 نے یہ ثابت کیا ہے کہ موسمیاتی بحران عالمی ایجنڈے میں سب سے اہم مسئلہ بن چکا ہے۔ دنیا بھر کے ممالک نے نئے اہداف اور منصوبوں کا اعلان کیا ہے، اور پاکستان نے بھی اپنے اقدامات کے ذریعے دنیا کو یہ پیغام دیا ہے کہ ترقی پذیر ممالک بھی اصلاحات کے لیے سنجیدہ ہیں۔تاہم اصل امتحان اب ان وعدوں کو عملی شکل دینے کا ہے۔ اگر عالمی برادری نے تعاون کیا اور پاکستان جیسے ممالک نے شفافیت اور عزم کے ساتھ اپنے منصوبوں پر عمل کیا تو ممکن ہے کہ دنیا درجہ حرارت کے اضافے کو محدود کرنے اور آئندہ نسلوں کو ایک محفوظ مستقبل دینے میں کامیاب ہو جائے۔

حوالہ جات

اقوام متحدہ ۔ ”اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی 2025 کی کاروائیاں اور عالمی عزم”۔ نیویارک: اقوام متحدہ، 2025۔انٹرگورنمنٹل پینل آن کلائمیٹ چینج (IPCC)۔ ”موسمیاتی تبدیلی پر ششم رپورٹ، 2023”۔ جنیوا: اقوام متحدہ، 2023۔پاکستان ماحولیاتی تحفظ ایجنسی (Pak-EPA)۔ ”پاکستان میں موسمیاتی پالیسی اور عملی اقدامات”۔ اسلام آباد: وزارت ماحولیاتی تبدیلی، 2024۔ورلڈ بینک۔ ”پاکستان میں گرین فنانسنگ اور قابل تجدید توانائی کی سرمایہ کاری”۔ واشنگٹن: ورلڈ بینک پبلکیشنز، 2024۔اقوام متحدہ ترقیاتی پروگرام (UNDP)۔ ”پاکستان میں موسمیاتی خطرات اور موافقتی حکمتِ عملیاں ”۔ اسلام آباد: یو این ڈی پی، 2025۔عالمی موسمیاتی تنظیم (WMO)۔ ”موسمیاتی تبدیلی کی تازہ ترین سائنسی رپورٹ، 2024”۔ جنیوا: WMO، 2024۔وزارت منصوبہ بندی و ترقیات، پاکستان۔ ”نیشنل ایڈاپٹیشن پلان برائے موسمیاتی تبدیلی”۔ اسلام آباد: حکومتِ پاکستان، 2023۔پاکستان واٹر پارٹنرشپ۔ ”پاکستان میں پانی کے ماحولیاتی نظام اور پائیداری کی ورکشاپ رپورٹ”۔ اسلام آباد: پی ڈبلیو پی، 2025

اپنا تبصرہ لکھیں