فروزاں کے مضامین

جھنگ میں صاف پانی کے نام پر زہر کی فروخت

عالمی ادارہ صحت کے ایک سروے کے مطابق پنجاب بھر میں ڈینگی اور ہیپا ٹائٹس کے سب سے زیادہ کس جھنگ میں پائے گئے ہیں


جھنگ دو دریاؤں کا شہر ہے دریا کے نزدیک ہونے کی وجہ سے اس شہر کا پانی کسی زمانے میں بہت اچھا ہوتا تھا لیکن اب سیوریج کے پانی کی وجہ سے اس کا زیر زمین پانی پینے کے قابل نہیں رہا اس وجہ سے جگہ جگہ فلٹریشن واٹر کے پلانٹ لگ گئے ہیں،کئی این جی او کی طرف سے بھی فلٹریشن پلانٹ لگائے گئے ہیں۔

حکومت کی طرف سے بھی فلٹریشن پلانٹ لگائے گئے ہیں لیکن چیک کرنے پر معلوم ہوا ان میں سے بہت کم فلٹریشن پلانٹ معیار پر پورے اترتے ہیں کئی سرکاری فلٹریشن پلانٹ کا ٹی ڈی ایس 300 سے زیادہ اور 600 سے کم تھا۔

پرائیویٹ فلٹریشن پلانٹ کی بھی چیکنگ کی گئی وہاں کی صورتحال بھی کچھ اچھی نہیں تھی۔ اگر پانی ٹریٹمنٹ پلانٹ میں سٹینڈرڈ مرحلیسے گزرا ہے تو صاف پانی ہے ہمارے ملک میں پانی کی جو صورتحال ہے۔

اس بارے میں سپریم کورٹ آف پاکستان نے بھی ایک سروے کروایا تھا، ضروری نہیں کہ جو پانی بوتل میں بند فروخت رہا ہے وہ صاف ہو اور پینے کے قابل ہو۔

صاف پانی نہ ہونے کی وجہ سے جھنگ میں ہیپاٹائٹس،ڈینگی، ملیریا اور جگر کی بیماریاں سب سے زیادہ پھیل رہی ہیں۔ نام نہاد بند بوتل کے پانی پر جو کروڑوں روپے ہم خرچ کر رہے ہیں اگر وہ اپنے پانی کو صاف کرنے پر لگا دیں تو زیادہ بہتر ہوگا۔

عام آدمی بھی اب فلٹریشن پلانٹ کا بنا ہوا پانی اور بند بوتلوں میں پانی خریدنے پر مجبور ہے، عام سافٹ ڈرنک بنانے والی کمپنیوں نے بھی اربوں روپے کا کاروبار شروع کر رکھا ہے ہر کمپنی اپنا پانی بنا رہی ہے۔

ضلع جھنگ میں حکومتی نا اہلی کی وجہ سے زیر زمین پانی اتنا خراب ہو چکا ہے شہر کے ساتھ ساتھ چلنے والے خیر اباد ڈرینج نالہ نے جھنگ کے زیر زمین پانی کو انتہائی خراب کر دیا ہے۔

متعدد این جی او نے صاف پانی فراہم کرنے کے لیے بہت سارے فلٹریشن پلانٹ ضلع جھنگ میں لگائے ہیں جن میں روٹری کلب ہیومن ویلفیئر سوسائٹی وغیرہ شامل ہیں۔

کئی مخیر حضرات جگہ جگہ کھانے کے دسترخوان لگاتے ہیں اگر وہ ان کے ساتھ صاف پانی کے پلانٹ بھی لگا دیں تو جھنگ کی عوام ہیپاٹائٹس بی سی اور دیگر بیماریوں سے بچ سکتی ہے۔


اس سلسلے میں ہمیں ماہر ماحولیات ڈاکٹر عارف محمود اور ماحولیات پر لکھنے والے صحافی اکمل ملک سے بات چیت کا موقع ملا تو ان کا کہنا تھا کہ صاف پانی ہماری زندگی کے لیے بہت ضروری ہے، لوگ آئے روز جو نئی نئی بیماریوں میں مبتلا ہو رہے ہیں اس میں 80 فیصد سے زیادہ کردار صاف پانی نہ ہونا ہے۔

صحافی اکمل کا کہنا ہے کہ پہلے لوگ گھروں میں نلکے لگاتے تھے لیکن اب ہر گھر میں لال پمپ لگ گیا ہے جو بہت تیزی سے زیر زمین پانی کھینچ کر اوپر لاتا ہے جس میں سیوریج اور دیگر چیزیں بھی شامل ہو جاتی ہیں جو ہم پیتے ہیں، جس سے جگر ہیپاٹائٹس بی سی اور دیگر خطرناک بیماریاں ہمارے اندر پیدا ہو رہی ہیں۔

ذمہ دار محکمہ جن میں فوڈ اتھارٹی محکمہ صحت وغیرہ شامل ہیں ان فلٹریشن پلانٹ کو باقاعدگی سے چیک نہیں کرتے۔

یہ پلانٹ زیادہ تر با اثر لوگوں کے ہیں بہت سارے فلٹریشن پلانٹ کے پاس اجازت نامہ ہی نہیں ہے جو ایس او پیز حکومت نے ان فلٹریشن پلانٹ کے لیے بنائے ہیں اس پر کوئی عمل نہیں کرتا۔

یہ گلی محلوں میں لگے ہوئے ہیں اور زیادہ تر نالیوں کے ساتھ لگے ہوئے ہیں جن میں سیوریج کا پانی بھی شامل ہو جاتا ہے۔ن کو چند کیمیکل ڈال کر صاف کیا جاتا ہے اور بوتلوں میں بھر کر فروخت کیا جاتا ہے۔

جھنگ کے کئی علاقے جن میں محلہ ببرانہ، مگیانہ کالونی، قاسمی کالونی،چمیلی مارکیٹ،،سلطان والا، حسن آبا،د مرضی پورہ وغیرہ شامل ہیں کا پانی بالکل خراب ہو چکا ہے۔

یہاں کے مکین باہر سے فلٹریشن پلانٹ کا پانی منگوا کر پینے پر مجبور ہیں جن پر ان کا ماہانہ ہزاروں روپے خرچ ہو جاتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں

تھر میں کوئلے کی کان کنی میں توسیع: سول سوسائٹی اور مقامی لوگوں کا اظہار تشویش

ایران، اسرائیل جنگ کے پاکستانی ماہی گیروں پر اثرات


میڈیسن اسپیشلسٹ ڈاکٹر شہزاد ظفر اقبال نے اس سلسلے میں بتایا کہ ان کے پاس گزشتہ دو ماہ میں صاف پانی نہ ہونے کی وجہ سے 80 فیصد مریض ملیر،یا ہیپاٹائٹس، جگر اور پیٹ کی دیگر خطرناک بیماریوں میں مبتلا نظرآئے۔

ڈاکٹر شہزاد ظفر اقبال نے بتایا کہ لوگ خود احتیاط نہیں کرتے اگر لوگ پانی ابال کر پییں تو بہتری آ سکتی ہے لیکن اکثر لوگ کہتے ہیں کبھی گیس نہیں ہوتی کبھی ہمارے پاس ٹائم نہیں ہوتا کہ پانی ابال کر پیئیں۔


پرانے زمانے میں لوگ گھڑوں میں پانی ڈال کر رکھتے تھے جو کہ بالکل صاف اور فلٹر شدہ ہوتا تھا لوگوں میں بیماری نہ ہونے کے برابر تھی۔

حکیم سردار کلجیت سنگھ نے ہم سے بات چیت کرتے ہوئے بتایا کہ اپنی ٹینکی میں اگر جامن کی لکڑی ڈال دی جائے تو پانی قدرتیطور پر صاف اور فلٹر شدہ بن جاتا ہے۔

پرانے وقتوں میں کنوؤں کے نزدیک جامن کے درخت ہی لگائے جاتے تھے تاکہ ان کی لکڑی پانی میں گرتی رہے اور پانی صاف اور شفاف ہو جائے قدرت نے جامن کے درخت میں بہت سارے فائدے رکھے ہیں۔

اس سلسلے میں روٹری کلب کے خصوصی نمائندے عمر خان سے بات چیت ہوئی تو انہوں نے کہا کہ ہم نے پورے ضلعے میں 40 کے قریب فلٹریشن پلانٹ روٹری کلب کی طرف سے لگائے ہیں ان فلٹریشن پلانٹ کی وجہ سے لوگوں کو صاف اور شفاف پانی پینے کے لیے ملتا ہے لیکن بدقسمتی سے لوگ ہمارے ساتھ تعاون نہیں کرتے لوگ فلٹریشن پلانٹ کی ٹوٹیاں اتار کر لے جاتے ہیں اور وہاں گند بھی پھیلا دیتے ہیں، صفائی کا خیال نہیں رکھتے۔

فلٹریشن پلانٹ سپلائی کرنے والے معروف بزنس مین اور فلٹریشن پلانٹ بنانے والے ادارے بی ایچ انڈسٹری کے مالک عتیق ہرل سے بات چیت ہوئی تو انہوں نے کہا کہ بدقسمتی سے ہم جس جگہ پلانٹ لگاتے ہیں لوگ اس کی کیئر نہیں کرتے، اس کا برابر خیال نہیں رکھتے، پراپر صفائی نہیں کرتے،جو فلٹر بدلنا ہوتا ہے ٹائم پر وہ نہیں بدلتے، اس لیے زیادہ تر فلٹریشن پلانٹ خراب ہو جاتے ہیں ان میں بہت سارے زمینی ذرات شامل ہو جاتے ہیں جس کی وجہ سے پانی خراب ہو جاتا ہے، اگر فلٹریشن پلانٹ کی صفائی بروقت کی جائے اور فلٹر کو ہر تین مہینے بعد بدل دیا جائے تو فلٹریشن پلانٹ سے بہتر پانی حاصل کیا جا سکتا ہے۔

عتیق ہرل نے مزید بتایا کہ جس جگہ بھی وہ فلٹریشن پلانٹ لگاتے ہیں وہاں پر باقاعدہ ٹریننگ دی جاتی ہے کہ اس کو صاف کیسے کرنا ہے، اس کا فلٹر کتنے دن بعد صاف کرنا ہے، اس کو چلانا کیسے ہے لیکن بد قسمتی یہ ہے کہ لوگ سیکھنا نہیں چاہتے ہم بہت ساری بڑی بڑی ملوں ٹیکسٹائل ملوں شوگر ملوں میں فلٹریشن پلانٹ لگاتے ہیں جہاں ان کو صاف پانی کی ضرورت ہوتی ہے وہاں بھی بہت سارے مسائل ہمیں برداشت کرنے پڑتے ہیں، حکومت اگر ہمیں وسائل فراہم کرے تو ہم پورے پاکستان کو صاف اور فلٹریشن صحت مند پانی فراہم کرنے کی بھرپور کوشش کر سکتے ہیں۔

ضلع جھنگ میں صاف پانی کیوں دستیاب نہیں ہے؟ اس میں حکومتی ناہلی ہے یا ضلع انتظامیہ کی ناہلی،ہمارے سیاست دانوں کی کمزوریاں ہیں کہ دو دریاؤں کا شہر ہونے کے باوجود ہم زیر زمین صاف پانی سے محروم ہوتے جا رہے ہیں۔

حال ہی میں ایم ڈی واسا بننے والے سید سہولت رضا سے اس سلسلے میں بات ہوئی تو انہوں نے کہا کیونکہ میں ضلع کا رہائشی ہوں اور مجھے ٹاسک دیا گیا ہے کہ میں ضلع جھنگ میں واسا کا سیٹ اپ بناؤں اور یہاں کے سیورج کے مسائل صاف پانی کے مسائل کو بہتر کروں تو میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ حکومت اس سلسلے میں بہت سنجیدہ ہے لیکن اس پر وقت لگے گا اور بہت سارا پیسہ بھی، فی الحال تو 40 سال پرانی سیوریج اور اس کے ساتھ پینے کی پانی کی لائنیں بہت بوسیدہ ہو چکی ہیں جن کو دوبارہ چالو کرنا اور پانی کے لیے جگہ جگہ صاف ٹینکیاں بنانا بہت ضروری ہے۔

ہمارا دو دریاؤں کا شہر ہے لیکن بدقسمتی سے جو پانی ہمارا کبھی 40 فٹ نیچے تھا اب 190 فٹ نیچے چلا گیا ہے اور وہ بھی صاف نہیں ہے،کچھ علاقے ابھی تک بچے ہوئے ہیں جن کا پانی بہت صاف ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ وہاں پر سیوریج بہت دور ہے.

ہمارے نااہل اور غیر ذمہ دار ٹھیکے داران نے بلدیہ کی زیر نگرانی 40 سال پہلے جو سیوریج بچھائی تھی وہ ہر جگہ مختلف سائز میں ہے کہیں چھوٹی ہے کہیں بڑی کہیں اٹھ انچ کا پائپ ہے تو کہیں چھ انچ کا تو کہیں پانچ انچ کا جبکہ سیورج لائن ایک ہی سائز میں بنائی جاتی ہے، اس غلط سیوریج لائن اور غلط پلاننگ کی وجہ سے زیر زمین پینے کا پانی بھی خراب ہوتا گیا.

اب 40 سال کی خرابی کو چند روز میں یا چند مہینے میں تو درست نہیں کیا جا سکتا، انشائاللہ اگر زندگی رہی اور حکومت کا تعاون رہا تو میں بطور ایم ڈی واسا اس کو تین سال کے اندر اندر درست اور بہتر کرنے کی کوشش کروں گا۔

عالمی ادارہ صحت کے ایک سروے کے مطابق پنجاب بھر میں ڈینگی اور ہیپاٹائٹس کے سب سے زیادہ کیس جھنگ میں پائے گئے ہیں جس سے اپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ جھنگ کا پینے کا پانی کتنا خراب ہو چکا ہے۔

اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم سب مل جل کر اس پر کام کریں تاکہ ہمیں ائندہ انے والے نسلوں کو پینے کا صاف پانی مل سکے۔

(محمد وحید اخترچوہدری پی پی ائی نیوز ایجنسی کے نمائندے ہیں بہت سارے سوشل میڈیا نیوز پیپر میگزین وغیرہ میں مختلف موضوعات پر لکھتے ہیں)

اپنا تبصرہ لکھیں