مصدق ملک نے کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان جیسے ممالک کا عالمی کاربن اخراج میں حصہ ایک فیصد سے بھی کم ہے۔
اسلام آباد(فرحین العاص ، نمائندہ خصوصی) وفاقی وزیر برائے ماحولیاتی تبدیلی ڈاکٹر مصدق ملک نے کہا کہ ترقی یافتہ ممالک ایک طرف تو ترقی پذیر ملکوں سے “مزید سبز” ہونے کا مطالبہ کرتے ہیں۔
مگر دوسری جانب مالی معاونت روک کر دوہرے معیار کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔
انہوں نے پالیسی ادارہ برائے پائیدار (ایس ڈی پی آئی ) کی 28ویں سالانہ کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان جیسے ممالک کا عالمی کاربن اخراج میں حصہ ایک فیصد سے بھی کم ہے۔
لیکن سیلاب، خشک سالی اور قرضوں کے جال نے ان ممالک کو ماحولیاتی تباہ کاریوں کے شکنجے میں جکڑ رکھا ہے۔

ڈاکٹر مصدق ملک کے مطابق دنیا کے 40 فیصد اخراج کے ذمہ دار صرف دو ممالک ہیں۔ جبکہ دس ممالک 75 فیصد کاربن خارج کرتے ہیں۔
اس کے باوجود سبز مالیاتی وسائل کا 85 فیصد انہی ممالک کو ملتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ جب تک امیر ممالک اپنی ذمہ داریاں تسلیم نہیں کرتے۔ حقیقی موسمیاتی انصاف ممکن نہیں۔
:یہ بھی پڑھیں
ڈیم: کیا پاکستان کے لیے سیلابی متبادل حل ہے؟
مارگلہ ہلزکی تباہی کی داستان ، بحالی ممکن مگر کیسے؟
جنوبی ایشیا میں تنازعات سے کثیرالجہتی نظام متاثر
بنگلہ دیش کی وزارتِ ماحولیات، جنگلات و موسمیاتی تبدیلی کی مشیر سیدہ رضوانہ حسن نے کہا کہ جنوبی ایشیا میں سیاسی بے یقینی ہے۔ جبکہ خطے کے اندر تنازعات سے کثیرالجہتی نظام کمزور پڑ رہا ہے۔
انہوں نے خبردار کیا کہ قدرتی آفات سب کے لیے خطرہ ہیں۔ جبکہ مٹی کی زرخیزی میں کمی اور دریائی تنازعات کروڑوں انسانوں کی زندگیوں کے لیے خطرہ بنتے جا رہے ہیں۔
ان کے مطابق علاقائی تعاون، تعلیم اور تربیت ہی ماحولیاتی خطرات سے نمٹنے کی ضمانت بن سکتے ہیں۔
پاکستان کو نئے عالمی ترقیاتی نظام کی تشکیل میں فعال کردار دینا ہوگا: احسن اقبال
کانفرنس میں وفاقی وزیر منصوبہ بندی پروفیسر احسن اقبال نے کہا کہ پاکستان کو بڑھتی ہوئی عالمی بے یقینی کے ماحول میں اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔
اور جدت، شراکت اور خود داری کو بنیاد بنانے کی ضرروت ہے۔ جبکہ اسی کو بنیاد بنا کر ایک نئے عالمی ترقیاتی نظام کی تشکیل میں فعال کردار ادا کرنا ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ تحقیق کے بغیر پالیسی سازی مفید نہیں ہو سکتی۔ تاہم اس لیے پائیدار ترقی کے لیے علم پر مبنی پالیسیوں کو فروغ دینا ناگزیر ہے۔

تحقیق اور پالیسی سازی کے درمیان ربط ضروری ہے، ڈاکٹر عابد
ایس ڈی پی آئی کے سربراہ ڈاکٹر عابد قیوم سلہری نے اپنے استقبالیہ خطاب میں کہا کہ یہ کانفرنس وہ علمی فورم ہے۔ جہاں تحقیق، پالیسی سازی سے جڑتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ رواں سال کا موضوع خطے کی حقیقی صورتحال کی عکاسی کرتا ہے۔ کیونکہ آج بے یقینی ہر طرف عام ہے۔
ایس ڈی پی آئی کے چیئرمین بورڈ آف گورنرز سفیر (ر) شفقت کاکا خیل نے کہا کہ امن، خوشحالی اور انسانی فلاح کو درپیش خطرات مزید پیچیدہ ہو چکے ہیں۔ جبکہ انہیں حل کرنے کے لیے عالمی عزم کمزور ہوتا جا رہا ہے۔
اقوامِ متحدہ کے نمائندے کا بڑا وژن
پاکستان میں اقوامِ متحدہ کے خصوصی نمائندے محمد یحییٰ نے کہا کہ چھوٹے منصوبوں کا دور گزر چکا ہے۔ اب بڑے اور مشترکہ پروگرام ہی خطے کو ماحولیاتی خطرات سے بچا سکتے ہیں۔
ان کے مطابق اقوامِ متحدہ حکومتوں کی تکنیکی معاونت تو فراہم کر سکتی ہے۔ مگر ان کی جگہ نہیں لے سکتی۔
یورپی سفارتکاروں کی پاکستان کو کلائمٹ سمارٹ پالیسیوں پر توجہ کی تاکید
ڈنمارک اور جرمنی کے سفارتکاروں نے پاکستان کو کلائمٹ اسمارٹ نمو، قابلِ تجدید توانائی، گرین فنانس اور نجی شعبے کی شمولیت کو فوری ترجیح دینے پر زور دیا۔
ڈنمارک کے ڈپٹی ہیڈ آف مشن پیٹر ایمل نیلسن نے کہا کہ موسمیاتی بحران اب کوئی ممکنہ خطرہ نہیں۔ بلکہ ایک زندہ حقیقت ہے۔ جس سے نمٹنے کے لیے اجتماعی اقدامات ضروری ہیں۔
جرمن سفارتخانے کے ڈپٹی ہیڈ آف مشن آرنو کرکھوف نے کہا کہ پاکستان کو صرف ماحولیاتی تبدیلی کا مقابلہ نہیں کرنا۔ بلکہ پائیدار اور ماحول دوست ترقی کی سمت اختیار کرنا ہوگی۔
موسمیاتی تبدیلی اب صرف ماحولیاتی نہیں، کامران جہانگیر
نیشنل بک فاؤنڈیشن کے ڈاکٹر کامران جہانگیر نے کہا کہ موسمیاتی تبدیلی اب صرف ماحولیاتی نہیں۔ بلکہ قومی بقا کا معاملہ بن چکی ہے۔
ان کے مطابق ملک کو علم پر مبنی حکمرانی اور کلائمٹ اسمارٹ پالیسیوں کی طرف فوری قدم بڑھانا ہوگا۔
کانفرنس میں سسٹینبلیٹی ایوارڈز کی تقسیم
کانفرنس کے پہلے دن کے اختتام پر سسٹینبلیٹی ایوارڈز دیے گئے جن میں ایگرو ٹیک و فوڈ سیکیورٹی، واٹر کنزرویشن، سرکلر اکانومی، رینیوایبل انرجی، سمارٹ موبیلٹی، گرین فنانس، جینڈر ایکویٹی، سسٹینبلیٹی ایجوکیشن اور ڈیزاسٹر ریزیلینس جیسے زمروں میں نمایاں کارکردگی دکھانے والے اداروں اور شخصیات کو سراہا گیا۔
یہ کانفرنس 7 نومبر تک جارہے گی۔
