ڈاکٹر طارق ریاض

جنگلات کو کاٹ کرکنکریٹ و پتھر کے جنگلات بنانے والے پاکستان میں موجود جھیل کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کر رہے ہیں۔
ہمارے ماحولیاتی نظام میں آبی ذخائر کی اہمیٹ مسلمہ ہے اور ان ذخائر میں جھیلیں خصوصی اہمیت کی حامل ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ اقوام متحدہ کے پرچم تلے ہر سال 27اگست کو عالمی سطح پرجھیل کا دن منایا جاتا ہے تاکہ عوام الناس تک ان کی ماحولیاتی نظام میں اہمیت کو روشناس کیا جا سکے۔
ان آبی ذخائرکو زمین کی زندگی بلکہ ”لائف بلڈ“ سمجھا جاتا ہے۔ پہاڑوں کے دامن میں جمع شدہ غیر متحرک آبی ذخیرہ کو جھیل کہا جاتا ہے۔
یہ عام طور پر قدرتی ہوتی ہیں۔ کبھی کبھار آبی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے انسانی کاوش سے بھی جھیل کو تیار کر لیا جاتا ہے۔
جھیلوں کے تحفظ کا احساس پہلی بار 27اگست سن 1984کوجاپان میں منعقدہ کانفرنس میں سامنے آیا جس میں ماہرین نے محسوس کیا کہ دنیا بھر میں جھیلوں کے تحفظ اور ان کوماحول کے اثرات سے بچانے کے لیے حفاظتی و مینجمنٹ طریقہ کار کو اختیار کرنے کی ضرورت پر زور دیا گیا۔
سال 2025 جھیل کے عالمی دن کا مرکزی خیا ل ہے ”جھیلیں آبی ذخائر کی پاسبان ہیں!“۔ اس کا مقصد ہے کہ ہمارے دریا اور جھیلیں ہماری زندگی اور ماحولیاتی تحفظ میں جو اہمیت رکھتی ہیں ان کے بارے میں عوامی شعور کو بیدار کیا جا سکے۔
ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیئے کہ جھیلیں قدرات کا انمول تحفہ ہیں۔ کیوں کہ آبی سائیکل، تفریحی مقامات کی رنگینی میں اضافہ، بجلی کی پیداوار، زراعت وغیرہ کے لیے ان کی اہمیت و کردار ماحولیاتی نظام کا حصہ ہے۔
دنیا بھر میں موجود جھیلیں اپنی جسامت،پانی کی مقدار کو ذخیرہ کرنے کی صلاحیت، درجہ حرارت، ہوا اور روشنی کی پانی میں پہونچ یا رسائی کے حوالے سے مختلف ہوتی ہیں۔
ان میں اکثر تازہ پانی کے ذخائر ہیں اور تھوڑی بہت جھیلوں میں نمکین پانی بھی ملتا ہے۔ اس کے علاوہ یہ آبی ذخائر بڑی تعداد میں نباتا تی (فلورا) اور حیوانی (فانا) کو فطری مساکن فراہم کرتے ہیں۔
اسی طرح ماحولیاتی نظام میں جاری غذائی چکر اور آبی چکر میں بھی جھیل کا کردار بڑی اہمیت رکھتا ہے۔
جھیلوں کے قریب آبادیوں کو پانی کی فراہمی اور جمالیاتی تسکین کی فراہمی بھی ان کے ذمہ ہے۔ ایسے علاقے جہاں یہ پائی جاتی ہیں ان علاقوں میں پانی کی دستیابی،سیلابوں اور خشک سالی کے دنوں میں سامنے آنے والے حالات کو متوازن رکھنے اور انواع و اقسام کی حیات کی بقا کا دارومدار انہی ذخائر پر ہے۔
یہ بھی پڑھیں
یورپی یونین کا 2040 کلائمیٹ ٹارگٹ متنازعہ
شدید ترین گرمی: دنیا بھر میں خطرناک ریکارڈ قائم
مچھلیاں، جل تھلے پرندے، آبی پودے اپنی زندگی کو برقرار رکھنے کے لیے ان پر بھروسہ کرتے ہیں۔ حتی کہ کئی مہاجر پرندوں کا انحصار ان ذخائر پر ہوتا ہے۔
وہ جھیل پر انڈے بچے دیتے اور پرورش و تحفظ کا کام کرتے ہیں۔ کیوں کہ جھیلوں کے آس پاس گھاس پھونس اور پودے باآسانی محفوظ مقامات فراہم کرتے ہیں۔
متعدد خورد بینی پودے اور جانوروں کے لیے بھی یہ فطری مساکن انہیں بقا اور آگے نسل بڑھانے کے مواقع بھہ جھیل ہی فراہم کرتی ہے۔
دنیا بھر میں دیگر قدرتی وسائل کی طرح جھیلیں بھی تباہی سے دوچار ہیں۔ ماحولیاتی تبدیلیاں اور آلودگی نے انہیں بھی مشکل میں ڈال دیا ہے۔
علاہو ازیں دیگر حیات کی بقا کے ساتھ ساتھ خود انسان کی بقا کے سامنے سوالیہ نشان لگ گیا ہے۔ ایک جھیل کو درج ذیل خطرات کا سامنا ہو سکتا ہے :
دنیا کا تیزی سے بڑھتا ہوا درجہ حرارت جھیلوں کے پانی کو نقصان پہنچا رہا ہے، پانی کے بخارات بننے کی وجہ سے وہ سکڑ رہی ہیں۔
صنعتی اور زرعی بیکار مادے کی پانی میں شمولیت سے آبی حیات اور خود پانی کے معیار کے سامنے سوالیہ نشان لگا رہی ہے۔
تازہ پانی کا ضیاع اور غلط منصوبہ بندی پانی کے ذخائر کو متاثر کر رہی ہیں۔ اسی لئے جھیلیوں کا مجموعی رقبہ گھٹ رہا ہے۔
غیر مقامی نباتات و حیوانات کی انواع جھیل کے ایکو سستم کا توازن بگاڑ رہی ہیں۔بڑی جھیلوں میں تیراکی، کشتی رانی اور اسٹیمرز کے چلنے سے بھی ایکو سسٹم متاثر ہوتا ہے۔
جھیل کی سیاحت کے لیے آنے والے افراد کا غیر زمہ دارانہ طرز عمل اور پلاسٹک وغیرہ کی اشیا کا پانی میں ڈال دینا بھی آلودگی کا سبب بن رہا ہے۔
جھیل کے راستے میں کسی انسانی آبادی کے سیوریج یا ہو ٹلوں سے اخراج والا آلودہ پانی بھی نقصان پہنچا رہا ہے۔
جھیلوں کے ارد گرد پہاڑوں کو اڑانے،آبادی بسانے اور باقیات کو پانی میں شامل کرنے سے بھی قدرت کے یہ شاہکار تباہی سے دوچار ہیں۔

جھیل کی اہمیت سے ناواقفیت اور انسانی طرز عمل بھی نقصان کا باعث ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ دنیا میں ایسی جھیلیں بھی ہیں،مثال کے طور پر جھیل کراچے جس میں تابکاری ماددوں کو ڈالنے سے پورا ایکو سسٹم طویل عرصہ کے لیے تباہ کر دیا گیا، یہ جھیل روس میں ہے۔
قدرت کے اس انمول ماحولیاتی نظام (جسے جھیل کہا جاتا ہے) میں ایک ایٹمی ریکٹر کا فضلہ ڈالنے کی وجہ سے دنیا اس خوبصورت وسیلہ سے ہاتھ دھو بیٹھی۔
آج اس جھیل کا شمار دنیا کے سب سے زیادہ تابکار آلودہ مقام میں ہوتا ہے۔ اس جھیل کے ساتھ آبی و زمینی حیات کے ساتھ کیا گزری ہو گی یہ سمجھدار کے لیے سمجھنا مشکل نہیں۔
سیکڑوں ایکڑ پر پھیلی یہ ایک جھیل کے ساتھ یہ ہوا تو باقی دنیا میں کیا کچھ نہیں ہورہا ہو گا۔اقوام متحدہ نے اسی لیے ہر سال جھیل کا عالمی دن منانے کا فیصلہ کیا کہ عوامی شعور سے کام لے کر قدرت کے بے نظیر خزانے کو بچایا جا سکے۔

دنیا کے دیگر علاقوں کی طرح قدرت نے پاکستان کو بھی دلکش و دلفریب جھیلوں سے نواز رکھا ہے۔ لیکن درختوں کے جنگلات کو کاٹ کرکنکریٹ و پتھر کے جنگلات بنانے والے اس ملک میں جھیل کے ساتھ اچھا سلوک نہیں ہو رہا ہے۔
اس کی تازہ ترین مثال چند ہفتوں پہلے کسی شہری کی طرف سے درخواست دیتے ہوئے اعلی حکام کے علم میں لایا گیا کہ عطا آباد جھیل میں ہوٹل سے سیوریج کا پانی شامل کیا جا رہا ہے۔
اللہ تعالی کا شکر ہے کہ میڈیا پر شعور و آگہی پھیلانے والی رپورٹس اور خبروں کی بدولت ، پاکستانی حکومت نے فوری ایکش لے کر بھاری جرمانہ عائد کر دیا۔لیکن 25کروڑ پاکستانیوں کو اس قدرتی وسیلہ سے محبت کی اشد ضرورت ہے۔
ہمیں سمجھنا ہو گا کہ پانی کا معیار، زیر زمین پانی کی مقدار، جھیل کے ماحولیاتی نظام کا تحفظ صرف حکومت کی،اداروں یا کسی فرد کی ذمہ داری نہیں، یہ اجتماعی کاوش اور مربوط و جامع طریقہ کار اختیار کرنے سے ممکن ہے کہ ہم اپنے وطن کی جھیلوں کو محفوظ بنا کر وطن عزیز اور دنیا کے ماحول کو انسانوں کے رہنے کے قابل بنائے رکھیں۔
ایک پاکستانی کی حیثیت سے ہمیں یہ کام کرنے ہوں گے
پانی کے ضیاع سے گریز،اس کا محتاط استعمال، ماحولیاتی آلودگی پیدا کرنے والے افعال و اعمال سے پرہیز، صنعتی فضلہ کو آلودہ اشیا سے پاک کیے بغیر پانی میں ڈالنے سے گریز، صنعتی و زرعی باقیات کو کسی ٹریٹمینٹ کے بعد آبی ذخائر میں شامل کرنا، زرعی مادوں کے استمال میں احتیاط و کم استمال، سیوریج کے پانی کی براہ راست شمولیت سے بچنے کے لیے ٹریٹمینٹ پلانٹ کی تنصیب، جنگلات اور پودوں کو نقصان سے بچانے کے لیے ضروری اقدامات اٹھانا، جھیل کے آس پاس آبادی اور بازار کھولنے سے گریز، آبی حیات کے تحفظ کو یقینی بنانا، جھیل کے اطراف میں گیر مقامی پودوں کی تلفی اور مقامی پودوں کی شجر کاری میں حصہ لینا، زیر زمین پانی کا محتاط استمال، جنگلی حیات کے قتل عام سے گریز اور آبی حیات کو محفوظ رکھنے کے لیے اقدامات، جھیل کے آس پاس زمینی بردگی سے بچاؤ کے لیے درختوں اور جنگلات کے کٹاؤ کو روکنا، جنگلی حیات کی تعداد و افزائش پر نظر رکھنا اور ایسی قانون سازی کرنا اور قانون کی پاسداری کو یقینی بنانا کہ خدانخواستہ جھیل کے ساتھ ساتھ خود بھی صفحہ ہستی سے نہ مٹ جا ئیں۔