عرب دنیا میں موسمیاتی تبدیلی محنت کش طبقے اور معیشت کو بدل رہی ہے، گرین جابز اور کاربن فری اکانومی نئے مواقع لا رہی ہیں۔
فروزاں رپورٹ
عالمی ادارہ محنت (آئی ایل او) کی ایک تازہ رپورٹ نے عرب دنیا کے لیے ایک نئی حقیقت واضح کی ہے کہ موسمیاتی تبدیلی صرف ماحولیاتی بحران نہیں بلکہ معاشی و سماجی ڈھانچے کو بھی بدل رہی ہے۔تیل پر انحصار کرنے والی عرب معیشتیں اب ایک ایسے موڑ پر کھڑی ہیں جہاں شدید گرمی، پانی کی کمی، اور توانائی کے نئے ذرائع محنت کش طبقے کے مستقبل کو ازسرِنو تشکیل دے رہے ہیں۔رپورٹ کے مطابق، موسمیاتی دباؤ کی وجہ سے خطے کی کئی روایتی ملازمتیں ختم ہو رہی ہیں یا تیزی سے ان کی نوعیت بدل رہی ہیں۔
رپورٹ کی نمایاں باتیں: عرب دنیا میں موسمیاتی تبدیلی کے اثرات
آئی ایل او کی رپورٹ، سن2025 ”Climate Change and Employment in the Arab States”یہ ظاہر کرتی ہے کہ موسمیاتی تبدیلی عرب دنیا کے محنتی ڈھانچے میں گہری دراڑیں ڈال رہی ہے۔عرب دنیا میں تقریباً 1.5 کروڑ سے زائد ورکرز براہِ راست موسمیاتی خطرات سے متاثر ہو رہے ہیں۔ان میں تعمیرات، زراعت اور تیل کی صنعت میں کام کرنے والے مزدور سب سے زیادہ خطرے میں ہیں۔گرمی کی شدت میں اضافے کے باعث مزدوروں کی کام کرنے کی صلاحیت میں اوسطاً 20 سے 25 فیصد کمی دیکھی گئی ہے۔پانی کی قلت، زمین کے خشک ہونے اور توانائی کی پالیسیوں کی تبدیلی نے روایتی ملازمتوں کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔رپورٹ بتاتی ہے کہ خلیجی ممالک میں غیرملکی مزدور، خاص طور پر جنوبی ایشیائی ورکرز، موسمیاتی دباؤ کے سب سے بڑے شکار ہیں، کیونکہ ان کے کام کی نوعیت زیادہ تر کھلی فضا اور شدید درجہ حرارت سے منسلک ہوتی ہے۔

عرب دنیا میں موسمیاتی تبدیلی
بدلتا ہوا روزگار: خطرات سے امکانات تک
جہاں موسمیاتی تبدیلی نقصان پہونچا نے کا سبب بن رہی ہے، وہیں یہ نئے معاشی مواقع بھی پیدا کر رہی ہے۔عرب دنیا میں ”گرین جابز” یعنی ماحول دوست روزگار کے شعبے تیزی سے ابھر رہے ہیں۔سعودی عرب کا ”سعودی گرین انیشیٹو” اور متحدہ عرب امارات کا وژن” ”نیٹ زیرو 2050 منصوبے ان ممالک میں ماحول دوست توانائی کے شعبے میں لاکھوں نئی ملازمتوں کی بنیاد رکھ رہے ہیں۔
شمسی توانائی، ہوا سے بجلی پیدا کرنے کے منصوبے، اور پانی کے پائیدار انتظام کے پروجیکٹس میں ماہر انجینئرز، ٹیکنیشنز اور ڈیٹا اسپیشلسٹس کی مانگ میں اضافہ ہو رہاہے۔
یہ تبدیلی اس بات کی علامت ہے کہ عرب دنیا اب تیل سے آگے بڑھ کر ”کاربن فری اکانومی” کی جانب قدم بڑھا رہی ہے۔
محنت کش طبقے پر اثرات
مہاجر مزدوروں کے لیے بڑھتے چیلنجز

عالمی ادارہ محنت کی اس رپورٹ کے
مطابق، موسمیاتی دباؤ کا سب سے زیادہ
اثر مہاجر مزدوروں پر پڑ رہا ہے، جو زیادہ تر
پاکستان، بھارت، بنگلہ دیش اور نیپال
سے تعلق رکھتے ہیں۔شدید گرمی میں
کھلے آسمان تلے کام کرنے والے مزدوروں
میں ہیٹ اسٹروک، پانی کی کمی اور
سانس کی بیماریوں کے کیسز میں اضافہ ہوا ہے۔
واضع رہے کہ خلیجی ریاستوں میں تعمیرات کے اوقات بدلنے کے باوجود مزدوروں کو مکمل تحفظ حاصل نہیں۔اب کئی ممالک میں لیبر قوانین میں ماحولیاتی خطرات کو شامل کرنے کی ضرورت پر زور دیا جا رہا ہے۔آئی ایل او نے اپنی سفارشات میں واضح کیا ہے کہ لیبر پالیسیوں کو”کلائمیٹ ایڈاپٹیشن“سے ہم آہنگ کرنا ناگزیر ہے۔
گرین جابز کے مواقع اور معاشی تبدیلی کی نئی سمت
اب عرب ممالک میں ماحول دوست صنعتوں کی ترقی معاشی بقا کا ہتھیار بن چکی ہے۔متحدہ عرب امارات میں ”مصدر سٹی” جیسے گرین پروجیکٹس اس کی قابلِ ذکر مثالیں ہیں جب کہ سعودی عرب میں ”نیوم سٹی” جیسے منصوبے توانائی، خوراک اور پانی کے پائیدار ذرائع پر مبنی ہیں اس کے ساتھ اردن، مصر اور مراکش جیسے ممالک بھی شمسی توانائی کے منصوبوں میں پیش پیش ہیں۔
آئی ایل او کے مطابق، اگر عرب دنیا نے گرین اکنامی کو درست سمت میں ترقی دی تو 2030 تک 30 لاکھ نئی ملازمتیں پیدا ہو سکتی ہیں۔

پاکستان کے لیے ممکنہ اثرات: عرب دنیا میں موسمیاتی تبدیلی کا جائزہ
پاکستان سے لاکھوں ورکرز خلیجی ممالک میں برسرِ روزگار ہیں۔ موسمیاتی تبدیلی کے باعث اگر ان ممالک کی لیبر مارکیٹ میں تبدیلی آتی ہے، تو اس کے براہِ راست اثرات پاکستانی معیشت پر پڑ سکتے ہیں۔تعمیرات اور تیل کے شعبے میں ملازمتوں کی کمی سے ترسیلاتِ زر پر دباؤ بڑھ سکتا ہے۔
دوسری جانب، گرین ٹیکنالوجی اور توانائی کے نئے شعبوں میں پاکستانی افرادی قوت کے لیے مواقع بھی پیدا ہو سکتے ہیں بشرطیکہ ملک میں ماحولیاتی ہنر (گرین اسکلز) کی تربیت دی جائے۔
پاکستان کو چاہیے کہ وہ اپنی لیبر پالیسیوں اور تربیتی اداروں کو مستقبل کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرے تاکہ موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کو معاشی موقع میں بدلا جا سکے۔
کیا اسے دیکھنا یاد ہے؟
پاکستان میں اسموگ بحران اور جدید حل
ایشیائی ترقیاتی بینک، گرین کلائمیٹ فنڈ اور پاکستان میں گلیشیائی پانی کے تحفظ کا منصوبہ
عرب دنیا کے لیے موسمیاتی تبدیلی صرف درجہ حرارت میں اضافہ نہیں، بلکہ معاشی ڈھانچے کی ازسرِنو تشکیل ہے۔یہ بحران ایک موقع بھی ہے ایسا موقع جو عرب ممالک کو تیل پر انحصار سے آزاد، ماحول دوست معیشت کی طرف لے جا سکتا ہے۔
تاہم، اس تبدیلی کے لیے مزدوروں کے تحفظ، مہاجر ورکرز کے حقوق اور ماحولیاتی انصاف کو پالیسی کا لازمی جز بنانا ہوگا۔
