فروزاں کے مضامین

روشنی کی آلودگی کیا ہمارے آسمان سے ستارے چرا رہی ہے

روشنی کی آلودگی

پاکستان میں روشنی کی آلودگی ایک بڑا مسئلہ بن چکی ہے، سٹاری نائٹ فاؤنڈیشن اس کے خلاف آگاہی پھیلا کر فلکیاتی حسن بچا رہی ہے۔

تحریر : شاہ خالد شاہ جی 

 

  لائٹ پولوشن ایک بڑھتا ہوا عالمی مسئلہ ہے۔ اس کا زیادہ اثر سنگاپور، چین، امریکہ اور قطر جیسے ممالک میں زیادہ دیکھنے کو ملتا ہے۔ تاہم ترقی پذیر ممالک میں بھی روشنی کی آلودگی کا مسئلہ شدت اختیار کر رہا ہے، حتی کہ  پاکستان میں اس کے اثرات مسلسل بڑھتے جا رہے ہیں۔

پاکستان میں آئزہ زاہد، جو اسٹاری نائٹ فاؤنڈیشن پاکستان کی بانی اور ایگزیکٹیو ڈائریکٹر ہیں جو روشنی کی آلودگی کے مسئلے پر آگاہی پھیلانے کے لیے کام کر رہی ہیں۔ وہ لوگوں کو روشنی کی آلودگی سے متعلق آگاہی فراہم کرنے کے لیے مختلف اقدامات اٹھا رہی ہیں تاکہ ہم روشنی کی آلودگی کو کم کرنے کی کوشش کریں۔

آئزہ زاہد کی کہانی اس حوالے سے ایک دلچسپ پہلو پیش کرتی ہے۔ بچپن میں ان کو آسمان پر ستاروں کی چمک ماند پڑتی ہوئی محسوس ہوتی تھی، اور یہ انہیں محسوس ہوا کہ ان کی نظر کمزور ہو گئی ہے۔ لیکن بعد میں انہیں پتا چلا کہ یہ مسئلہ ان کی نظر کا نہیں بلکہ لائٹ پولوشن (روشنی کی آلودگی) کی وجہ سے تھا، جس کی وجہ سے آسمان کا قدرتی حسن متاثر ہو رہا تھا۔ اس دریافت کے بعد، آئزہ نے اس مسئلے کے حل کے لیے سٹاری نائٹ فاؤنڈیشن کی بنیاد رکھی، جو اب پاکستان میں روشنی کی آلودگی کو کم کرنے کے لیے اپنی کوششیں کر رہی ہے۔

سٹاری نائٹ فاؤنڈیشن کا مشن

اسٹاری نائٹ فاؤنڈیشن پاکستان کے قیام کا مقصد لائٹ پالوشن کے نقصانات سے لوگوں کو آگاہ کرنا اور اس پر قابو پانے کے لیے اقدامات اٹھانا ہے۔ اس فاؤنڈیشن کے ساتھ اب پچاس سے زائد رضاکار کام کر رہے ہیں، جو مختلف شعبہ جات سے تعلق رکھتے ہیں۔

اسٹاری نائٹ فاؤنڈیشن پاکستان کے یہ رضاکار، آئزہ زاہد کی قیادت میں، وقتاً فوقتاً آن لائن ویبنارز منعقد کرتے ہیں جن میں پاکستان اور دنیا بھر سے لوگ شرکت کرتے ہیں اور ماہرین سے روشنی کی آلودگی پر تفصیل سے گفتگو کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ، سوشل میڈیا کے مختلف پلیٹ فارمز پر فاؤنڈیشن کی موجودگی لوگوں میں آگاہی پیدا کرنے کا ایک اہم ذریعہ بن چکی ہے۔

لائٹ پالوشن کے اثرات

روشنی کی آلودگی ( لائٹ پولوشن )  صرف آسمان کی خوبصورتی کو متاثر نہیں کرتا، بلکہ اس کے انسانوں، جانوروں، جنگلی حیات اور فلکیات پر بھی منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

ماہرین کے مطابق روشنی کی آلودگی ( لائٹ پولوشن) انسانوں کے جسمانی اور ذہنی صحت پر گہرے اثرات ڈالتا ہے۔ اس سے نیند کی کیفیت متاثر ہوتی ہے، جس کے نتیجے میں ذہنی دباؤ، موٹاپا اور کینسر جیسے مسائل بڑھ سکتے ہیں۔

جانوروں اور جنگلی حیات پر بھی اس کا برا اثر پڑتا ہے، خاص طور پر رات کے وقت روشنی سے ان کے مائیگریشن، شکار اور افزائش کے عمل میں خلل پڑتا ہے۔ مزید برآں، روشنی کی آلودگی( لائٹ پولوشن) فلکیات کی سائنسی تحقیق میں بھی رکاوٹ ڈالتا ہے، کیونکہ زیادہ روشنی سے آسمان پر ستارے اور دیگر آسمانی اجسام نظر نہیں آ پاتے۔

لائٹ پالوشن کی اقسام اور اس کے ذرائع

لائٹ پولوشن کی مختلف اقسام میں:

  1. گلیر یا چکا چوند :  یہ وہ روشنی ہے جو زیادہ چمک کی وجہ سے دیکھنے میں خلل ڈالتی ہے، اور اکثر ناقص ڈیزائن والی لائٹس کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے۔
  2. e=”font-size: 18pt;”>سکائی گلو یا آسمانی چمک :  رات کے وقت گنجان آباد علاقوں میں زیادہ روشنی کی وجہ سے آسمان پر ستارے نظر نہیں آ پاتے۔
  3. لائٹ ٹریس پاس :  ناپسندیدہ یا غیر ضروری روشنی جو مخصوص جگہوں پر لگائی جاتی ہے۔
  4. کلٹریا بے ترتیبی :  بے ترتیب اور الجھی ہوئی لائٹس جو شہری علاقوں میں پائی جاتی ہیں۔

لائٹ پالوشن کی روک تھام

ماہرین کا کہنا ہے کہ روشنی کی آلودگی ( لائٹ پولوشن)  پر قابو پانا اتنا مشکل نہیں ہے، بس اس کے بارے میں آگاہی پھیلانے کی ضرورت ہے۔

پاکستان کے مختلف علاقوں میں روشنی کی آلودگی ( لائٹ پولوشن)  ایک سنگین مسئلہ بن چکا ہے، اور اس سے نمٹنے کے لیے ہمیں مل کر کوششیں کرنی ہوں گی۔

ڈاکٹر لطیف اللہ خٹک، جو ماحولیاتی آلودگی پر تحقیق کرتے ہیں، اسٹاری نائٹ فاؤنڈیشن کی کوششوں کو سراہتے ہیں اور کہتے ہیں کہ پاکستان میں لائٹ پولوشن کی روک تھام کے لیے خصوصی اقدامات کی ضرورت ہے۔

آئزہ زاہد کی اپیل

آئزہ زاہد نے اپنے پیغام میں کہا ہے کہ لائٹ پالوشن پر قابو پانے کے لیے ہمیں زیادہ وسائل اور افرادی قوت کی ضرورت ہے۔ وہ مخیر حضرات اور ڈونر تنظیموں سے اپیل کرتی ہیں کہ وہ اس کار خیر میں ان کی مدد کریں۔

آئزہ زاہد کے مطابق، اگر ہم سب اپنی کمیونٹیز میں اس مسئلے پر آگاہی پیدا کریں تو ہم اس آلودگی کو کم کر سکتے ہیں اور آسمان کے قدرتی حسن کو دوبارہ بحال کر سکتے ہیں۔

روشنی کی آلودگی (لائٹ پولوشن) ایک اہم ماحولیاتی مسئلہ ہے جسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ اسٹاری نائٹ فاؤنڈیشن پاکستان اور دیگر ماہرین کی کوششیں اس مسئلے کو کم کرنے میں اہم کردار ادا کر رہی ہیں۔

ہمیں چاہیے کہ ہم سب اس اہم مسئلے کو سمجھیں اور اس پر قابو پانے کے لیے اپنی ذاتی اور اجتماعی ذمہ داری ادا کریں۔

اپنا تبصرہ لکھیں