ورٹیکل فارمنگ پاکستان کے شہروں میں کم پانی اور کم زمین کے ساتھ سبز انقلاب لا رہی ہے۔
فرحین العاص (اسلام آباد)
پاکستان کے شہری مراکز میں سبزیوں کی بڑھتی قیمتیں، سپلائی چین کے مسائل اور تازہ خوراک تک محدود رسائی ایک سنگین مسئلہ بنتی جا رہی ہے۔دیہی علاقوں سے شہروں تک سبزی پہنچنے میں وقت، ایندھن اور لاگت بڑھ جاتی ہے جس کا براہِ راست اثر صارف پر پڑتا ہے۔
انہی چیلنجز کو مدنظر میں رکھتے ہوئے اسلام آباد میں ورٹیکل فارمنگ ایک مؤثر اور پائیدار حل کے طور پر سامنے آ رہی ہے۔
نجی اسٹارٹ اپ کے شریک بانی عبدالباسط کے مطابق یہ اسلام آباد میں قائم ایگری ٹیک اسٹارٹ اپ ہے۔ جو ایک نان اسٹاپ سولیوشن ہے۔جہاں صارٖفین یا تو براہِ راست تازہ سبزیاں خرید سکتے ہیں۔ یا اپنے گھر، چھت یا محدود جگہ میں خود سبزیاں اُگا سکتے ہیں۔
ورٹیکل فارمنگ ایک جدید زرعی طریقہ ہے۔ جس میں فصلیں افقی زمین کے بجائے عمودی انداز میں کنٹرولڈ ماحول میں اُگائی جاتی ہیں۔ اس نظام میں روشنی، پانی، غذائی اجزاء اور درجہ حرارت کو خودکار سرکٹس اور سینسرز کے ذریعے کنٹرول کیا جاتا ہے۔
پاکستان بزنس کونسل (2024) کی رپورٹ کے مطابق، شہری فوڈ سیکیورٹی کے لیے ورٹیکل فارمنگ مؤثر حل بن سکتی ہے، تاہم اس کے لیے مالی معاونت اور تکنیکی تربیت کی ضرورت ہے۔
(ماخذ: Opportunities and Challenges in Pakistan’s Vertical Farming Landscape, PBC 2024)
عالمی تحقیقی جریدہ ایم ڈی پی آئی کی (2023) میں شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق، ورٹیکل فارمنگ روایتی کاشت کاری کے مقابلے میں پانی کا استعمال 70 تا 90 فیصد اور زمین کا استعمال 95 فیصد تک کم کر دیتی ہے۔
محدود جگہ میں 20 سے 40 گنا زیادہ پیداوار ممکن ہوتی ہے۔
کیمیائی زرعی زہروں کا استعمال نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے اورکم ٹرانسپورٹ کی وجہ سے کاربن فٹ پرنٹ نمایاں طور پر کم ہو جاتا ہے۔
باسط نے بتایا کہ اس وقت اسلام آباد میں ہم دو فعال ورٹیکل فارمز چلا رہے ہیں۔ جن میں ایک پانچ مرلہ اور دوسرا ایک کنال پر مشتمل ہے جو بنی گالہ کے علاقے میں قائم ہیں۔
یہاں اگائی جانے والی سبزیاں 30 سے زائد خاندانوں کو ماہانہ بنیادوں پر فراہم کی جا رہی ہیں۔ جبکہ پانچ ریسٹورنٹس کے ساتھ بھی سپلائی کے لیے بات چیت جاری ہے۔
انھوں نے بتایا کہ ہم نے گھریلو صارفین کے لیے ایک آٹومیٹڈ فارمنگ کیبنٹ متعارف کرائی ہے۔ جس میں صارف اپنی مرضی کی سبزیاں جیسے ٹماٹر، لیٹس اور کھیرا اُگا سکتا ہے۔
یہ سسٹم بجلی یا سولر انرجی پر چل سکتا ہے۔ اور ایک موبائل ایپ سے منسلک ہے۔ جہاں اے آئی چیٹ کے ذریعے مکمل رہنمائی فراہم کی جاتی ہے۔
عبدالباسط کے مطابق، تین ماہ کے ایک سائیکل میں ایک کیبنٹ سے 16 سے 18 کلوگرام لیٹس حاصل کی جا سکتی ہے۔ جبکہ چیری ٹماٹر تقریباً 92 دن میں تیار ہو جاتے ہیں۔
کیبنٹ کی ابتدائی لاگت تقریباً 50 ہزار روپے ہے، جو دو سائیکل کے اندر پوری ہو سکتی ہے۔ کیونکہ یہ سبزیاں آپ ہمیں بھی فروخت کرسکتی ہیں۔
:یہ بھی پڑھیں
کیا اسلام آباد ویٹ لینڈز منصوبہ پانی کا بحران حل کرپائے گا؟
ماحولیاتی گول مال: ماہرین کی پیشہ ورانہ افراتفری کی کہانی
نجی اسٹارٹ اپ کے بانی معیز کے مطابق، ورٹیکل فارمنگ کی سب سے بڑی خوبی اس کی اسکیل ایبلٹی ہے۔
ہم کلائنٹس کی ضرورت کے مطابق ان کی جگہ پر جا کر سروے کرتے ہیں۔ چھوٹی سے چھوٹی جگہ میں بھی ورٹیکل فارمنگ ممکن ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ روایتی کاشتکاری کے مقابلے میں یہ نظام 30 سے 40 گنا زیادہ پیداوار دے سکتا ہے۔
اگر ایک جگہ پر روایتی طریقے سے 10 کلو سبزی اُگتی ہے۔ تو ورٹیکل فارمنگ کے ذریعے وہی جگہ 30 سے 40 کلو تک پیداوار دے سکتی ہے۔
معیز کے مطابق، یہ سسٹم مکمل طور پر پیسٹی سائیڈ فری،پائیدار اور محفوظ ہے جسے گھروں، ریسٹورنٹس اور کمرشل مقاصد کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔
ان کی ٹیم صارفین کو انسٹالیشن سے لے کر ہارویسٹ تک مکمل تکنیکی سپورٹ فراہم کرتی ہے۔
ماہرِ ماحولیات ڈاکٹر اعجاز کے مطابق، فوڈ سیکیورٹی اور موسمیاتی تبدیلی کے تناظر میں ورٹیکل فارمنگ ایک اہم حل بن کر سامنے آ رہی ہے۔
کم زمین، کم پانی اور کم وسائل کے استعمال سے نہ صرف ماحول محفوظ رہتا ہے بلکہ بائیو ڈائیورسٹی کو پہنچنے والا نقصان بھی کم ہو جاتا ہے۔
تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ شہری علاقوں میں مقامی سطح پر خوراک کی پیداوار بڑھانے سے زرعی زمینوں پر دباؤ کم ہوتا ہے اور درآمدی خوراک پر انحصار بھی کم ہوتا ہے۔
نجی اسٹارٹ اپ کے ایک صارف عبداللہ کا کہنا ہے کہ ورٹیکل فارمنگ نے انہیں صحت مند طرزِ زندگی اپنانے کا موقع دیا۔
میں اپنی بیٹی کے لیے خود سبزیاں اُگا رہا ہوں۔ محدود جگہ میں تازہ اور محفوظ خوراک حاصل کرنا ایک بہترین تجربہ ہے۔
ماہرماحولیات ڈاکٹر اعجاز احمد کے مطابق، ورٹیکل فارمنگ پاکستان جیسے ممالک کے لیے اہم متبادل بن سکتی ہے۔
یہ ایک انٹینسو ایگریکلچر ماڈل ہے جو کم زمین اور کم پانی میں زیادہ پیداوار دیتا ہے۔ اس میں کیڑے مار دواؤں کی ضرورت بھی کم ہو جاتی ہے، یوں ماحول پر دباؤ گھٹتا ہے اور بائیو ڈائیورسٹی کو نقصان نہیں پہنچتا۔
ماہرین کے مطابق، پاکستان جیسے ممالک جہاں آبادی تیزی سے بڑھ رہی ہے اور پانی کے وسائل محدود ہیں وہاں ورٹیکل فارمنگ مستقبل کی ضرورت بن سکتی ہے۔
اسلام آباد میں ایسے اقدامات اس بات کی واضح مثال ہیں کہ ٹیکنالوجی، ماحول اور خوراک کو ایک ساتھ جوڑ کر کس طرح پائیدار شہری زراعت کو فروغ دیا جا سکتا ہے۔
ماحولیاتی کارکنوں کا قتل ہونے کی بنیادی وجوہات کارپوریٹ مفادات، زمین پر قبضے اور قدرتی…
گلوبل اینوائرمنٹ آؤٹ لک رپورٹ خبردار کرتی ہے کہ صنعتی ترقی، آلودگی اور قدرتی وسائل…
موسمیاتی تبدیلی 2025 میں دنیا شدید بحران کا شکار ہے، وجہ بڑھتا کاربن اخراج، گرم…
پاکستان کے پہاڑ اور موسمیاتی تبدیلی ایک سنگین بحران بن چکے ہیں، جہاں عالمی درجہ…
سری لنکا ٹورزم روڈ شوکراچی2025 میں سیاحت، کاروبار اورایم آئی سی ایٹورزم میں نئی شراکت…
پاکستان میں بڑھتی گرمی کا بحران خوراک، مویشی اور عوامی صحت کے لیے سنگین خطرہ…
This website uses cookies.