ڈاکٹر طارق ریاض
رہائش گاہ ایسی جگہ ہے جہاں کوئی جاندار رہتا ہے۔ مسکن ایسی رہائش گاہ ہے جو ان تمام قدرتی وسائل سے مزین ہوتی ہے جہاں ایک پودا،جانور یا انسان کو خوراک،سکون، تحفظ، اپنا ہم سفر اور نسل بڑھانے میں کوئی قابل ذکر دقت کا سامنا نہیں کرتے اور باآسانی اپنی نسل کو برقرار رکھتے ہوئے اپنی نوع کو برقرار رکھتے ہیں۔
قدرتی رہائش گاہ یا مسکن کی ماحولیاتی اہمیت کو مد نظر رکھتے ہوئے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے سن 1985 میں مساکن کا دن عالمی کی سطح پر اکتوبر کے پہلے پیر کو منانے کا فیصلہ کیا۔ رواں سال قدرتی رہائش گاہ کا عالمی دن 6 اکتوبر کو منایا گیا۔
پہلی بار یہ دن سن 1986 کو منایا گیا جس کا مرکزی خیال تھا ”تحفظ میرا حق ہے“۔ رواں سال اس دن کو منانے کا مرکزی خیال ”Urban Crisis Response“ یعنی ہمارے شہری علاقوں میں ماحولیاتی تبدیلیوں سمیت دیگر عوامل کیا اثرات مرتب کر رہے ہیں اور اس بحران کا سامنا کس طرح کیا جا سکتا ہے۔
مسکن کا عالمی دن منانے کا بنیادی مقصد یہی ہے کہ ہر جاندار کی طرح انسانوں کو قدرتی طور پر رہائش گاہوں کی ضرورت ہے۔
یہ دن عوام ا لناس میں آگاہی پیدا کرنے کا دن ہے کہ کس طرح اداروں اور عوام نے اشتراک عمل کے ساتھ اپنی ذمہ داریاں ادا کرتے ہوئے اپنے شہروں اور قصبوں کو بدلتے ہوئے حالات میں مستقبل کی منصوبہ بندی کرنا ہے تاکہ دیرپا شہری و سماجی ترقی کو یقینی بنایا جا سکے۔ تاہم سماجی نا ہمواری، عدم مساوات، مکانات کی کمی اور ماحولیاتی تبدیلیوں کی موجودگی میں اور دیرپا شہری ترقی کے لیے ایک مربوط نظام کی ضرورت ہے۔
کیوں کہ عالمی سطح پر ہر جاندار کی طرح انسانوں کو محفوظ اور دیرپا مساکن کی ضرورت ہے۔دنیاجس تیزی سے موسمیاتی اور ماحولیاتی تبدیلیوں سے گزر رہی ہے اور گزرتے وقت کے ساتھ نئے نئے چلینجز کا سامنا ہے تو ضرورت اس امر کی ہے کہ عالمی سطح پر”مساکن“کو بچانے اور محفوظ رکھنے کی مربوط و منظم اور عالمگیر پالیسی بنانے کے بعد عمل درامد بھی کیا جائے۔
انسان سماجی جانور ہے جسے زندہ رہنے کے لیے سماج کی ضرورت ہے۔ انسانی مسکن قدرتی طور پر اس کا گھر ہے جس میں عمارت، انفرا اسٹرکچر، سماجی ماحول، تہذیب و تمدن، کمیونٹی یا معاشرہ اور روز مرہ کی زندگی سے متعلقہ امور خصوصی اہمیت کے حامل ہیں۔ اسی لیے خوراک، پینے کا صاف پانی،پناہ گاہ اور زندگی بسر کرنے کے لیے مناسب جگہ کا ہونا ہر فرد کا بنیادی انسانی حق ہے۔ اس مسکن میں سڑکیں، گلیاں اور سیوریج کا نظام بھی شامل ہے۔
یہاں قابل ذکر بات یہ ہے کہ جاندار قدرتی رہائش گاہوں کے مکین ہوتے ہیں جب کہ انسان نے اپنا مسکن خود تیار کرنا ہوتا ہے۔ جہاں وہ تمام ضروریات کو پورا کرنے کی منصوبہ بندی کرتا ہے۔ دیہاتی مساکن اور شہری مساکن میں اہم فرق شہری سہولیات کی فراہمی کا ہے۔
شہری مسکن میں اچھے گھر کے ساتھ سیوریج سسٹم، پینے کے پانی کی فراہمی، بیکار ماددوں کو ٹھکانے لگانے کے لیے موثر ویسٹ مینجمنٹ کا نظام، پانی وغیرہ کی بر وقت دستیابی وغیرہ خصوصی اہمیت کے حامل ہیں۔
اب قابل ذکر بات یہ ہے کہ قدرتی پناہ گاہ کسی بھی جاندار کی ہو اسے کئی مسائل کا سامنا ہوتا ہے۔ اسی طرح انسانوں کو بھی استسنا حاصل نہیں کہ انہیں اپنے بنائے ہوئے مساکن میں مشکلات کا سامنا نہ ہو۔
خاص طور سے ماحولیاتی مسائل نے ہی شہری مساکن کو مشکلات سے دوچار کر رکھا ہے۔ موسمیاتی تبدیلی یا ماحولیاتی تبدیلیوں نے دیگر امور کی طرح انسانی مساکن کو بری طرح متاثر کر رکھا ہے۔
حالیہ سیلاب، زلزلے، خشک سالی، ہیٹ ویوز وغیرہ اس کا بین ثبوت ہیں۔ ان دنوں میں کلاؤڈ بلاسٹ اور گلئشیر کا پھٹنا بھی اسی طرف اشارہ کر رہے ہیں کہ ہمارے مساکن بھی کئی طرح کے خطرات سے دوچار ہیں اور اگر انسانی رہائش گاہوں کی بات ہو تو گھروں کی چھتوں اور دیواروں کا گرنا،فصلوں کی پیدا وار میں کمی، پانی کی زیر زمین سطح کا گرنا اور گرمیوں کے دورانیے میں اضافہ وغیرہ ایسے عوامل ہیں جو ہماری تعمیرات، انفرا اسٹرکچر، شہری آبادی کی تباہی اور نئی نئی بیماریوں کی افزائش کا باعث بن رہے ہیں۔
سطح سمندر میں اضافہ، لہروں کی شدت، ساحلی علاقوں کو لاحق خطرات، ہمارے ماحولیاتی نظام میں رونما ہونے والی تیز رفتار تبدیلیاں واضع علامات ہیں کہ انسانی رہائش گاہوں کو آنے والے وقت میں مزید تباہی کے خطرات کا امکان ہے۔
اگر ایسا ہوتا ہے تو غربت میں اضافہ، سماجی ناہمواری اور بے وقت کی بارشوں کے باعث غذائی کمی جیسے مسائل نے انسانی آبادیوں کی بقا کے سامنے سوالیہ نشان لگا دینا ہے۔
اسی طرح دنیا کے مختلف علاقوں میں جنگلات کا بھڑک اٹھنا۔ دور دراز علاقوں تک آگ کا کئی روز تک برقرار رہنا اور اس کی وجہ سے عمارتوں،گھروں،شہری سہولیات کی تباہی یقینا بہت بڑا خطرہ ہے اور اس کا مظاہرہ امریکہ، کنیڈا، ترکی، پاکستان، انڈونیشیا وغیرہ کے جنگلات میں ہو چکا ہے، جہاں وقتا فوقتا آگ لگنے کے واقعات نے شہری علاقوں، انفرا اسٹرکچر، جنگلات اور جنگلی حیات کو بری طرح متاثر کیا ہے۔
قدرتی وسائل کی بربادی نے سیلابوں کی شدت اور زلزلوں کی تعداد میں اضافہ کر دیا ہے۔ یہ دونوں عوامل سیلاب اور زلزلے انسانی وسائل اور مساکن کے بڑے دشمن ہیں۔ رواں برس پاکستان سمیت دیگر ممالک میں طوفانی بارشوں، سیلابوں، بادلوں اور گلئشیر کے پھٹنے اور زلزلوں نے جس طرح سے انسانی بستیوں کو اجاڑا ہے ۔
یہ واضع پیغام ہے کہ قدرت کو اپنے وسائل بہت عزیز ہیں اور انسانی سرگرمیوں کے باعث ماحول اور قدرتی وسائل میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کی قیمت انسان نے ہی ادا کرنا ہے، دیگر جاندار معصوم ہیں اور بے گناہ ہو کر بھی اذیت سہہ رہے ہیں۔
ماحولیاتی تبدیلیاں ایک اور تبدیلی لا رہیں ہیں اور وہ ہے ہجرت۔ ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے گھروں، کھیتوں، مویشی و املاک کا نقصان وغیرہ ایسے عوامل ہیں جو کہ انسانی مساکن کی تباہی اور نئے مساکن کی تلاش پر مجبور کر رہے ہیں۔
ہجرت ایک اور خطرے کی نشاندہی کر رہی ہے کیوں کہ جب انسانی ہجرت ہوتی ہے تو غربت، خوراک کی کمی، رہائشی علاقوں کی کمی، آبادیوں کا گنجان ہو جانا، جرئم میں اضافہ، شہری سہولیات کا فقدان، پانی کی کمی، معاشی ناہمواری، تعلیمی اداروں کا پورا نہ ہونا، ٖضائی آلودگی، سموگ، ذہنی و دل کی بیماریوں میں اضافہ جیسے مسائل کا پیدا ہونا فطری امر ہے۔
اب جس معاشرے میں یہ کچھ ہو گا وہ کیوں کر مثالی بن سکیں گے اور اس طرحکے ماحول میں مقامی اور ہجرت کر کے آنے والوں کے درمیان سماجی، معاشی اور تمدنی تفریق، بے سکونی، بے اطمینانی اور اقتصادی نمو میں کمی جیسے مسائل کا سامنا انسانی مساکن کی تعمیر و ترقی میں بڑی روکاوٹ ہیں۔
پاکستان اور آس پڑوس کے ملکوں میں جس تیزی سے موسمیاتی تبدیلی نے ماحول کو متاثر کیا ہے وہاں انسانی آبادیوں،معیشت اور طرز زندگی میں بھونچال کی سی کیفیت پیدا چکی ہے۔
اگر آبی، فضائی اور ماحولیاتی آلودگی میں پھیلاؤ کی شرح یہی رہی تو درجہ حرارت میں اضافہ، برف پوش پہاڑوں میں کمی،سطح سمندر میں اضافہ، چٹانوں کے سرکنے کی شرح میں اضافہ اور اس کے ساتھ سانس، دل کی بیماریوں کا بڑھ جانا، شرح آبادی کا بے قابو ہو جانا،زرعی رقبہ میں کمی،خطرناک گیسوں کا فضا میں مسلسل شامل ہوتے رہنا وہ اشارے ہیں جو انسانی مستقبل اور انسانی مساکن کے لیے کوئی اچھی خبر نہیں دے رہے۔
یہ بھی پڑ ھیں
فطرت پر مبنی حل: دریا کنارے پودے لگا کر زمین کو سیلاب سے بچائیں
محکمہ موسمیات کی ملک میں شدید سردیوں کی افوہوں کی تردید
موسمیاتی تبدیلی کا عالمی بحران: انسانیت کا بڑا امتحان
اسی لیے اقوام متحدہ نے انسانی رہائش گاہوں کے دن کو منانے کا فیصلہ کیا ہے کہ اقوام، حکومتیں، ادارے، افراد سب اس حقیقت کو جان لیں کہ سب نے مل جل کر باہمی اشتراک سے اس دنیا کو بچانا ہے تب ہی انسان اور اس کی رہائش گاہیں رہنے کے قابل ہوں گی۔
جب سب اپنے ماحول کو ان تبدیلیوں سے بچا کر اپنے مساکن کی حفاظت کا حق ادا کریں گے جو ہماری بقا کے سامنے آکھڑی ہوئی ہیں!
گلگت بلتستان میں مارخور کا غیر قانونی شکار دو ہفتوں میں دوسرا واقعہ، جنگلی حیات…
دنیا موسمیاتی بحران کا مقابلہ نہیں کر سکتی جب تک شہر، میئرز اور مقامی اداروں…
قدرتی آفات کے باعث کسانوں اور ماہی گیروں کا 99 ارب ڈالرز کا سالانہ نقصان…
عالمی شہری توسیع تیزی سے بڑھ رہی ہے اور کراچی موسمیاتی خطرات، آبادی دباؤ، شہری…
ہنزہ کا ہینگنگ گلیشیر موسمیاتی تبدیلی، آلودگی اور برفانی تودوں کے بڑھتے واقعات سے خطرے…
کراچی کی تاریخی عمارتوں کا تحفظ، زبوں حال قدیم عمارتیں اور ثقافتی ورثے کو بچانے…
This website uses cookies.
View Comments
This clarifies a lot of my confusion on the topic.