فروزاں

مٹی کا عالمی دن: زمین کی صحت خطرے میں

مٹی کا عالمی دن زمین کی صحت، آلودگی کے خطرات اور زرخیزی میں کمی کی بنا پر،ماحول، زرعی پیداوار اور انسانی زندگی سب متاثر ہو رہے ہیں۔

مٹی کا عالمی دن ہمیں یہ یاد دلاتا ہے کہ قدرت نے اپنے ماحولیاتی نظام کو طبعی اور حیاتیاتی عوامل میں تقسیم کر رکھا ہے۔ طبعی عوامل میں روشنی، درجہ حرارت، پانی، سطحِ زمین، آگ، کششِ ثقل اور مٹی شامل ہیں، جب کہ حیاتیاتی عوامل میں پودے، جانور اور ڈی کمپوزر (بیکٹیریا اور فنجائی) شامل ہیں۔ ان سب عوامل میں سے مٹی کو خصوصی اہمیت حاصل ہے، کیونکہ ماحولیاتی نظام کے تمام عناصر کا بلاواسطہ یا بلواسطہ تعلق اسی سے ہے۔

مٹی کی خصوصیات پورے ایکوسسٹم کی ساخت، نباتات و حیوانات کی تقسیم اور ماحولیاتی توازن پر گہرے اثرات ڈالتی ہیں۔ اسی لیے مٹی میں آلودہ اجزا کی شمولیت اس کی فطری خوبیوں کو بدل دیتی ہے، اور اس کا نقصان پورے ایکوسسٹم کو بھگتنا پڑتا ہے۔

مٹی ہماری زمین کی سطح پر سب سے بالائی تہہ ہے جو نمکیات،نامیاتی مادوں،پانی،گیسوں اور کئی طرح کے جانداروں پر مشتمل ہے جو زندگی کو سہارا دے کر ایک توازن قائم رکھتے ہیں۔

مٹی قدرت کا بے نظیر خزانہ ہے جو صدیوں میں آہستہ آہستہ چٹانوں کی توڑ پھوڑ کے نتیجے میں وجود میں آتی ہے۔اس عمل کے دوران کلائمیٹ،زمین کی سطح، اس میں پائے جانے والے جاندار وغیرہ اثر انداز ہوتے ہیں اور مٹی کو تہہ در تہہ جمع کرتے رہتے ہیں۔

یہ مٹی ہی ہے جو کسی بھی ماحولیاتی

نظام یا ایکوسسٹم میں وہ تمام وسائل

مثلا پانی،نائٹروجن،فاسفورس،پوٹاشیم اور

آکسیجن وغیرہ پودوں کو فراہم کر کے

زمین پر پودوں کو نشو نما کا موقع دیتی

ہے، حتی کہ ان گنت انواع کو فطری

مساکن مٹی مہیا کرتی ہے۔

اسی کے ساتھ ہی یہ پانی کو ذخیرہ کرتی ہے، بیکار مادوں کی توڑ پھوڑ کے لیے جگہ فراہم کرتی ہے اور ماحول میں مختلف ضروری عنا صرمثلا کاربن، نائیٹروجن وغیرہ کی گردش کو یقینی بنانے کا کام بھی مٹی کے ذمہ ہے۔ کیوں کہ مٹی میں خورد بینی حیات بھی موجود ہیں جو ری سائکلنگ کے عمل کو یقینی بناتے ہیں۔

ان میں بیکٹیریا اور فنجائی خصوصی اہمیت کے حامل ہیں جو توڑ پھوڑ اور نائٹروجن، کاربن اور سلفر وغیرہ کے سائیکل زمیں قدرتی طور پر شامل ہوتے ہیں۔

بیکٹیریا اورفنجائی کے علاوہ ”Archaea“، ”پروٹوزوا“ وغیرہ بھی اس عمل میں حصہ لیتے ہیں۔یہ خورد بینی جاندار پودوں اور جانوروں کے بیکار مادوں، گلے سڑے پتوں،مردار اشیا وغیرہ کو توڑ پھوڑ کر نامیاتی مادوں کو غیر نا میاتی مادوں میں تبدیل کر دیتے ہیں۔

یہ عمل سائنسی اصطلاح میں ”مائن رییلائزیشن“ کہلاتا ہے۔یوں ان کی شمولیت سے ہمارے ماحولیاتی نظام میں کاربن، نائٹروجن وغیرہ کی گردش ان کیمیائی عناصر کی بار بار سائکلنگ کر کے توازن کو برقرار رکھنے میں مدد دیتی ہے۔

یہ جاندار بالخصوص بیکٹریا کی متعدد انواع کیمیائی مادے ”ای پی ایس“ یعنی ایکسٹ سیلولر پولی مریک سبسٹانسس پیدا کرکے اور فنجائی کے دھاگے نما ہائفی (Hyphae) مٹی کے ذرات کو باندھ کر رکھتے ہیں اور اس کی ساخت کو برقرار رکھنے میں کردار ادا کرتے ہیں۔

یہ ہمارے ماحولیاتی نظام کا بہت اہم حصہ ہے۔ یہ متعدد کردار سے کسی بھی ماحولیاتی نظام میں پودوں کی نشو نما اور ان گنت انواع کو رہائش گاہ یا فطری مساکن مہیا کرنے کا فریضہ سر انجام دیتی ہے۔

یہ مٹی ہے جو بڑے سے بڑے کئی سو فٹ بلند درخت سے لے کر چھوٹی سے چھوٹی جڑی بوٹی کو اُگنے کے لیے جگہ، پانی،نمکیات اور وہ خورد بینی حیات فراہم کرتی ہے جو ان کی نشو نما اور بڑھوتری کے لیے اشد ضروری ہے۔

مثال کے طور پر دنیا کے لگ بھگ 90فیصد پودوں کی جڑوں میں مائی کورائی فنجائی پائی جاتی ہے جو مٹی سے جڑوں میں داخل ہو کر ہم زسیتی (Symbiosis) کا رشتہ قائم کر کے زمین سے پانی اور نمکیاتجذب کرنے میں پودوں اور درختوں کی مدد کرتے ہیں، وگرنہ سخت مقابلے کی دوڑ میں بہت سے نباتات مطلوبہ مقدار میں پانی اور نمکیات کا انجذاب نہ کر سکیں۔

اسی طرح یہ ان گنت انواع کا قدرتی مسکن ہے اور یہ بیکٹریا،فنجائی، مائیکروفانا،نیماٹوڈز۔کیچوے (اَرتھ وارمس) وغیرہ کے علاوہ حشرات کو گھر فراہم کرتی ہے۔

یوں اپنے ماحولیاتی کردار کو برقرار رکھنے اور ماحولیاتی نظام کو متوازن رکھنے میں زمین (مٹی) کا کردار بنیادی اہمیت کا حامل ہے۔ لینڈ اسکپنگ وغیرہ کے توازن میں بھی مٹی اہم کردار کی حامل ہے۔

انسانی سرگرمیوں نے جہاں ہوا، پانی اور دیگر طبعی و حیاتیاتی عوامل کو آلودہ کر کے رکھ دیا، وہیں مٹی جیسی قیمتی شے بھی آلودگی کے زہر سے محفوظ نہیں۔

اس حوالے سے مٹی کی ساخت، سختی، مضبوطی، نمکیات کا توازن، مٹی کی پی ایچ، مٹی میں شامل خورد بینی حیات کی تعداد اور نوعیت، دیگر زمینی بالخصوص مٹی میں رہنے والے جانور، فنجائی اور بیکٹریا، یہ سب کے سب آلودگی سے متاثر ہوتے ہیں۔

اس پر رہی سہی کسر زراعت، کھدائی، کھادوں اور زرعی کیمیائی مادوں کا اندھا دھند استمال بھی مٹی کی صحت سامنے سوالیہ نشان لگا دیتا ہے۔گھریلو سیوریج، صنعتی فضلہ جیسی بیکار اشیا بھی مٹی کی صحت اور معیار کو گرا دیتے ہیں۔

بھاری مشینری (زرعی مقاصد)،حد سے زیادہ چرائی وغیرہ مٹی کی ساخت اور اس کے مختلف ذرات کی پکڑ، ذرات کے درمیان ہوا، زیر زمین پانی اور پودوں کی جڑوں کے بڑھنے اور نشونما پر اثر انداز ہوتی ہیں۔

جنگلات کا کٹاؤ قدرت کے قیمتی خزانے مٹی کو زمین کی سطح سے ہوا یا پانی کے ذریعے ہمیشہ کے لیے ہٹا دیتے ہیں۔ یوں مٹی کے ذرات میں ہوا اور پانی کی ڈرینج متاثر ہوتے ہیں۔

انسانی سرگرمیاں طبعی کے ساتھ ساتھ کیمیائی ساخت پر بھی اثر انداز ہوتی ہیں۔ کھادوں کے بے جا استمال کی وجہ سے مٹی کی قدرتی زرخیزی بری طرح متاثر ہوتی ہے۔ مٹی کی پی ایچ بدلنے کی وجہ سے مٹی میں مختلف انواع کی حیات بری طرح توازن سے محروم ہو کر نا پید بھی ہو سکتی ہیں۔

یوں زمین حیاتیاتی تنوع بری طرح توازن کھو رہی ہے۔ زمین میں نامیاتی مادوں کی مقدار میں کمی ہونے کی وجہ سے زرخیزی میں کمی ہو جاتی ہے۔حشرات کش، پھپھوندی کش اور دیگر کیمیائی اشیا کا اسپرے بھی مٹی کی کیمیائی آلودگی کا باعث بن رہے ہیں۔

مٹی کی آلودگی انسانوں، جانوروں، پودوں اور خورد بینی حیات کو بری طرح متاثر کرتی ہے۔ انسانوں میں مٹی کی آلودگی سانس، پھیپڑوں، جلد، آنکھوں، کانوں اور حلق وغیرہ کے مسائل پیدا کرتی ہے۔

اس کے علاوہ سر درد، طبیعت میں بے چینی، تھکن اور ناک کا بہنا وغیرہ جیسے مسائل بھی پیدا ہوتے ہیں کیوں کہ مٹی کی آلودگی کے اثرات پودوں اور جا نوروں کے ذریعے ہم تک پہونچ جاتے ہیں۔ یہ کیمیائی اجزا انسانی صحت کو بری طرح متا ثر کرتے ہیں۔

ان میں جگر، گردے،دماغ،یادداشت،فرٹیلٹی، پیدائش میں نقائص جیسے مسائل قابل ذکر ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ دل، آنکھوں اور خون کے امراض بھی پیدا ہوتے ہیں۔ بچوں و حاملہ خواتین اور ان کے نظام مدافعت کو شدید نقصان پہونچتا ہے۔

اس پر مزید یہ کہ مٹی کی آلودگی غذائی اشیا کو بھی آلودہ کرتی ہے۔ زیر زمین پانی آلودہ اور گرد و غبار میں مسلسل سانس کے امراض بھی صحت کے لیے خطرات ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ مٹی کے عالمی دن پر درج ذیل اقدامات کا عہد کریں۔

یہ بھی پڑھیں

پاکستان پانی کے محاصرے میں: خطرات اور بحران

مغرب کا ماحولیاتی بحران

موثر مینجمینٹ پالیسیوں کا اجرا اور ان پر عمل درآمد،ویسٹ مینجمنٹ کے لیے ”3 آر“ (ریڈیوز، ری سائیکل، ری یوز) پر عمل درآمد، صنعتی و زرعی فضلے کو ٹریٹمنٹ کے بعد ماحول میں شامل کرنا، قدرتی کھادوں کے استمال کا فروغ، دیر پا زرعی طریقوں کا استمال خاص کر کیمیائی کھادوں اور کیمیائی مادوں کا بے دریغ اسپرے روکنا،آرگینک فارمنگ، مٹی کے ضیاع کو ختم کرنا اور قانون پر سختی سے عمل پیرا ہونا، جنگلات کا کٹاؤ روکنا، عوامی شعور و آگہی مہم مسلسل جاری رکھنا، آلودہ مٹی کو بحال کرنے کے لیے بیکٹریا اور فنجائی کا استمال، پودوں اور الجی کے ذریعے کیمیائی اجزا کا انجذاب، زہریلے مادوں کی صفائی کے لیے ٹیکنالوجی کا فروغ وغیرہ جیسے اقدامات کی بدولت ہم اپنی آنے والی نسلوں کے لیے محفوظ بنا سکتے ہیں۔

admin

Recent Posts

پاکستان پانی کے محاصرے میں: خطرات اور بحران

پاکستان پانی کے محاصرے میں ہے۔بھارت کی دھمکیاں، افغان اپ اسٹریم سرگرمی اور اندرونی بدانتظامی…

1 day ago

ماحول کے تحفظ کیلئے میڈیا کی شمولیت ناگزیر ہے، ڈاکٹر ضیغم عباس

ماحول کے تحفظ، فضائی آلودگی میں کمی اور اسموگ جیسے مسائل سے نمٹنے کیلئے میڈیا…

2 days ago

کراچی کا بنیادی ڈھانچہ بحران میں: ابراہیم کا سانحہ اور کھلے مین ہولز کا خطرہ

کراچی انفراسٹرکچر بحران،کھلے مین ہولز اور ناکارہ نکاسیِ آب بچوں کی زندگیاں خطرے میں ڈال…

3 days ago

ایگرو کارپوریشنز کا اثر: عالمی منافع کی بھوک اور زمین کی آخری پکار

ایگرو کارپوریشنز کا اثر زمین، ماحول اور کسانوں کو شدید نقصان پہنچا رہا ہے، جبکہ…

4 days ago

دسمبر کا سپر مون : پاکستان میں سب سے روشن چاند واضح طور پر نظر آئے گا

دسمبر کا سپر مون پاکستان میں کل رات 15 فیصد زیادہ روشن نظر آئے گا۔…

5 days ago

ریاض کانفرنس 2025: گرین انڈسٹری اور ریاض ڈیکلریشن کی نئی سمت

“ریاض کانفرنس 2025 گرین انڈسٹری” ریاض ڈیکلریشن صنعت، ماحول اور پاکستان و جنوبی ایشیا کی…

6 days ago

This website uses cookies.