اسلام آباد میں ایس ڈی پی آئی کانفرنس 2025 کے دوران ماہرین ماحولیاتی انصاف، سبز معیشت، موسمیاتی تبدیلی اور مالی شفافیت پر اظہارِ خیال کرتے ہوئ
اسلام آباد(نمائندہ خصوصی فرحین العاص) عالمی ماہرین نے اس بات پر اتفاق کیا ہے کہ پائیدار ترقی کے ساتھ موسمیاتی انصاف لازم وملزوم ہے۔۔ یہ بات انہوں نے سالانہ پائیدار ترقی کانفرنس میں کہی۔
اسلام آباد میں پالیسی ادارہ برائے پائیدار ترقی (ایس ڈی پی آئی) کی 28ویں سالانہ پائیدار ترقی کانفرنس کا انعقاد کیا گیا، جو 4 سے 7 نومبر 2025 تک جاری رہی۔
کانفرنس میں وفاقی وزراء، بین الاقوامی ماہرین، سفارتکاروں، مالیاتی اداروں اور علاقائی نمائندوں نے شرکت کی۔
کانفرنس کا مرکزی موضوع ’’غیر یقینی دور میں پائیدار ترقی اور موسمیاتی انصاف‘‘ تھا۔ البتہ اس دوران ماحولیاتی تبدیلی، سبز مالیات، علاقائی تعاون اور ڈیجیٹل معیشت کے چیلنجز زیرِ بحث آئے۔
وفاقی وزیر برائے ماحولیاتی تبدیلی ڈاکٹر مصدق ملک نے کہا کہ ترقی یافتہ ممالک ترقی پذیر ملکوں سے ’’سبز ترقی‘‘ کا مطالبہ کرتے ہیں۔ لیکن مالی معاونت روک کر دوہرا معیار اپنائے ہوئے ہیں۔
ان کے مطابق دنیا کے 40 فیصد کاربن اخراج کے ذمہ دار صرف دو ممالک ہیں۔ جبکہ دس ممالک 75 فیصد اخراج کرتے ہیں۔ مالی معاونت روک کر دوہرا معیار مگر 85 فیصد سبز مالیات انہی کے پاس جاتی ہیں۔
مصدق ملک نے کہا کہ پاکستان جیسے ممالک کا عالمی کاربن اخراج میں حصہ ایک فیصد سے بھی کم ہے۔ مگر سیلاب، خشک سالی اور قرضوں نے ان کی بقا کے خطرات پیدا کر دیے ہیں۔
بنگلہ دیش کی مشیر برائے ماحولیات سیدہ رضوانہ حسن نے خبردار کیا کہ خطے میں سیاسی بے یقینی، دریائی تنازعات اور مٹی کی زرخیزی میں کمی کروڑوں افراد کے لیے خطرہ ہیں۔
ان کے مطابق علاقائی تعاون، تعلیم اور تربیت ہی ماحولیاتی خطرات سے تحفظ کی ضمانت بن سکتے ہیں۔
وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی پروفیسر احسن اقبال نےکہا کہ پاکستان کو عالمی غیر یقینی کے اس دور میں اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ اور علم، جدت اور خودداری کی بنیاد پر کام کرنا ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ تحقیق کے بغیر پالیسی سازی بامقصد نہیں ہو سکتی۔ ہمیں علم پر مبنی پالیسیوں کے ذریعے پائیدار ترقی کا راستہ اختیار کرنا ہوگا۔
ایگزیکٹو ڈائریکٹر ایس ڈی پی آئی ڈاکٹر عابد قیوم سلہری نے کہا کہ یہ کانفرنس تحقیق اور پالیسی سازی کے درمیان پل کا کام کرتی ہے۔
انہوں نے نشاندہی کی کہ پائیدار ترقی کی راہ میں کئی بڑی رکاوٹیں ہیں۔ جن میں سب سے بڑی کمزور مالیاتی نظام اور غیر یقینی عالمی صورتحال ہے۔
ایس ڈی پی آئی کے چیئرمین سفیر (ر) شفقت کاکا خیل نے کہا کہ امن، خوشحالی اور انسانی فلاح شدید خطرے میں ہے۔ جبکہ عالمی عزم کمزور پڑ رہا ہے۔
اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندے محمد یحییٰ نے کہا کہ اب وقت بڑے اور مشترکہ پروگرامز کا ہے۔ چھوٹے منصوبے اب کافی نہیں۔
انہوں نے کہا کہ اقوام متحدہ حکومتوں کی تکنیکی معاونت تو فراہم کر سکتا ہے۔ مگر ان کی جگہ نہیں لے سکتا۔
ڈنمارک اور جرمنی کے سفارتکاروں نے پاکستان پر زور دیا کہ وہ کلائمٹ اسمارٹ پالیسیاں بنائے۔ اور قابلِ تجدید توانائی، گرین فنانس اور نجی شعبے کی شمولیت کو فوری ترجیح دے۔
ڈنمارک کے ڈپٹی ہیڈ آف مشن پیٹر نیلسن نے کہا کہ موسمیاتی بحران ایک “زندہ حقیقت” بن چکا ہے۔
جرمن سفارتخانے کے نمائندے آرنو کرکھوف نے کہا کہ پاکستان کو ماحول دوست ترقی کے راستے پر قدم بڑھانا ہوگا۔
نیشنل بک فاؤنڈیشن کے ڈاکٹر کامران جہانگیر نے کہا کہ موسمیاتی تبدیلی اب صرف ماحولیاتی نہیں۔ بلکہ قومی سلامتی کا مسئلہ ہے۔
ان کے مطابق ملک کو علم پر مبنی حکمرانی اور کلائمٹ اسمارٹ پالیسیوں کی طرف فوری پیش رفت کرنی ہوگی۔
پہلے دن کے اختتام پر مختلف زمروں میں سسٹینبلیٹی ایوارڈز دیئے گئے۔ جن میں ایگرو ٹیک، واٹر کنزرویشن، رینیوایبل انرجی، سرکلر اکانومی، گرین فنانس، جینڈر ایکویٹی، اور ڈیزاسٹر ریزیلینس شامل تھے۔
وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا کہ پاکستان کو اپنی مالی حکمت عملی کو سبز اور پائیدار سمت میں تبدیل کرنا ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ حکومت نے موسمیاتی فنانس کے لیے آئی ایم ایف سے ایک اشارعیہ 3 ارب ڈالر کے معاہدے کیے ہیں۔ جبکہ ایشیائی ترقیاتی بینک سے پانچ سو ملین ڈالر کے معاہدے کیے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ ملک میں ورچوئل ایسٹ ریگولیٹری اتھارٹی (ای اے آر اے) قائم کی جا رہی ہے۔ تاکہ ڈیجیٹل معیشت اور کرپٹو اثاثوں کو ضابطے میں لایا جا سکے۔
پاکستان بینکنگ ایسوسی ایشن کے چیئرمین ظفر مسعود نے تجویز دی کہ جنوبی ایشیا میں ’’کلائمٹ بینک‘‘ قائم کیا جائے۔ تاکہ ماحولیاتی منصوبوں کے لیے مالی وسائل بہتر انداز میں منظم ہو سکیں۔
یو این ای پی کے ڈاکٹر پشپم کمار نے کہا کہ جنوبی ایشیا اور افریقہ کو بلینڈڈ فنانس اپنانا ہوگا۔ تاکہ محدود وسائل کے باوجود بڑے نتائج حاصل کیے جا سکیں۔
ڈاکٹر عابد قیوم سلہری کے مطابق پیرس معاہدے مین ترقی یافتہ ممالک نے ایک ٹریلین ڈالر دینے کا وعدہ کیا تھا۔ لیکن اب تک صرف تین سو ارب ڈالر فراہم کیے گئے ہیں۔
انہوں نے زور دیا کہ جب تک مالی وسائل کی منصفانہ تقسیم نہیں ہوگی- موسمیاتی انصاف محض نعرہ رہے گا۔
ورلڈ بینک کی کنٹری ڈائریکٹر ڈاکٹر بولرما امگاباز نے خبردار کیا کہ اگر آبادی پر قابو نہ پایا گیا۔ تو دو ہزار پچاس تک پاکستان کا جی ڈی پی تیس فیصد تک کم ہو سکتا ہے۔
انہوں نے پاکستان کی آبی و فضائی آلودگی کو تشویشناک قرار دیا۔ اور بیس ارب ڈالر کے ترقیاتی روڈ میپ کی پیشکش کی۔
یو این ڈی پی کے سیموئیل رزک نے کہا کہ پاکستان کو خطرات سے محفوظ سرمایہ کاری ماڈل اپنانا ہوگا۔ تاکہ غیر یقینی حالات میں استحکام لایا جا سکے۔
ماہرین نے خبردار کیا کہ اگر پاکستان نے ڈیجیٹل کرنسی اور ورچوئل اثاثوں پر واضح پالیسی نہ اپنائی۔ تو 25 ارب ڈالر کے مواقع ضائع ہو سکتے ہیں۔
اسٹیٹ بینک کے نمائندے فیصل مظہر نے بتایا کہ مرکزی بینک کی ڈیجیٹل کرنسی (سی بی ڈی سی) پر کام جاری ہے۔ اور جلد پروٹوٹائپ تیار ہو جائے گا۔
ڈاکٹر ذوالفقار بھٹہ، ڈاکٹر اقرار احمد خان اور دیگر ماہرین نے کہا کہ موسمیاتی تبدیلی نے زرعی شعبے کی مٹی کی زرخیزی، فصلوں کے تسلسل اور خوراکی سلامتی کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔
انہوں نے زور دیا کہ پاکستان کو ڈیٹا پر مبنی زرعی پالیسیاں اپنانی ہوں گی۔
ماہرین نے کہا کہ پاکستان کے لیے علاقائی تجارت ہی پائیدار راستہ ہے۔
وزارتِ تجارت کے محمد اشفاق کے مطابق امریکہ کے تجارتی دباؤ سے نمٹنے کے لیے پاکستان کو آسیان طرز کا علاقائی ماڈل اپنانا ہوگا۔
کانفرنس کے اختتامی سیشن میں حکومتِ پاکستان نے 2047 تک سبز معیشت کی تعمیر اور موسمیاتی و آبادیاتی چیلنجز کے حل کا عہد کیا۔
شرکاء نے اتفاق کیا کہ پائیدار ترقی کا راستہ صرف علاقائی تعاون، مالی شفافیت، اور علم پر مبنی پالیسیوں سے ممکن ہے۔
گلگت بلتستان میں مارخور کا غیر قانونی شکار دو ہفتوں میں دوسرا واقعہ، جنگلی حیات…
دنیا موسمیاتی بحران کا مقابلہ نہیں کر سکتی جب تک شہر، میئرز اور مقامی اداروں…
قدرتی آفات کے باعث کسانوں اور ماہی گیروں کا 99 ارب ڈالرز کا سالانہ نقصان…
عالمی شہری توسیع تیزی سے بڑھ رہی ہے اور کراچی موسمیاتی خطرات، آبادی دباؤ، شہری…
ہنزہ کا ہینگنگ گلیشیر موسمیاتی تبدیلی، آلودگی اور برفانی تودوں کے بڑھتے واقعات سے خطرے…
کراچی کی تاریخی عمارتوں کا تحفظ، زبوں حال قدیم عمارتیں اور ثقافتی ورثے کو بچانے…
This website uses cookies.