اسلام آباد (فرحین العاص، نمائندہ خصوصی) وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے کہاکہ پاکستان کو اپنی مالی حکمت عملی کو سبز اور پائیدار سمت میں بدلنا ہوگا۔
انہوں نے موسمیاتی تبدیلیوں اور بڑھتی ہوئی آبادی کے دباؤ سے خبردار کرتے ہوئے کہا کہ موسمیاتی فنانسنگ کی مؤثر تنظیم کے بغیر پاکستان کے معاشی مستقبل کو محفوظ رکھنا ممکن نہیں۔
یہ باتیں وزیر خزانہ نے ایس ڈی پی آئی کی سالانہ پائیدار ترقی کانفرنس کے تیسرے روز خطاب مں کیں۔ جس کا انعقاد پاکستان کے درالحکومت اسلام آباد میں کیا گیا۔
وزیر خزانہ نے موسمیاتی فنانس کے لیے عالمی مالیاتی اداروں کے ساتھ معاہدے کیےہیں۔
جن میں 1ایک اشارعیہ تین ارب ڈالر کا معاہدہ آئی ایم ایف کے ساتھ کیاہے۔ اورپانچ سو ملین ڈالر کا معاہدہ ایشیائی ترقیاتی بینک کے ساتھ کیا گیا ہے ۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ عالمی سرمایہ کاری کی فضا کو بہتر بنانے کے لیے پاکستان میں ریگولیٹری اصلاحات کی جا رہی ہیں ۔
جن میں کرپٹو کرنسی اور ڈیجیٹل اثاثوں کے لیے ورچوئل ایسٹ ریگولیٹری اتھارٹی (VARA) کا قیام بھی شامل ہے۔
ایس ڈی پی آئی کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر عابد قیوم سلہری نے کہا کہ موسمیاتی ایکشن کا انحصار مالی وسائل کی فراہمی پر ہے۔
انہوں نے کہا کہ پیرس معاہدے کے تحت ترقی یافتہ ممالک نے موسمیاتی فنانس کے لیے ایک ٹریلین ڈالر کا وعدہ کیا تھا۔ مگر اب تک صرف 300 ارب ڈالر فراہم کیے گئے ہیں۔ جو بلینڈڈ فنانس کے ذریعے فراہم کیے گئے ہیں۔
پاکستان بینکنگ ایسوسی ایشن کے چیئرمین ظفر مسعود نے اس موقع پر تجویز دی کہ جنوبی ایشیا میں موسمیاتی منصوبوں کے لیے ایک کلائمٹ بینک قائم کیا جائے۔ تاکہ مالی وسائل کو بہتر طریقے سے منظم کیا جا سکے۔
انہوں نے کہا کہ جنوبی ایشیا میں مالی وسائل کے انتظام کے لیے علاقائی سطح پر حل تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔
ظفر مسعود نے اس بات پر زور دیا کہ ماحول دوست سرمایہ کاری کے لیے خصوصی ترقیاتی مالیاتی اداروں کی ضرورت ہے۔
وزیر خزانہ اور دیگر ماہرین نے موسمیاتی سرمایہ کاری کے لیے بلینڈڈ فنانس کی اہمیت پر بھی زور دیا۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ موسمیاتی منصوبوں کے لیے مالی وسائل کی فراہمی میں اضافہ کے لیے پالیسی ہم آہنگی اور مضبوط ریگولیٹری ڈھانچہ ضروری ہے۔
انہوں نے کہا کہ سرکلر معیشت اپنانے کے ذریعے موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات کو کم کیا جا سکتا ہے۔ جو محدود وسائل کے بہتر استعمال میں مدد دے گا۔
یہ بھی پڑھیں
کیا پلاسٹک شاپنگ بیگزپر پابندی کی کوششیں کامیاب ہوگئیں؟
ڈیم پالیسی: کیا سندھ کے دریا اور زرخیز زمین خطرے میں ہیں؟
کانفرنس میں، ایڈیشنل سیکرٹری وزارت موسمیاتی تبدیلی، ذوالفقار یونس نے بھی شرکت کی۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک کے لیے سرکلر معیشت کا تصور بہت اہم ہے۔ کیونکہ محدود وسائل کے دور میں ان کا مؤثر استعمال ضروری ہے۔
انہوں نے جنوبی ایشیا کے لیے ایک علاقائی حکمت عملی اپنانے کی ضرورت پر زور دیا۔ تاکہ موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات سے نمٹنے کے لیے مؤثر اقدامات کیے جا سکیں۔
یو این ای پی کے چیف انوائرنمنٹل اکانومسٹ ڈاکٹر پشپم کمار نے اس بات کی نشاندہی کی۔ اور کہا کہ جنوبی ایشیائی اور افریقی معیشتوں کو بلینڈڈ فنانس کو ترجیح دینی چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ مستند کاربن پرائسنگ اور موسمیاتی پالیسیوں کے لیے ہم آہنگی پر توجہ دینی چاہیے۔ تاکہ موسمیاتی اثرات کو کم کرنے کے لیے مؤثر اقدامات کیے جا سکیں۔
پاکستان کی حکومت نے اس بات کا عہد کیا کہ وہ اپنی معیشت کو مستحکم اور موسمیاتی تبدیلیوں کے چیلنجز کا مقابلہ کرنے کے لیے ضروری اقدامات کرے گی۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ پاکستان کو 2047 تک اپنے موسمیاتی اور آبادی کے چیلنجز کا حل نکالنا ہوگا۔ اور اس کے لیے “عزم اور تسلسل” کی ضرورت ہے۔
پاکستان کی موسمیاتی فنانسنگ حکمت عملی کے تحت، نئے اقدامات کیے جارہے ہیں۔ جن میں مالیاتی منصوبوں اور سرمایہ کاری کے امکانات بڑھانے کی کوشیش شامل ہیں ۔
تاکہ موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات کو کم کیا جا سکے۔ اور سبز معیشت کی طرف منتقلی کو تیز کیا جا سکے۔
گلگت بلتستان میں مارخور کا غیر قانونی شکار دو ہفتوں میں دوسرا واقعہ، جنگلی حیات…
دنیا موسمیاتی بحران کا مقابلہ نہیں کر سکتی جب تک شہر، میئرز اور مقامی اداروں…
قدرتی آفات کے باعث کسانوں اور ماہی گیروں کا 99 ارب ڈالرز کا سالانہ نقصان…
عالمی شہری توسیع تیزی سے بڑھ رہی ہے اور کراچی موسمیاتی خطرات، آبادی دباؤ، شہری…
ہنزہ کا ہینگنگ گلیشیر موسمیاتی تبدیلی، آلودگی اور برفانی تودوں کے بڑھتے واقعات سے خطرے…
کراچی کی تاریخی عمارتوں کا تحفظ، زبوں حال قدیم عمارتیں اور ثقافتی ورثے کو بچانے…
This website uses cookies.