ڈاکٹر شہزادہ ارشاد
انسانی تاریخ میں بعض اوقات خیر کی نیت سے کیے گئے فیصلے آنے والی نسلوں کے لیے وبالِ جان بن جاتے ہیں۔ پلاسٹک کی کہانی بھی کچھ ایسی ہی عبرتناک داستان ہے۔ جو ہاتھیوں کے تحفظ سے شروع ہوئی اورآگے چل کر پوری زمین کے لیے ماحولیاتی عذاب بن کر سامنے آئی۔ اب صورت حال کچھ یوں بن گئی ہے کہ ہم کمبل کو جتنا بھی چھوڑنا چاہیں کمبل ہمیں نہیں چھوڑتا۔
یہ جبر بھی دیکھا ہے تاریخ کی نظروں میں لمحوں نے خطا کی تھی صدیوں نے سزا پائی
1863میں نیویارک کے ایک نوجوان موجد جان ویسلی ہائٹ نے ایک اشتہار دیکھا،جس میں اعلان تھا کہ اگر کوئی ہاتھی دانت کے بجائے بیلیئرڈ گیندوں کے لیے متبادل مواد ایجاد کرے تو اسے دس ہزار ڈالر انعام دیا جائے گا۔ا
اس وقت بیلیئرڈ کا کھیل اشرافیہ میں تیزی سے مقبول ہو رہا تھا، مگر ہر گیند کے لیے قیمتی ہاتھی دانت درکار ہوتا تھا، ایک ہاتھی کے دانت سے بمشکل چار یا پانچ گیندیں بنتی تھیں۔ نتیجتاً ہاتھیوں کا بے دریغ شکار شروع ہوگیا۔
ہائٹ نے اپنی تجربہ گاہ میں سیلولوز نائٹریٹ سے ایک نیا مصنوعی مادہ تیار کیا — سیلولوئیڈ (Celluloid) — جو ہاتھی دانت کی طرح چمکدار اور سخت تھا۔
یہ دنیا کا پہلا تجارتی پلاسٹک کہلایا۔ اشتہارات نے دعویٰ کیا کہ “یہ ایجاد ہاتھیوں کو بچا رہی ہے!”مگر جلد ہی حقیقت سامنے آئی کہ یہ مواد نہایت آتش گیر تھا، حتیٰ کہ کبھی کبھار بیلیئرڈ کی گیندیں تصادم کے وقت دھماکے سے پھٹ جایا کرتی تھیں۔یوں حیوانات کے تحفظ کی نیت سے جنم لینے والی ایجاد خود انسانی سلامتی کے لیے خطرہ بن گئی۔
انیسویں صدی کے آخر سے لے کر دوسری جنگِ عظیم تک، پلاسٹک کو ایک معجزاتی مادہ سمجھا جانے لگا۔جنگ کے زمانے میں نائلون، پولی تھین، اور پلیکسی گلاس جیسے نئے پلاسٹک فوجی ضروریات کے لیے ناگزیر بن گئے۔ پیراشوٹ، طیاروں کی کھڑکیاں، ریڈار انسولیشن, سب پلاسٹک سے بننے لگے۔
جنگ کے بعد یہی مواد عام زندگی میں داخل ہوگیا۔گھروں میں، فیشن میں، خوراک کی پیکنگ میں، بچوں کے کھلونوں اور دفتری سامان تک۔یہ وہ دور تھا جسے اشتہارات نے” The age of Convenience“یعنی “آسانی کی صدی” قرار دیا۔1950 کی دہائی میں “استعمال کرو اور پھینک دو” کا کلچر جدید زندگی کی علامت بن گیا چنانچہ پلاسٹک بطور صنعت جگہ بنانے لگا۔
ابتدا میں پلاسٹک کو قدرتی وسائل کے تحفظ کا ذریعہ سمجھا گیا لکڑی، ہڈی، اور شیل کے متبادل کے طور پر۔مگر جلد ہی یہ “محفوظ” متبادل ماحولیاتی بربادی کا باعث بن گیا۔پچھتر برس بعد، زمین پر آٹھ ارب ٹن سے زائد پلاسٹک جمع ہو چکا ہے،سمندروں کی گہرائیوں سے لے کر ماؤنٹ ایورسٹ کی بلندیوں تک، اور اب تو انسانی خون اور دماغ میں بھی مائیکرو پلاسٹک کی موجودگی ثابت ہو چکی ہے۔
پلاسٹک بظاہر سستا لگتا ہے، مگر اس کی اصل قیمت انسانی صحت اور ماحولیاتی نظام چکا رہے ہیں۔ تحقیقات کے مطابق، دنیا بھر میں پلاسٹک سے جڑے امراض کی سالانہ لاگت کم از کم 1.5 کھرب ڈالر ہے۔
یہی نہیں، پلاسٹک کی تیاری میں استعمال ہونے والے 16,000 سے زائد کیمیکل،جن میں کئی زہریلے ہیں، انسان کے اعصابی نظام، تولیدی صحت اور مدافعتی توازن کو متاثر کر رہے ہیں۔
PFAS (ہمیشہ رہنے یا کبھی ناپید نہ ہونے والے کیمیکل) جیسے اجزا، جو فوڈ پیکجنگ، نان اسٹک برتنوں اور صنعتی مصنوعات میں شامل ہیں.پانی، مٹی اور انسانی جسم میں جمع ہو کر کینسر اور ہارمونی خلل کا باعث بن رہے ہیں۔گویا اب انسان پیدائش کے وقت سے ہی “پری پولیوٹڈ”یعنی آلودہ پیدا ہو رہا ہے۔
پچھلی صدی کے وسط میں جب پلاسٹک کچرا بڑھنے لگا تو کمپنیوں نے ایک نیا حربہ اپنایا۔عوام سے کہا گیا کہ “اگر آپ زیادہ ری سائیکل کریں تو مسئلہ ختم ہو جائے گا”۔مگر اندرونی رپورٹس جیسے (Centre for Climate Intigrity) کی تحقیق نے بعد میں ثابت کیا کہ صنعتی ماہرین خود جانتے تھے کہ ری سائیکلنگ ایک ناقابلِ عمل، غیر مؤثر اور غیر منافع بخش عمل ہے۔یوں قصوروار بنائی گئی عوام(صارف)، جبکہ اصل ذمہ دار. پلاسٹک بنانے والی کمپنیاں خاموشی سے منافع کماتی رہیں۔
اب جب دنیا بھر میں سنگل یوز پلاسٹک پر پابندیاں بڑھ رہی ہیں، سائنسدان اور ماہرین گردشی معیشت یعنی مکمل دائرہ کار پر مبنی نظام کی طرف متوجہ ہیں۔
یہ نظریہ کہتا ہے کہ ہمیں پلاسٹک کے ہر مرحلے پرخام مال سے لے کر تلفیتک کو دوبارہ سوچنے کی ضرورت ہے۔اس نظام کے چند نمایاں اجزا یہ ہیں۔
قدرتی، قابل تلف یا بایو پلاسٹک کا فروغ،بار بار استعمال کے قابل مصنوعات کی ڈیزائننگ،صاف توانائی سے پیداوار،شفاف سپلائی چین اور اخلاقی ذرائع کا فروغ۔
جدید کچرا جمع آوری و چھانٹی Modren Waste Collection and Sorting System
اپ سائیکلنگ اور کیمیکل ری سائیکلنگ
عوامی تعلیم و شعور،سخت قانون سازی اور ماحولیاتی ٹیکس۔
متعدد ایسی ایجادات پردن رات تحقیق ہورہی ہیں جواگرکامیاب ہوجائیں تو شاید یہی اس کہانی کا نیا اور امید افزا موڑ ہو۔ مثلا
حال ہی میں بانس کے تنیسے تیار ہونے والا ایک نیا بایو پلاسٹک دریافت ہوا ہے جو مٹی میں 50 دن کے اندر تحلیل ہو جاتا ہے۔
ریکن سینٹر برائے ابھرتے ہوئے مادّی علوم (RIKEN Centre for Emergent Matter Science- CEMS
محقق ٹاکوزو آءِیڈاکی قیادت میں سائنسدانوں نے ایک ایسا پائیدار پلاسٹک تیار کیا ہے جو سمندروں میں میں مائیکرو پلاسٹک آلودگی میں اضافہ نہیں کرے گا۔یہ نیا مادّہ مضبوطی کے اعتبار سے روایتی پلاسٹک جتنا ہی طاقتور ہے، مگر اس کی خصوصیت یہ ہے کہ
یہ بھی پڑھیں
راول ڈیم کے اطراف صفائی مہم کا آغاز
توانائی مؤثر عمارتوں کے کوڈ پر اسلام آباد میں عملدرآمد کا آغاز
یہ قابلِ تحلیل ہے اور سمندری پانی میں خود بخود ٹوٹ کر ختم ہو جاتا ہے۔یوں توقع کی جاتی ہے کہ یہ پلاسٹک ان نقصان دہ مائیکرو پلاسٹکس کی مقدار میں کمی لانے میں مددگار ثابت ہوگا جو سمندروں اور مٹی میں جمع ہو کر بالاآخر غذائی زنجیریں داخل ہو جاتے ہیں۔
پلاسٹک نے ہمیں یہ سبق دیا ہے کہ ہر ایجاد اخلاقی نیک نیتی اور طویل المدتی سوچ کے بغیر وبال بن سکتی ہے۔وقت آگیا ہے کہ ہم تحفظِ حیوانات سے تحفظِ انسانیت تک اپنی ترجیحات بدلیں اور زمین کو اس کے اصل توازن میں واپس لانے کے لیے اجتماعی دانش، سائنسی بصیرت، اور عملی عزم کا مظاہرہ کریں۔ اور آئیندہ کے لئیے عہد کرلیا جاے کہ۔
ہستی کے مت فریب میں آجائیواسد عالم تمام حلقہ دام خیال ہے۔
گلگت بلتستان میں مارخور کا غیر قانونی شکار دو ہفتوں میں دوسرا واقعہ، جنگلی حیات…
دنیا موسمیاتی بحران کا مقابلہ نہیں کر سکتی جب تک شہر، میئرز اور مقامی اداروں…
قدرتی آفات کے باعث کسانوں اور ماہی گیروں کا 99 ارب ڈالرز کا سالانہ نقصان…
عالمی شہری توسیع تیزی سے بڑھ رہی ہے اور کراچی موسمیاتی خطرات، آبادی دباؤ، شہری…
ہنزہ کا ہینگنگ گلیشیر موسمیاتی تبدیلی، آلودگی اور برفانی تودوں کے بڑھتے واقعات سے خطرے…
کراچی کی تاریخی عمارتوں کا تحفظ، زبوں حال قدیم عمارتیں اور ثقافتی ورثے کو بچانے…
This website uses cookies.