کوپ 30 بیلیم : پاکستان گلوبل ساؤتھ کے ساتھ موسمیاتی انصاف کے مطالبے میں نمایاں کردار ادا کر رہا ہے۔
فروزاں ڈیجیٹل کوپ رپورٹ
برازیل کے شہر بیلیم میں جاری کوپ30 دنیا کی توجہ ایک بار پھر ماحولیاتی انصاف، موسمیاتی مالیات اور زمین کے تحفظ پر مرکوز کر چکی ہے۔
اس بار اجلاس کا خاص پہلو یہ ہے کہ یہ دنیا کے سب سے بڑے کاربن ذخیرے ایمیزون رین فاریسٹ کے دامن میں ہو رہا ہے۔
یہ علامتی مقام اس بات کی یاد دہانی ہے کہ اگر جنگلات باقی نہ رہے، تو عالمی موسمیاتی اہداف محض اعداد و شمار بن کر رہ جائیں گے۔
کوپ 30 کی جاری اجلاسوں کے دوران ترقی پذیر ممالک نے ایک بار پھر اس امر پر زور دیا کہ ترقی یافتہ دنیا اپنے کاربن اخراج کی قیمت ادا کرے۔”لاس اینڈ ڈیمج فنڈ“کے عملی نفاذ پر تفصیلی مذاکرات جاری ہیں، تاہم مالی امداد کے واضح اعلانات اب تک محدود رہے ہیں۔
دوسری طرف، انڈیجنس کمیونٹیز اور ماحولیاتی کارکنوں نے کانفرنس کے باہر احتجاجی مظاہرے کیے، جن میں جنگلات کی کٹائی اور مقامی آبادیوں کے حقوق کے تحفظ کا مطالبہ شامل تھا۔
برازیلین میڈیا کے مطابق، مظاہروں کے دوران چند مواقع پر مظاہرین نے اجلاس ہال کی طرف مارچ بھی کیا، لیکن مجموعی طور پر ماحول پرامن رہا۔
ان مظاہروں نے کوپ 30 بیلیم کے اصل سوال کو اجاگر کیا کہکیا دنیا ابھی بھی صرف وعدوں پر چل رہی ہے یا اب عملی قدم اٹھانے کا وقت آ گیا ہے؟
پاکستانی وفد کی قیادت اس بار وزیرِاعلیٰ پنجاب مریم نواز کر رہی ہیں، جو برازیل میں پاکستانی اسٹالز، سائیڈ سیشنز اور متعدد دوطرفہ ملاقاتوں میں شریک ہیں۔
یہ پہلا موقع ہے کہ ایک صوبائی رہنما اس سطح پر پاکستان کی نمائندگی کر رہی ہیں جسے پاکستان کے اندر ایک ”نیا ماحولیاتی ڈپلومیٹک چہرہ” قرار دیا جا رہا ہے۔
وفد میں وزارتِ موسمیاتی تبدیلی، ماہرینِ ماحول، اور نوجوان نمائندگان شامل ہیں جو پاکستان کی ”کلائمیٹ ریزیلینٹ پاکستان“مہم کے فریم ورک کو اجاگر کر رہے ہیں۔
پاکستان کی پالیسی کا مرکزی نکتہ ”فنانس اڈاپٹیشنن” ہے،یعنی موسمیاتی تبدیلی سے متاثرہ ممالک کو مالی مدد تاکہ وہ خود کو بدلتے موسم کے مطابق ڈھال سکیں۔
پاکستان 2022 کے تباہ کن سیلابوں کے بعد مسلسل اس بات پر زور دے رہا ہے کہ ”کلائمیٹ جسٹس” کے بغیر کسی بھی ماحولیاتی معاہدے کا کوئی اخلاقی جواز نہیں۔
اسلام آباد میں منعقد ہونے والے پری کوپ۔ راؤنڈ ٹیبل (انسٹیٹیوٹ آف اسٹریٹیجک اسٹڈیز، اسلام آباد) میں پاکستانی ماہرین نے تین بنیادی نکات پر اتفاق کیا تھا۔
ہمالین گلیئشل میلٹ کا خطرہ جنوبی ایشیا کی مشترکہ بقا کا مسئلہ ہے۔ترقی یافتہ ممالک کو ”لاس اینڈ ڈیمج“ فنڈ میں باضابطہ حصہ ڈالنا چاہیے۔
پاکستان کو خطے میں ”کلائمیٹ لیڈر شپ رول“ ادا کرنے کے لیے ماحولیاتی سفارت کاری (گرین ڈپلومیسی) کو مزید مضبوط بنانا ہو گا۔
کوپ 30 بیلیم میں پاکستان انہی نکات پر بات چیت کو آگے بڑھا رہا ہے۔پاکستانی وفد نے جنوبی ایشیا کے ممالک سے مشترکہ پالیسی فریم ورک کی تجویز بھی دی ہے جس میں ”کراس باڈر کلائمیٹ کوآپریشن“کو مرکزی حیثیت دی گئی ہے۔
کوپ میں ”گلوبل ساؤتھ الائنس” کی شکل میں ترقی پذیر ممالک کا غیر رسمی اتحاد ابھر رہا ہے، جس میں پاکستان، بنگلہ دیش، نائیجیریا، اور کینیا نمایاں ہیں۔یہ گروہ مطالبہ کر رہا ہے کہ گرین کلائمیٹ فنڈ کے تحت نئے مالیاتی میکانزم بنائے جائیں تاکہ قرضوں کے بجائے گرانٹس دی جائیں۔پاکستان نے اس موقع پر واضح کیا کہ ”Climate Vulnerability is not Charity — it’s justice”
پاکستانی اسٹارٹ اپ پلیٹ فارم اگنائٹ نے کوپ کے موقع پر“کلائمٹ سلوشن چیلنجز”کے تحت نوجوانوں کے اختراعی منصوبے پیش کیے، جن میں پانی کے تحفظ، قابلِ تجدید توانائی اور پلاسٹک ری سائیکلنگ کے حل شامل تھے۔
یہ اقدام پاکستان کے نجی شعبے کی جانب سے عالمی فورم پر ایک مثبت شمولیت کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔
پاکستان کی موجودہ نمائندگی ایک واضح پیغام دے رہی ہے کہ اب صرف مظلوم ممالک کی فہرست میں شامل ہونا کافی نہیں۔پاکستان خود کو ایک ”کلائمیٹ پالیسی پلیر” کے طور پر پیش کر رہا ہے۔یہی وہ تبدیلی ہے جس کی بنیاد کوپ میں ہونے والی مذاکرات میں پاکستان کے اثر و رسوخ کا تعین کرے گی۔
کوپ30 بیلیم اجلاس نے ایک بار پھر دنیا کو یہ احساس دلایا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی کسی ایک خطے کا مسئلہ نہیں۔پاکستان جیسے ممالک کے لیے یہ موقع ہے کہ وہ عالمی فورمز پر صرف متاثرہ ریاست نہیں بلکہ حل پیش کرنے والی قوم کے طور پر اپنی شناخت بنائیں۔
اگر پاکستان اپنے قومی ”کلائمیٹ ریزیلیسن روڈ میپ” کو عملی شکل دے پائے تو یہ پاکستان کے لیے ایک سفارتی اور ماحولیاتی موڑ ثابت
ہو سکتا ہے۔
پاکستان کی طرف سے اس اجلاس میں شرکت کی سطح باضابطہ“پارٹی ڈیلگیشن”کی ہے، یعنی مَمْلَکَتی حکام کے ساتھ مذاکراتی نمائندے شامل ہیں۔
یہ بھی پڑھیں
شاہراہ قراقرم پر لینڈ سلائڈننگ : چھ گاڑیاں ملبے تلے دب گئی
پاکستان کے صوبہ پنجاب کی وزیرِاعلیٰ مریم نواز نے نمائندگی کا کردار ادا کیا ہے، بالخصوص پنجاب حکومت کے“پاکستان پیویلین” (“فروم دی انڈس ٹو دی ایمیزون”) کوپ30بیلیم میں قائم کیا گیا ہے۔
وفاقی سطح پر بھی پاکستان نے وفد تشکیل دیا ہے، مثال کے طور پر وفاقی ماحولیاتی تبدیلی کے وزیر سینیٹر ڈاکٹرمصدقملک نےکلائمیٹ ولنریبل فورم (سی وی ایف) کے وفد سے ملاقات کی ہے تاکہ پاکستان کی ترجیحات کوپ30 میں مضبوط ہوں۔
یہ کہا جا سکتا ہے کہ پاکستان نے صرف ”مشاہداتی سطح” پر نہیں بلکہ مذاکراتی سطح پر فعال شرکت کی ہے اور صوبائی اور وفاقی دونوں سطحوں پر نمائندگی کی گئی ہے۔
گلگت بلتستان میں مارخور کا غیر قانونی شکار دو ہفتوں میں دوسرا واقعہ، جنگلی حیات…
دنیا موسمیاتی بحران کا مقابلہ نہیں کر سکتی جب تک شہر، میئرز اور مقامی اداروں…
قدرتی آفات کے باعث کسانوں اور ماہی گیروں کا 99 ارب ڈالرز کا سالانہ نقصان…
عالمی شہری توسیع تیزی سے بڑھ رہی ہے اور کراچی موسمیاتی خطرات، آبادی دباؤ، شہری…
ہنزہ کا ہینگنگ گلیشیر موسمیاتی تبدیلی، آلودگی اور برفانی تودوں کے بڑھتے واقعات سے خطرے…
کراچی کی تاریخی عمارتوں کا تحفظ، زبوں حال قدیم عمارتیں اور ثقافتی ورثے کو بچانے…
This website uses cookies.
View Comments
کوالالمپور کا تاریخی اعلان.الفاظ سے عمل تک کا فاصلہ
کوالالمپور میں ہونے والی بین الاقوامی ماحولیاتی کانفرنس میں انسان اور زمین کے درمیان “نئے معاہدے” کا اعلان ایک تاریخی لمحہ کے طور پر پیش کیا گیا۔ دنیا بھر کے ماہرینِ ماحولیات، پالیسی ساز، سول سوسائٹی کے نمائندگان اور نوجوان لیڈرز کی شرکت نے اجلاس کی اہمیت کو بڑھا دیا، لیکن سوال یہ ہے کہ کیا یہ وعدے صرف الفاظ تک محدود رہیں گے یا حقیقی تبدیلی کی بنیاد رکھیں گے؟
گزشتہ کئی دہائیوں میں ہم نے اسی طرح کے بین الاقوامی اجلاس، وعدے اور معاہدے دیکھے ہیں، جن میں شجرکاری، پائیدار توانائی، اور ماحولیاتی تحفظ کو یقینی بنانے کے عزم کے دعوے کیے گئے، مگر عملی اقدامات اکثر سست یا نامکمل رہ گئے۔ کوالالمپور کا اعلان بھی اسی پس منظر میں سامنے آیا ہے۔ تقریب میں سولر انرجی، گرین ٹیکنالوجی اور ماحول دوست پالیسیوں پر زور دیا گیا، لیکن عملی منصوبہ بندی کے بغیر یہ تمام حوصلہ افزا تقریریں محض کاغذی دعوے رہیں گی۔
کوالالمپور کی کانفرنس اس بات کا کھلا ثبوت ہے کہ ماحولیاتی بحران پہلے سے کہیں زیادہ سنگین ہو چکا ہے۔ صنعتی ترقی اور معاشی مفادات کی دوڑ میں زمین کی صحت اکثر ثانوی حیثیت اختیار کر جاتی ہے۔ مگر یہی وہ حقیقت ہے جس کا سامنا ہمیں آج کرنا ہے: اگر انسانی ترقی زمین کے توازن کو نقصان پہنچاتی رہی، تو آنے والی نسلیں اس کی بھاری قیمت ادا کریں گی۔
نوجوان لیڈرز اور سول سوسائٹی کی شرکت امید کی ایک کرن ضرور ہے، مگر حقیقی امتحان تب ہوگا جب عالمی سطح پر وعدے عملی اقدامات میں تبدیل ہوں گے۔ کیا ممالک اپنے اقتصادی اور صنعتی ماڈلز میں اصلاح کریں گے؟ کیا کلین انرجی کو ترجیح دی جائے گی؟ یا یہ تاریخی اعلان بھی محض عالمی میڈیا کی ایک دلچسپ خبر بن کر رہ جائے گا؟
کوالالمپور نے دنیا کو پیغام دیا ہے کہ زمین کے ساتھ تعلقات کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن تبدیلی کے لیے نہ صرف عزم، بلکہ سنجیدہ، فوری اور شفاف اقدامات کی ضرورت ہے۔ ورنہ یہ “تاریخی قدم” بھی وقت کی ریت میں دھنس جانے والے خوبصورت الفاظ ہی رہ جائیں گے۔