فروزاں رپورٹ
برازیل کے شہر بیلیم میں منعقدہ سی او پی 30 اس لحاظ سے غیر معمولی اجلاس ثابت ہوا کہ جہاں ایک طرف دنیا موسمیاتی ایمرجنسی کی دہلیز پر کھڑی ہے، وہیں دوسری طرف عالمی سیاست، معاشی مفادات اور موسمیاتی انصاف کے تقاضے اپنی اپنی سمت میں کھنچے دکھائی دیے۔
پاکستانی میڈیا میں اس کانفرنس کے اہم نکات تو سامنے آئے، مگر کئی عالمی پیش رفتیں، تضادات اور فیصلے جو عالمی سطح پر زیرِبحث رہے ہماری خبروں کی شہ سرخی نہیں بن سکے۔
ان تمام پوشیدہ مگر نہایت اہم نکات کا جامع تجزیہ پیش ہے، جو عالمی موسمیاتی مذاکرات کی حقیقی تصویر پیش کرتے ہیں۔
اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیوگوترس نے دنیا کو سخت پیغام دیتے ہوئے کہا کہ ”1.5ڈگری کاہدف کھونا ایک اخلاقی ناکامی ہے“۔
گوترس کے الفاظ اس کانفرنس کی اصل روح کو بیان کرتے ہیں کہ”1.5 ڈگری کا ہدف کھونا صرف سائنسی ناکامی نہیں، یہ انسانیت کی اخلاقی ناکامی ہے۔“ان کا کہنا تھا کہ عالمی درجہ حرارت میں مسلسل اضافہ،صنعتی و سیاسی مفادات,فاسل فیول لابی کا دباؤ، یہ ایسے عوامل ہیں جو دنیا کو ایسے مقام پر لے آئے ہیں جہاں ناقابلِ واپسی موسمیاتی تباہی کا خطرہ حقیقی شکل اختیار کر چکا ہے۔
پاکستان جیسے ممالک جہاں سیلاب، ہیٹ ویوز،گلیشئرکاپگھلاؤ اور زرعی بحران روزمرہ حقیقت ہیں کے لیے یہ انتباہ براہِ راست خطرے کی گھنٹی ہے۔
کوپ 30کے دوران ایک ایسا تضاد سامنے آیا جو زیادہ تر میڈیا کی نظروں سے اوجھل رہے۔بیلیم شہر تک رسائی بہتر بنانے کے لیے ایمیزون کے جنگلات میں 13 کلومیٹر طویل چار لینی سڑک تعمیر کی گئی۔
ماہرین کے مطابق اس سڑک کی تعمیر کے لیے قیمتی جنگل صاف کیے گئے جس کے نتیجے میں حیاتیاتی تنوع کو نقصان پہنچا،جنگلات کے ٹوٹنے (fragmentation) کا خطرہ بڑھا۔اگرچہ برازیل نے اسے ”گرین انفراسٹرکچر” قرار دیا ہے، مگر ماحولیاتی حلقوں میں اسے ”سیاسی ضرورت کی خاطر ماحولیات قربان کرنے“ کی مثال کہا جا رہا ہے۔
یہ حقیقت کانفرنس کے بنیادی مقصد کے بالکل برعکس نظر آئی۔
بیلیم میں دنیا بھر کے رہنما مذاکرات میں مصروف تھے، مگر کانفرنس کے باہر انڈیجینس کمیونٹیز نے مرکزی داخلی راستہ بلاک کر کے تاریخی احتجاج کیا۔
ان کے اہم مطالبات میں ایمیزون کی زمینوں کا مکمل تحفظ
کانفرنس کے مذاکرات میں براہِ راست نمائندگی،زمین ہتھیانے والی کمپنیوں کے خلاف سخت قوانین،جنگلات پر انڈیجینس کنٹرول کی عالمی سطح پر تسلیم شدہ حیثیت جیسے مطالبات شامل تھے۔
یہ احتجاج اس سچائی کا اظہار تھا کہ دنیا کے سب سے بڑے جنگل کے“اصل محافظ”اب بھی عالمی فیصلوں میں حاشیے پر ہیں۔
کوپ 30 میں ٹراپیکل فوریسٹ فور ایور فیسلیٹی(ٹی ایف ایف ایف) کے نام سے ایک 125 بلین ڈالر کا نیا ماحولیاتی فنڈ متعارف کرایا۔جس کی اہم خصوصیات یہ عطیہ نہیں، بلکہ سرمایہ کاری فنڈ ہے،جنگلات کو معاشی طور پر فائدہ مند اثاثے میں تبدیل کرنے کا ماڈل،کم از کم 20 فیصد فنڈ براہِ راست مقامی اور انڈیجینس کمیونٹیز کو ملے گااور جنگلات کے تحفظ کو عالمی سرمایہ کاری سے جوڑنے کی بڑی کوشش جیسے اقدامات شامل ہیں۔
یہ ماڈل پاکستان جیسے ممالک کے لیے مثال ہے جہاں جنگلات کا رقبہ پہلے ہی خطرناک حد تک کم ہو چکا ہے۔
ترقی پذیر ممالک نے کوپ30 میں بار بار یہ بات اٹھائی کہ ”ہمارے پاس موسمیاتی اہداف ضرور ہیں، مگر وسائل نہیں۔“اس حوالے سے پیدا ہونے والے اہم اختلافات میں لوس اینڈ ڈیمیج فنڈ کی عملی شکل،
1.3 ٹریلین ڈالر سالانہ کی فنانسنگ کا طریقہ کار،شفافیت کے فقدان،کاربن مارکیٹس کے غیر واضح اصول شامل رہے۔یہی وہ شعبہ ہے جہاں کوپ30 کوئی بڑا بریک تھرو دینے میں ناکام رہا۔
اجلاس کے دوران پیش کی گئی رپورٹس کے مطابق 1.7 ارب انسان ایسی زمینوں پر رہتے ہیں جہاں زرخیزی تیزی سے کم ہو رہی ہے۔طوفانوں، گرمی کی شدت، اور بارشوں کے نئے پیٹرنز نے غذائی پیداوار کو شدید نقصان پہنچایا ہے جس کے نتیجے میں عالمی فوڈ سیکیورٹی آئندہ 20 برسوں میں 30فیصد تک متاثر ہو سکتی ہے۔
یہ نتائج پاکستان کے لیے خاص اہمیت رکھتے ہیں، جہاں آلودہ پانی، زمین کا انحطاط اور بے ہنگم زراعت ملکی خوراک کے مستقبل کو خطرے میں ڈال رہے ہیں۔
دنیا کے تقریباً 100 ممالک نے نئے اہداف کا اعلان کیا ہے، جن میں میتھین کے اخراج میں کمی،قابلِ تجدید توانائی میں تیزی،جنگلات میں بڑے پیمانے پر بحالی کے منصوبے۔لیکن ان اہداف کی کامیابی مکمل طور پر مالی امداد اور ٹیکنالوجی ٹرانسفر پر منحصر ہے، اور یہ دونوں شعبے اب تک کمزور ہیں۔
کوپ 30 نے ایک حقیقت واضح کر دی ہے کہ دنیا موسمیاتی بحران کے ایک ایسے دور میں داخل ہو چکی ہے جہاں اہم فیصلے یا تو بہت دیر سے ہوتے ہیں، یا ناکافی ہوتے ہیں۔
یہ اجلاس اس حقیقت کو واضع کرتا ہے کہ وعدے بڑھتے جا رہے ہیں رہے ہیں، مگر ان پر عملپہلے دن سے ہی نہیں ہو پا رہا ہے۔ترقی پذیر ممالک مطالبات کر رہے ہیں کہ ہمارے وسائل محدود ہیں،جنگلات کے محافظ آواز بلند کر رہے ہیں، مگر عالمی سیاست سست ہے،ماحولیاتی انصاف کا نعرہ سب لگا رہے ہیں، مگر عملی اقدامات نہ ہونے کے برابر ہیں۔
یہ بھی پڑھیں
پاکستان میں آبادی پرعدم کنٹرول جی ڈی پی کا تیس فیصد نگل سکتا ہے، ورلڈ بینک
گلیشیئرز:برفانی ذخائر دنیا کی سفید چھتیں ہیں
پاکستان کے لیے سبق ہے کہ ہمیں اپنے جنگلات،اپنی زمین،پانی کے ذخائر،ٹیکنالوجی،پالیسی اور سفارت کاری،ان سب محاذوں پر زیادہ طاقتور اور واضح مؤقف اپنانا ہوگا۔اس کے ساتھ ہمیں ملکی سطح پر موسمیاتی اور ماحولیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے نہ صرف عملی اقدامات اٹھانا ہوں گے بلکہ ان پر سختی سے عمل درامد بھی کرانا ہو گا۔
گلگت بلتستان میں مارخور کا غیر قانونی شکار دو ہفتوں میں دوسرا واقعہ، جنگلی حیات…
دنیا موسمیاتی بحران کا مقابلہ نہیں کر سکتی جب تک شہر، میئرز اور مقامی اداروں…
قدرتی آفات کے باعث کسانوں اور ماہی گیروں کا 99 ارب ڈالرز کا سالانہ نقصان…
عالمی شہری توسیع تیزی سے بڑھ رہی ہے اور کراچی موسمیاتی خطرات، آبادی دباؤ، شہری…
ہنزہ کا ہینگنگ گلیشیر موسمیاتی تبدیلی، آلودگی اور برفانی تودوں کے بڑھتے واقعات سے خطرے…
کراچی کی تاریخی عمارتوں کا تحفظ، زبوں حال قدیم عمارتیں اور ثقافتی ورثے کو بچانے…
This website uses cookies.