گلگت شہر کا پینے کا پانی آلودہ—19 میں سے 18 نمونے غیر معیاری ثابت۔تصویر بشکریہ ای پی اے
تنویر احمد (گلگت)
گلگت بلتستان اگرچہ دنیا کے ان چند خطوں میں شامل ہے جو آبی وسائل سے مالا مال ہیں۔ در حقیقت یہ گلگت بلتستان کے گلیشیئرز ہی ہیں جو پاکستان کے دریاؤں کو زندگی دیتے ہیں مگر حیران کن طور پر انہی گلیشیئرز کے دامن میں آباد گلگت شہر کے باسی آج پینے کے صاف پانی کے لیے ترس رہے ہیں۔
گلگت شہر ، صوبے کا دارالحکومت، تعلیمی، تجارتی اور سیاحتی مرکز ہے۔ دو لاکھ نفوس پر مشتمل اس شہر کے لیے پینے کے صاف پانی کی فراہمی بنیادی ضرورتوں میں سے ایک اہم ضرورت ہے لیکن افسوس کہ پینے کے صاف پانی کی فراہمی حقیقت اس کے برعکس ہے۔
حال ہی میں گلگت بلتستان انوائرمنٹل پروٹیکشن ایجنسی کی ایک رپورٹ نے شہر کو تشویشمیں مبتلا کردیا ہے ۔
رپورٹ کے مطابق گلگت کے واٹر سپلائی
کمپلیکسز سے حاصل کیے گئے 19
نمونوں میں سے 18 آلودہ اور غیر معیاری
پائے گئے۔صرف ایک نمونہ انسانی
استعمال کے لیے محفوظ قرار دیا گیا۔
جوٹیال واٹر سپلائی کمپلیکس سے پانچ میں سے چار، برمس کمپلیکس سے لیے گئے تمام پانچ نمونے اور ریور اپ لفٹ سکیم کے چاروں نمونے آلودہ نکلے ہیں چونکہ یہ نظام شہر کے بڑے حصوں کو پانی فراہم کرتا ہے اس لیے یہ نتائج ہزاروں شہریوں کے لیے براہ راست خطرہ ہیں۔
طبی ماہرین کے مطابق اگر فوری اقدامات نہ کیے گئے تو گلگت میں ہیپاٹائٹس، ٹائیفائیڈ، ڈائریا، اور پیٹ کے امراض تیزی سے پھیل سکتے ہیں۔
اسپتالوں کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ روزانہ درجنوں مریض آلودہ پانی سے پیدا ہونے والی بیماریوں کا شکار ہو کر اسپتال پہنچ رہے ہیں۔
بچوں میں ڈائریا خواتین میں کمزوری اور متلی جبکہ عمر رسیدہ افراد میں معدے کے امراض عام ہیں۔ چونکہ خواتین گھریلو کاموں میں سب سے زیادہ پانی استعمال کرتی ہیں، اس لیے وہ اس آلودگی سے زیادہ متاثر ہوتی ہیں۔ آلودہ پانی نے گلگت کے شہریوں پر معاشی بوجھ بھی ڈال دیا ہے۔
علاج معالجے پر خرچ بڑھ گیا ہے جبکہ غریب طبقہ مہنگا منرل واٹر خریدنے سے قاصر ہے یہ پانی 60 سے 100 روپے میں دستیاب ہے جو عام گھرانوں کے بس سے باہر ہے۔
بعض لوگ چشموں اور نالوں سے پانی لانے پر مجبور ہیں مگر وہ ذرائع بھی مویشیوں اور سیوریج کے فضلے سے آلودہ ہیں۔
مضافات کے علاقوں دنیور، اوشی کھنداس، سلطان آباد، بسین، چھلمش داس اور جوتل میں خواتین اور بچے روزانہ کئی گھنٹے پانی لانے پر صرف کرتے ہیں جس سے تعلیم اور گھریلو زندگی متاثر ہو رہی ہے۔
گلگت کا واٹر سپلائی سسٹم 1980 اور 1990 کی دہائی میں تعمیر ہوا تھا۔ آبادی بڑھنے کے باوجود یہ نظام آج بھی وہی ہے جگہ جگہ پائپ لائنیں پھٹی پڑی ہیں جس سے سیوریج کا گندا پانی ان میں شامل ہو رہا ہے۔
واٹر ٹینکس کی صفائی باقاعدگی سے نہیں کی جاتی اور بجٹ ہونے کے باوجود شفافیت کا فقدان ہے۔
اس سلسلے میں ایک شہری زکریا احمد نے فروزاں ڈیجیٹل سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ہم روزانہ گندا پانی پیتے ہیں بیمار ہوتے ہیں، اور حکومت صرف اعلانات تک محدود ہے۔
ای پی اے کی رپورٹ کے بعد شہریوں نے حکومت اور واٹر سپلائی ڈیپارٹمنٹ کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔
سوشل میڈیا پر لوگ مطالبہ کر رہے ہیں کہ پانی کے معیار کی باقاعدہ جانچ کی جائے پرانی لائنوں کو تبدیل کیا جائے اور فلٹریشن پلانٹس کی مرمت کی جائے ۔
مقامی شہری شمس الرحمٰن نے کہا ہم دن رات مزدوری کرتے ہیں مگر جو کماتے ہیں وہ دوائیوں میں چلا جاتا ہے۔ صاف پانی میسر نہیں تو صحت کہاں سے آئے گی؟ ابھی پچھلے ہفتے میرے دو بچے پیٹ درد سے بیمار ہوئے ہسپتال لے کر گیا تو بتایا کہ آلودہ پانی کی وجہ سے بچوں کا پیٹ خراب ہوا ہے۔
گلگت کے بیشتر اسکولوں اور کالجوں میں پینے کا پانی بھی اسی آلودہ نظام سے آتا ہے۔ اساتذہ کے مطابق طلبہ اکثر بیماریوں کے باعث غیر حاضر رہتے ہیں جس سے ان کی تعلیمی کارکردگی متاثر ہو رہی ہے۔
عالمی ادارہ صحت کے مطابق ہر سال دنیا بھر میں تقریباً 20 لاکھ افراد آلودہ پانی کے باعث موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں اور اس وقت گلگت شہر کی صورتحال اس عالمی تصویر کی عکاسی کرتی ہے۔پانی زندگی کی علامت ہے لیکن جب یہی پانی آلودہ ہو جائے تو یہ زندگی کے بجائے موت کا پیغام بن جاتا ہے۔
گلگت شہر میں آلودہ پانی کی صورتحال پر ماہرین اور اداروں کی جانب سے چند تجاویز پیش کی گئی ہیں جن پر عمل کر کے بحران پر قابو پایا جا سکتا ہے ۔
چونکہ گلگت شہر اور مضافات کو نالہ جات جیسے کارگاہ نالہ، جوٹیال نالہ، سکوار نالہ،برمس نالے کے واٹر چینلز کے ذریعے پینے کا پانی فراہم کیا جاتا ہے ۔
تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ واٹر انٹیک چینلز اور اسٹوریج ٹینکس کو مکمل طور پر ڈھانپا جائے۔ پائپ لائنز کو گہرائی میں اور سیوریج لائنوں سے دور رکھا جائے۔ کلورینیشن کا عمل باقاعدگی سے اور معیاری طریقے سے کیا جائے۔ماہانہ پانی کے معیار کی رپورٹ جاری کی جائے۔موبائل لیبارٹریز کے ذریعے ہنگامی جانچ کا نظام قائم کیا جائے۔
گھریلو سطح پر عوام کو پانی ابال کر یا کلورین ٹیبلٹس کے ذریعے صاف کرنے کی تربیت دی جائے۔عوامی آگاہی مہمات تعلیمی اداروں، مساجد اور کمیونٹی سینٹرز میں چلائی جائیں۔
شہریوں کو صاف پانی کی فراہمی حکومت کی بنیادی ذمہ داری ہے۔اگر یہ نظام درست نہ ہوا تو صحت عامہ کا بحران سنگین وبا کی شکل اختیار کر سکتا ہے۔
بجٹ میں واٹر سپلائی سسٹمز کی اپ گریڈیشن کو ترجیح دی جائے اور فنڈز کے استعمال میں شفافیت یقینی بنائی جائے۔
اقوام متحدہ نے صاف پانی کو بنیادی انسانی حق قرار دیا ہے، لیکن گلگت بلتستان جیسے خطے میں جو خود پانی کے ذخائر سے مالا مال ہے وہاں کے عوام کا اس حق سے محروم رہنا ایک قومی المیہ ہے۔
دنیا کے کئی ممالک مثلاً جاپان، سنگاپور، ترکی اور ملائیشیا نے پانی کے نظام کو جدید ٹیکنالوجی اور عوامی شمولیت کے ذریعے بہتر بنایا ہے گلگت کے لیے بھی یہی راستہ واحد حل ہے۔اگر حکومت، ادارے اور عوام مل کر کام کریں تو یہ بحران حل ہو سکتا ہے بصورت دیگر آنے والے برسوں میں گلگت شہر ایک بڑے وبائی خطرے کا مرکز بن سکتا ہے۔
گلگت بلتستان قدرتی حسن اور وسائل سے بھرپور خطہ ہے اگر یہاں کے لوگ ہی صاف پانی سے محروم رہیں تو یہ ہماری اجتماعی ناکامی ہے۔
یہ بھی پڑھیں
شاہراہ قراقرم پر لینڈ سلائڈننگ : چھ گاڑیاں ملبے تلے دب گئی
ماحولیاتی تبدیلی اور انتہاپسندی: سماجی تقسیم کا نیا چیلنج
صاف پانی زندگی کی ضمانت ہے، اور یہ وقت ہے کہ ہم سب اپنی ذمہ داری سمجھیں۔ گلگت بلتستان حکومت شہر میں پینے کے پانی سے جڑے مسائل حل کرنے میں ناکام ثابت ہوئی ہے جبکہ لوگوں میں شعور و آگاہی نہ ہونے کی وجہ سے پانی کے موجود ذرائع کے غیر محفوظ ہونے کے باوجود آلودہ پانی پینے پر مجبور ہیں۔
گلگت بلتستان میں مارخور کا غیر قانونی شکار دو ہفتوں میں دوسرا واقعہ، جنگلی حیات…
دنیا موسمیاتی بحران کا مقابلہ نہیں کر سکتی جب تک شہر، میئرز اور مقامی اداروں…
قدرتی آفات کے باعث کسانوں اور ماہی گیروں کا 99 ارب ڈالرز کا سالانہ نقصان…
عالمی شہری توسیع تیزی سے بڑھ رہی ہے اور کراچی موسمیاتی خطرات، آبادی دباؤ، شہری…
ہنزہ کا ہینگنگ گلیشیر موسمیاتی تبدیلی، آلودگی اور برفانی تودوں کے بڑھتے واقعات سے خطرے…
کراچی کی تاریخی عمارتوں کا تحفظ، زبوں حال قدیم عمارتیں اور ثقافتی ورثے کو بچانے…
This website uses cookies.