شبینہ فراز، عبد الرحیم
پاکستان کے سمندری ماہی گیری کا شعبہ جو حیاتیاتی تنوع اور ساحلی پیداوار سے مالا مال ہے اب بھی ساختی عدم مساوات، صوبائی نظراندازی، اور وسائل کے قلیل مدتی استحصال کی ایک واضح مثال ہے۔
یہ عدم توازن بلوچستان میں سب سے زیادہ نمایاں ہے، ایک ایسا صوبہ جو پاکستان کے تازہ سمندری ماہی گیری میں سب سے زیادہ حصہ ڈالتا ہے، لیکن اقتصادی اور برآمدی فوائد کا صرف ایک چھوٹا حصہ حاصل کرتا ہے۔
زیادہ تر سمندری خوراک کی برآمد کراچی کی بندرگاہ کے ذریعے کی جاتی ہے، جہاں آمدنی سندھ کی معیشت میں درج کی جاتی ہے، جس کی وجہ سے بلوچستان کی کارکردگی قومی و اقتصادی حسابات میں تقریباً نہ ہونے کے برابر رہ جاتی ہے۔
داد کریم کُماری، 70 سالہ مقامی ماہی گیر، جو گوادر کے پرانے ماہی گیر آباد کاری علاقے، گوادر کُماری وارڈ سے تعلق رکھتے ہیں، بلوچستان کی مقامی ماہی گیرکمیونٹی کی جدوجہد اور استقامت کو اجاگر کرتے ہیں۔
کریم نے 12–13 سال کی عمر میں ماہی گیری شروع کی اور اپنی پوری زندگی سمندر کو وقف کر دی۔ وہ نو بچوں کے والد ہیں، چار بیٹے اور پانچ بیٹیاں، جن میں دو بیٹے اب تربیت یافتہ اسکیپر ہیں۔
روایتی ماہی گیری کے ہنر کے علاوہ، انہیں ڈولفن، کچھوے اور وہیل مچھلی جیسے سمندری جانوروں کے بچاؤ اور رہائی کی تربیت بھی دی گئی، جو سمندری تحفظ کے لیے ان کے عزم کو ظاہر کرتا ہے۔
ان کی نوجوانی میں جال اسپینش میکرل، پامفریٹ، ریز، شارک، لابسٹرز اور دیگر مچھلیوں سے بھرے ہوتے تھے۔
وہ اب بھی لابسٹر اور سولی مچھلی پکڑنے کے لیے سمندر جاتے ہیں، لیکن اب ماہی گیری میں شدید کمی آئی ہے، جس کی بنیادی وجہ غیر ملکی ماہی گیروں کا بڑھتا ہوا دخل اور وسائل کا بے تحاشہ استحصال ہے۔
سابقہ دور میں مچھلی کی زیادہ تر پروسیسنگ خشک کرنے اور نمک کے ذریعے کی جاتی تھی، جبکہ آج یہ زیادہ تر برآمد کے لیے منجمد کی جاتی ہے۔
اگرچہ برآمدات میں اضافہ ہوا ہے، مگرمقامی ماہی گیروں کی زندگی آج بھی سخت اور غربت سے دوچارہے۔
ماہی گیری کے وسائل پر غیر قانونی شکار کا دباؤ بڑھ رہا ہے، جس سے مقامی ماہی گیر غیر قانونی طریقے اپنانے پر مجبور ہیں۔
یہ ایک خطرناک رجحان ہے جو سمندری ماحولیاتی نظام اور ان کی اپنی زندگیوں کے لیے انتباہی سگنل دے رہا ہے۔
اس کے باوجود، کمیونٹی اپنی معیشت کا انحصار مکمل طور پر قدرتی وسائل پر کرتی ہے، اور کوئی متبادل صنعتیں جیسے ایکواکلچر یا میر کلچر قائم نہیں ہیں۔
یہ ہمسایہ ممالک ایران، بھارت، عمان اور بنگلہ دیش کے برعکس ہے، جہاں کامیاب ایکواکلچر ماڈلز نے ماہی گیری پر دباؤ کم کیا ہے۔
یہ ماڈلز بلوچستان کے لیے اپنائے جا سکتے ہیں تاکہ پائیدار ماہی گیری ممکن ہو اور مقامی آمدنی بڑھائی جا سکے۔
مزید برآں، ساحل کی زیادہ تر بڑی لینڈنگ سائٹس بنیادی انفراسٹرکچر جیسے مناسب لینڈنگ سہولیات اور کولڈ چین اسٹوریج سے محروم ہیں۔
یہ کمی ماہی گیروں کو اپنی پکڑی ہوئی مچھلی کو مؤثر طریقے سے محفوظ اور مارکیٹ کرنے سے روکتی ہے، جس سے ان کی اقتصادی صلاحیت محدودہوجاتی ہے۔
کریم جیسے مقامی ماہی گیر موجودہ قوانین کے تحت مزدور کے طور پر تسلیم نہیں کیے جاتی جس سے انہیں بنیادی مزدوری حقوق، سوشل پروٹیکشن، کم وقت کی سہولیات اور بڑھاپے کے فوائد حاصل نہیں ہیں۔
کریم ایک کمرے کے گھر میں سادہ زندگی گزارتے ہیں، اور اپنے خاندان کے لیے بہتر رہائش مہیا کرنے سے قاصر ہیں، حالانکہ ان کے بیٹے بڑے اور ماہر ہیں۔
اس عالمی ماہی گیری کے دن پر، کریم داد کی کہانی ایک طاقتور یاد دہانی ہے کہ بلوچستان کے مقامی ماہی گیروں کے مستقبل کو محفوظ بنانے کے لیے جامع ماہی گیرپالیسیوں، سماجی بہبود پروگرامز، اور پائیدار ترقیاتی اقدامات کی فوری ضرورت کا تقاضا کرتی ہیں۔
وہ لوگ جنہوں نے اپنی زندگیاں سمندر کے لیے وقف کی ہیں، لیکن اب بھی غیر معاون اور کمزور ہیں۔
نگو مان سیم، سابق صدر گوادر چیمبر آف کامرس کے مطابق “بلوچستان تازہ مچھلی پیدا کرتا ہے جو پائیدار ماہی گیری کے طریقوں سے پکڑی جاتی ہے، لیکن برآمدی ڈیٹا اور آمدنی سندھ میں درج کی جاتی ہے۔
یہ ساختی ناانصافی ہے جو ہماری مقامی معیشت کو اس کا جائز حصہ حاصل کرنے سے روکتی ہے۔
پاکستان کی کل سمندری ماہی گیری کی پیداوار اوسطاً 700,000–750,000 میٹرک ٹن سالانہ ہے، جس میں سے 400,000–450,000 میٹرک ٹن برآمد ہوتی ہے، جس سے تقریباً 450 ملین امریکی ڈالر سالانہ کی آمدنی حاصل ہوتی ہے۔
بلوچستان اس پیداوار کا 40 سے 45فیصدفراہم کرتا ہے، خاص طور پر تازہ مچھلی کے شعبے میں،لیکن پروسیسنگ، منجمد کرنے، پیک کرنے اور شپنگ کا بنیادی ڈھانچہ سندھ میں مرکوز ہے۔
نتیجتاً، صوبے کی اہم شراکت وفاقی اقتصادی اشارییمیں نظرانداز رہتی ہے۔
گزشتہ دو دہائیوں میں بلوچستان کے سمندری ماحولیاتی نظام میں نمایاں تبدیلی آئی ہے۔
سن2006 سے 2015 کے درمیان، انڈین میکرل ساحلی پکڑ کا 90فیصد حصہ بناتا تھا۔
آج کل، ماہی گیری زیادہ تر انڈین آئل سارڈین اور ٹاپ شیل پر مرکوز ہے، جو مجموعی پکڑ کا تقریباً 70فیصد بنتی ہے۔
انڈین میکرل اب صرف 10فیصد بنتی ہے، اور باقی حصہ ربن فش، ٹاپ شیل اور محدود مقدار میں جھینگے اور ریف انواع پر مشتمل ہے۔یہ تبدیلی بہتر ماہی گیری کی حکمت عملی یا صارف کی مانگ میں تبدیلی کو ظاہر نہیں کرتی بلکہ زیادہ شکار، ماحولیاتی عدم توازن، اور پہلے وافر موجود انواع کی کمی کی نشاندہی کرتی ہے۔
بلوچستان کے 770 کلومیٹر ساحل کے ساتھ 16,000 سے زائد رجسٹرڈ ماہی گیری کے بحری جہاز کام کر رہے ہیں، جن میں 80فیصد چھوٹے دستکاری جہاز ہیں۔
تاریخی طور پر یہ جہاز ہک اینڈ لائن، ہینڈ لائن، اور سلیکٹو گل نیٹ جیسے پائیدار طریقوں سے ماہی گیری کرتے تھے۔
لیکن پچھلے 20 سالوں میں، میکانائزیشن اور غیر محتاط شکار بڑھ گیا ہے خاص طور پر وائر نیٹ، سندھ کے جہازوں کی جانب سے ٹرالرنگ میں اضافہ، اور افزائش کے موسم میں ماہی گیری کی وجہ سے۔یہ نقصان دہ تکنیکیں، غیر قانونی شکار کرنے والے 2,000 سے زائد غیر مقامی جہازوں کے ساتھ مل کر، بلوچستان کی ماہی گیری کو بحران کی جانب دھکیل رہی ہیں۔
انڈین آئل سارڈین (مقامی نام لیجار یا لُوار) پر زیادہ انحصار، اور اب بیچم کی طرف شفٹ ایک خطرہ ہے۔
آئل سارڈین ایک حیاتیاتی طور پر پیداوار بخش نوع ہے جو سال میں تین بار افزائش کر سکتی ہے، لیکن سال بھر شکار، خاص طور پر پیداواری موسم میں، اس مضبوط نوع کو بھی خطرے میں ڈال رہا ہے۔
معظم خان، تکنیکی مشیر، ڈبلیو ڈبلیو ایف پاکستان کے مطابق
روایتی ہینڈ لائن ماہی گیری سے ربن فش، انڈین میکرل، ٹاپ شیل اور آئل سارڈین پکڑنے کی طرف سے صرف سارڈین پکڑنے کی طرف رجحان ایک قدرتی تبدیلی نہیں ہے۔
یہ زیادہ شکار اور پائیدار ماہی گیری کے زوال کی عکاسی کرتا ہے۔ یہ تبدیلی ہمارے سمندری ماحولیاتی نظام کے لیے انتباہ ہے اور فوری اقدامات کی ضرورت کو ظاہر کرتی ہے۔
ماہی گیر پورے مکران ساحل میں جون اور جولائی کے مہینے میں سیزنل مچھلی پر پابندی کی ضرورت پر زور دیتے ہیں، جب سارڈین اپنی افزائش کے عروج پر ہوتی ہیں۔
یونس انور، ماہی گیر نمائندہ، صورتحال کی شدت بتاتے ہوئے کہتے ہیں کہ “ہمارے پاس اب پہلے سے زیادہ جہاز ہیں، لیکن پکڑ کم ہو رہی ہے۔ ہم صرف زندہ رہنے کے لیے نابالغ مچھلی پکڑ رہے ہیں۔ یہ شکار نہیں، یہ سست رفتاری سے نسل کشی ہے”۔
ایف اے او کی پاکستان میں فشریز ریسورس اپریزَل رپورٹ (ایف آر اے پی) کے مطابق، پاکستان کی سمندری ماہی گیری ”انتہائی پیداواری ہے، لیکن زیادہ شکار شدہ اور سائنسی طور پر منظم نہیں ”۔
رپورٹ میں انتباہ کیا گیا کہ شکار کے دباؤ کو کم کیے بغیر طویل مدتی پائیداری ممکن نہیں، اور شکار کے دباؤ کو 50فیصد کم کرنے سے وسائل کی اقتصادی قدر دوگنی ہو سکتی ہے۔
تاریخی طور پر، بلوچستان کی ماہی گیر کمیونٹیز نے چٹانی اور آف شور علاقوں کے ارد گرد منتخب، کم اثر رکھنے والی تکنیکوں سے صحتمند ذخائر برقرار رکھے۔ لیکن وائر نیٹ اور صنعتی ٹرالرنگ کے بڑھتے ہوئے دباؤ کے سبب بنیادی بینتھک مسکن اور مرجان کی بستیاں تباہ ہو گئیں۔
مقامی ماہی گیر نئے علاقوں میں شفٹ کرنے پر مجبور ہوئے، جہاں وہ بھی وسائل کو ختم کرنے لگے۔
بلوچستان فشریز ڈپارٹمنٹ، ڈبلویو ڈبلیو ایف،آئی یو سی این، اور بین الاقوامی این جی اوز کی کوششوں سے بعد از شکار نقصانات میں کمی آئی ہے۔
حفظان صحت کی تربیت، پلاسٹک کریٹس، انسولیٹڈ آئس باکس، اور ٹھنڈی نقل و حمل کے ذریعے خراب ہونے کی شرح کافی حد تک کم ہوئی ہے۔
شریف بلوچ،پسنی کے ایک ماہی گیر کے مطابق “پہلے ہم اپنی پکڑی ہوئی مچھلی کا بڑا حصہ مارکیٹ تک پہنچنے سے پہلے کھو دیتے تھے۔ اب کریٹس اور آئس کے ساتھ، حتیٰ کہ ربن فش بھی بہتر قیمت پر فروخت ہو جاتی ہے۔ یہ چھوٹے اقدامات ہماری روزی روٹی بچا رہے ہیں”۔”
تاہم، بلوچستان میں اب بھی پروسیسنگ اور برآمد کی سہولیات موجود نہیں ہیں۔ زیادہ تر مچھلی کراچی پہنچائی جاتی ہے، جہاں کمپنیاں جیسے ایم اینڈ این سی فوڈزاسے ویلیو ایڈڈ مصنوعات میں بدلتی ہیں۔
مس سامی گل، خواتین ماہی گیر نمائندہ، کہتی ہیں کے “ہمیں بلوچستان میں خواتین کی قیادت میں کمیونٹی بیسڈ پروسیسنگ یونٹس کی ضرورت ہے۔ ہمارے پاس خام مواد اور مہارت موجود ہے، بس انفراسٹرکچر تک رسائی نہیں۔
ایم اینڈ این سی فوڈز”کے 700 گرام کے برآمد کے لیے تیار منجمد یونٹس جیسے کامیاب ماڈلز پسنی، اورمارا، اور جیوانی میں کمیونٹی کوآپریٹو کے ذریعے دہرائے جا سکتے ہیں۔
بلوچستان کی ماہی گیری اور قومی غذائی تحفظ کو بچانے کے لیے درج ذیل اقدامات ناگزیر ہیں۔
سارڈین کے افزائش کے موسم جون–جولائی میں لازمی سیزنل پابندی نافذ کریں،نقصان دہ ٹرالرنگ اور وائر نیٹس پر پابندی،غیر قانونی جہازوں کے خلاف نگرانی مضبوط کریں،کولڈ چین اور مقامی پروسیسنگ میں سرمایہ کاری کریں۔
بلوچستان کی پکڑی ہوئی مچھلی کو قومی اعداد و شمار میں تسلیم کریں،خواتین کی قیادت میں کمیونٹی بیسڈ کوآپریٹو قائم کریں،وفاقی اور صوبائی سطح پر منصفانہ ریونیو شیئرنگ کے طریقے وضع کریں۔
یہ بھی پڑھیں
کسانوں اور ماہی گیروں کا 99 ارب ڈالرز کا نقصان
غیر کنٹرول شدہ ماہی گیر بیڑا :پاکستان کے سمندری وسائل کے لیے بڑھتا ہوا خطرہ
ماحولیاتی تحفظ کی فرنٹ لائن: کیٹی بندر کے مینگروو اور مقامی مچھیروں کی زندگی
پاکستان کی سمندری ماہی گیری کا مستقبل بلوچستان کے ساحل کی تقدیر سے جدا نہیں۔ فوری اقدامات کے بغیر، سارڈین ماہی گیری کے بحران سے اقتصادی نقصانات، حیاتیاتی تنوع میں کمی، اور غذائی تحفظ کے خطرات پیدا ہوں گے۔
تاہم بروقت اصلاحات کے ساتھ، بلوچستان پائیدار ماہی گیری، ویلیو ایڈڈ پیداوار، اور بااختیار ساحلی کمیونٹیز کے لیے ایک قومی ماڈل بن سکتا ہے۔
پاکستان میں پانی کے بحران کی وجوہات میں آبادی میں اضافہ، ذخائر کی کمی اور…
جنوری سے نومبر 2025 تک عالمی درجہ حرارت صنعتی دور سے پہلے کے مقابلے میں…
مٹی کا عالمی دن زمین کی صحت، آلودگی کے خطرات اور زرخیزی میں کمی کی…
پاکستان پانی کے محاصرے میں ہے۔بھارت کی دھمکیاں، افغان اپ اسٹریم سرگرمی اور اندرونی بدانتظامی…
ماحول کے تحفظ، فضائی آلودگی میں کمی اور اسموگ جیسے مسائل سے نمٹنے کیلئے میڈیا…
کراچی انفراسٹرکچر بحران،کھلے مین ہولز اور ناکارہ نکاسیِ آب بچوں کی زندگیاں خطرے میں ڈال…
This website uses cookies.