فروزاں

کراچی کی تاریخی عمارتوں کا تحفظ

کراچی کی تاریخی عمارتوں کا تحفظ، زبوں حال قدیم عمارتیں اور ثقافتی ورثے کو بچانے کیلئے مؤثر اقدامات وقت کی اہم ضرورت ہے۔

کراچی میں پرانی عمارتوں کی شان و شوکت ہمیشہ دل کو لبھاتی ہے، شہرکی پرانی عمارتیں اور کھنڈرات اس تہذیب کی نشاندہی کرتے ہیں جو اس دور کا طرہ امتیاز تھی۔

تہذیب جب زوال پزیر ہو تو تاریخ کا حصہ بن جاتی ہے۔ اسی لیے تاریخ میں ایسے شہروں کا ذکر ہے کہ جن کے عکس ان کے ماضی کی شان و شوکت بیان کرتے نظر آتے ہیں، اور ان کے ویرانوں میں ماضی کے سائے حرکت کرنے اور ماحول کو پراسرار بناتے ہوئے تخیلات کو کہیں سے کہیں پہنچاتے ہیں، لیکن تمام شہر اپنی تہذیبوں کیساتھ گمنامی میں نہیں چلے جاتے۔

ریسرچر سراج بھاگت کے مطابق، کراچی کا شمار بھی ان تاریخی شہروں میں ہوتا ہے جو اپنے ماضی سے جڑے ہوئے ہیں، اس شہر میں عظمت رفتہ کی داستانیں ان تاریخی عمارتوں میں نظر آتی ہیں، جنہیں زمانے نے ویران کھنڈرات میں تبدیل کر دیا ہے۔

کراچی کا شمار دنیا کے چند سب سے بڑے شہروں میں ہوتا ہے، پاکستان کی سب سے بڑی بندرگاہ اور ہوائی اڈہ بھی کراچی میں قائم ہے، کراچی 1947ء سے 1960ء تک پاکستان کا دارالحکومت بھی رہا۔

انگریزوں نے اٹھارویں صدی میں اس شہر کی تعمیر و ترقی کی بنیادیں ڈالیں، 1959ء میں پاکستان کے دار الحکومت کی اسلام آباد منتقلی کے باوجود کراچی کی آبادی اور معیشت میں ترقی کی رفتار کم نہیں ہوئی، اکیسویں صدی میں تیز قومی معاشی ترقی کے ساتھ ساتھ کراچی کے حالات میں بہت تبدیلی آئی ہے۔

سن1947 میں شہر کی آبادی صرف چار لاکھ تھی، اپنی نئی حیثیت کی وجہ سے شہر کی آبادی میں کافی تیزی سے اضافہ ہوا اور شہر خطے کا ایک مرکز بن گیا۔

پاکستان کا دارالحکومت کراچی سے راولپنڈی اور پھر اسلام آباد منتقل تو ہوا لیکن کراچی اب بھی پاکستان کا سب سے بڑا شہر اور صنعتی و تجارتی مرکز ہے۔

کراچی کی شان وشوکت میں اس دور کی اکثر عمارتوں جن کا فن تعمیر کلاسیکی برطانوی نوآبادیاتی تھا کا بڑا کردارہے، جو کہ بر صغیر کے اکثر شہروں سے مختلف ہیں ان میں سے اکثر عمارتیں اب بھی موجود ہیں۔

صدر، کنٹونمنٹ، کلفٹن، بندر روڈ پر پتھروں سے بنی خوبصورت عمارتوں کا بڑا حصہ ہے۔اس شہر کی تاریخی شان و شوکت کی گواہی دیتی یہ عمارتیں آج زبوں حالی اور ویرانی کی تصویر دکھائی دیتی ہیں۔

شہر میں بہت سی عمارتیں منہدم ہوکر نئے پلازے اور شاپنگ سینٹر میں تبدیل ہورہی ہیں،تاریخی آثار مٹ رہے ہیں۔

کراچی کی تاریخی عمارتوں کا تحفظ — شہر کے قدیم ورثے کی بحالی کی فوری ضرورت

ریڈیو پاکستان کی تاریخی عمارت سے لے کر ٹاور تک کی سڑک جو کبھی بندر روڈ کہلاتی تھی (جسے بعد میں محمد علی جناح کے نام سے منسوب کیا گیا) پر ایسی کئی عمارتیں تھیں جنہیں وقت کی دیمک تو کھوکھلا نہیں کرسکی لیکن تخریب کاری، پیسے کی ہوس اور دیکھ بھال نہ ہونے کی وجہ سے تباہی اور برباد ی کے دہانے پر پہونچ چکی ہیں۔

مشہور گانا بندر روڈ سے کیماڑی میری چلی رہے گھوڑا گاڑی میں ان عمارتوں کا خوبصورت انداز میں تعارف کرایا گیا تھا۔کبھی اس مصروف ترین سڑک پر ٹرامیں چلتیں تھیں اور زندگی انتہائی پرسکون گزرتی تھی، لیکن بدلتے حالات نے کراچی کے حسن کو گہنا دیا ہے.

دھواں، دھول، کچرے کے ڈھیر اور ٹریفک کے ہجوم میں شہر کا پرانا حصہ گھٹن کا شکار ہے اور آہستہ آہستہ اپنا وجود ختم کرتا جا رہا ہے۔

اسکے علاوہ اٹھارہ سو تینتالس 1843میں بندر روڈ بنایا گیا تو اس کے بعد قدیم شہر بڑھنا شروع ہوا اور اس علاقے کا نام مارکیٹ کوارٹر رکھا گیا، اس علاقے میں جو عمارتیں ہیں وہ شہر کی سب سے قدیم عمارتیں ہیں ان کی اپنی ایک شناخت اور تاریخ ہے۔

حکومت سندھ نے ان تایخی عمارات کی دیکھ بھال کے لیے ایک بورڈ آف مینجمنٹ تشکیل دیا ہے، جس کے تحت 1061/ نجی اور سرکاری عمارتوں کو قومی ورثہ قرار دے دیا ہے، محکمہ ثقافت نے جو فہرست جاری کی ہے اس میں کراچی جیم خانہ، عائشہ باوانی اسکول، میٹروپول ہوٹل، پرل کانٹی نیٹل ہوٹل، بمبئی ہوٹل (کینٹ اسٹیشن)، پی آئی ڈی سی ہاؤس، کیپری سنیما، پرنس سنیما، نشاط سنیما، سیفی ہوٹل، نگار سنیما، الفا ریسٹورنٹ، لوٹیا بلڈنگ، جاگیردار ہوٹل، مینی والا اسکول، سیونتھ ڈے اسپتال، ہولی فیملی اسپتال، ایف ٹی سی ہال شارع فیصل، سندھ میڈیکل کالج، جناح اسپتال، ہاکی کلب، بلوچ آفیسرز میس، فوارہ چوک (گورنر ہاؤس)، تین تلوار (کلفٹن) اور دیگر اہم اور قیمتی عمارتیں شامل ہیں۔

سندھ حکومت کی کلچر ڈیپارٹمنٹ رولز آف بزنس مجریہ 1986کے مطابق کلچر ڈیپارٹمنٹ اس بات کا ذمہ دار ہے کہ وہ ثقافتی ورثے کی عمارتوں کا تحفظ اور نگہداشت کرے ۔

جہاں تک ثقافتی ورثے کی عمارتوں کو فہرست میں رکھنے اور نکالنے کی بات ہے تو یہ سندھ ثقافتی ورثہ (تحفظ) ایکٹ مجریہ 1994ء کی دفعہ 3 کے تحت ہے اور اس سلسلے میں حکومت سندھ میں ایک مشاورتی کمیٹی تشکیل دی جاچکی ہے، مشاورتی کمیٹی حمید ہارون، ڈاکٹرکلیم اللہ لاشاری، عارف حسین آرکیٹیکٹ اور مس انیلہ نعیم آرکیٹیکٹ پر مشتمل ہے۔

حکومت سندھ کے اعلامیے میں اس بات کی بھی وضاحت کی گئی ہے کہ نوٹیفکیشن کی اشاعت کے بعد ایک ماہ تک 1061 عمارتوں کے مالکان،کسٹوڈین اور عام پبلک اپنے اعتراضات حتمی فیصلے سے پہلے کلچر ڈیپارٹمنٹ میں داخل کراسکتے ہیں۔

لیکن یہ سارا عمل صرف کاغذی کاروائی تک محدود دکھائی دیتا ہے، ذکر کردہ مذکورہ عمارتیں جنہیں قومی ورثہ قرار دیا چکا ہے ان میں سے اکثر زبوں حالی کا شکار ہیں اور کوئی حکومتی سرپرستی نظر نہیں آتی۔

کراچی کی تاریخی عمارتوں کا تحفظ — شہر کے قدیم ورثے کی بحالی کی فوری ضرورت

کراچی میں بہت سی پرانی اور تاریخی عمارات خطرناک بھی ہوگئی ہیں۔ مدت سے ان کی دیکھ بھال نہ ہونے کے برابر ہے، تجاوزات نے بھی انھیں تباہی سے دوچار کیا ہے۔

سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کی ٹیکنیکل کمیٹی برائے خطرناک عمارات نے ایک سروے رپورٹ جاری کی تھی، جس میں شہر کی مختلف قدیم اور مخدوش عمارتوں کو خطرناک قرار دیا تھا،سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی (ایس بی سی اے) کی ٹیکنیکل کمیٹی نے جن 157 عمارتوں کو خطرناک قرار دیا تھا۔ ان میں ’’محفوظ ورثہ‘‘ کی 22 عمارتیں بھی شامل ہیں۔

یہ اک لمحہ فکریہ ہے کے عمارتوں کو قومی ورثہ بھی قرار دیا جاچکا ہیں لیکن ان کی نگہبانی یا مرمت نہیں کی جا رہی۔

یہ بھی پڑھیں

ماحولیاتی تحفظ کی فرنٹ لائن: کیٹی بندر کے مینگروو اور مقامی مچھیروں کی زندگی

کیا کوپ 30 ناکام ہوا؟

بلوچستان میں موسمیاتی تبدیلیوں کے خلاف اٹھتی آوازیں

دنیا بھر میں ثقافتی ورثے کومحفوظ بنانے پرخاطر خواہ توجہ دی جاتی ہے، بدقسمتی سے ہمارے ہاں تباہی کا سب سے زیادہ نشانہ ثقافتی ورثے کو بنایا گیا ہے۔

تاہم اس کے بر عکس لاہور میں ثقافتی ورثے کو کسی حد تک محفوظ کیا گیا ہے۔ ’’والڈ سٹی آف لاہور” کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا گیا ہے جو ثقافتی ورثے کی دیکھ بھال سمیت سیاحتی سرگرمیوں کے لیئے کوشاں دکھائی دیتا ہے۔

اس طرز پر کراچی میں بھی ایک ایسا ادارہ فوری طور پر قائم کرنے کی ضرورت ہے جو اس بَچے کُچے ثقافتی ورثے کو آئندہ نسلوں کے لیے محفوظ بنا سکے۔

کراچی کی تاریخی عمارتوں کا تحفظ — شہر کے قدیم ورثے کی بحالی کی فوری ضرورت
admin

Recent Posts

گلگت بلتستان میں دو ہفتوں کے دوران مارخور کے غیر قانونی شکار کا دوسرا واقعہ

گلگت بلتستان میں مارخور کا غیر قانونی شکار دو ہفتوں میں دوسرا واقعہ، جنگلی حیات…

12 hours ago

شہر اور کوپ30: آب و ہوا کی جنگ کا نیا دور

دنیا موسمیاتی بحران کا مقابلہ نہیں کر سکتی جب تک شہر، میئرز اور مقامی اداروں…

13 hours ago

کسانوں اور ماہی گیروں کا 99 ارب ڈالرز کا نقصان

قدرتی آفات کے باعث کسانوں اور ماہی گیروں کا 99 ارب ڈالرز کا سالانہ نقصان…

1 day ago

دنیا کی بڑھتی شہری توسیع اور کراچی

عالمی شہری توسیع تیزی سے بڑھ رہی ہے اور کراچی موسمیاتی خطرات، آبادی دباؤ، شہری…

3 days ago

ہنزہ ہینگنگ گلیشیر خطرے کی زد میں

ہنزہ کا ہینگنگ گلیشیر موسمیاتی تبدیلی، آلودگی اور برفانی تودوں کے بڑھتے واقعات سے خطرے…

3 days ago

کیا کوپ 30 ناکام ہوا؟

کیا کوپ 30 ناکام ہوا؟رپورٹ میں جانیں کہ فوسل فیول فیصلوں کی کمی، لاس اینڈ…

1 week ago

This website uses cookies.