روبینہ یاسمین
دنیا اس وقت جس ماحولیاتی و موسمیاتی بحران کے دوراہے پر کھڑی ہے، وہ انسانی تاریخ میں شاید پہلے کبھی اتنا سنگین نہ تھا۔ موسمیاتی تبدیلی، شدید گرمی کی لہریں، سیلاب، خشک سالی، حیاتیاتی تنوع کا خاتمہ اور آلودگی اب محض مستقبل کے خدشات نہیں بلکہ حال کی تلخ حقیقت بن چکے ہیں۔
اسی عالمی پس منظر میں اقوامِ متحدہ کی ساتویں ماحولیاتی اسمبلی (یو این ای اے-7) کا انعقاد دسمبر 2025 میں نیروبی، کینیا میں ہوا، جسے ماحولیاتی پالیسی سازی کے حوالے سے ایک فیصلہ کن اجلاس قرار دیا جا رہا ہے۔
یہ اسمبلی اقوامِ متحدہ کے ماحولیاتی پروگرام (یو این ای پی) کا اعلیٰ ترین فورم ہے، جہاں دنیا بھر کے ممالک مشترکہ ماحولیاتی حکمتِ عملی، قوانین اور اہداف طے کرتے ہیں۔
اسمبلی کا مرکزی عنوان تھا”Advancing Sustainable Solutions for a Resilient Planet“”ایک مضبوط اور پائیدار زمین کے لیے قابلِ عمل حل“۔
اس اجلاس میں 186 سے زائد ممالک کے وزرائے ماحولیات، اعلیٰ حکومتی نمائندے، ماہرین ماحولیات، نوجوان، سول سوسائٹی اور بین الاقوامی اداروں نے شرکت کی۔
اس اجلاس میں 186 سے زائد ممالک کے وزرائے ماحولیات، اعلیٰ حکومتی نمائندے، ماہرین ماحولیات، نوجوان، سول سوسائٹی اور بین الاقوامی اداروں نے شرکت کی۔
یہ اجتماع ایسے وقت میں ہوا جب عالمی درجہ حرارت صنعتی دور سے پہلے کی سطح کے مقابلے میں خطرناک حد تک بڑھ چکا ہے اور ترقی پذیر ممالک موسمیاتی آفات کی براہِ راست زد میں ہیں۔
کانفرنس کا سب سے اہم نتیجہ وزارتی اعلامیہ (منسٹریریل ڈکلریشن) کی منظوری تھا۔ یہ اعلامیہ دراصل عالمی برادری کی جانب سے ماحولیاتی بحران کے اعتراف اور مشترکہ عزم کا اظہار ہے۔
اس اعلامیے میں واضح طور پر تسلیم کیا گیا کہ موسمیاتی تبدیلی، حیاتیاتی تنوع کا نقصان اور آلودگی تین باہم جڑے ہوئے عالمی بحران ہیں لیکن اس حوالے سے موجودہ عالمی اقدامات ناکافی ہیں اور ترقی پذیر ممالک ماحولیاتی تباہی کا سب سے زیادہ بوجھ اٹھا رہے ہیں۔
اعلامیے میں زور دیا گیا کہ فوسل فیول پر انحصار کم کرنے کے لیے واضح اور منصفانہ روڈ میپ بنایا جائے، قابلِ تجدید توانائی، سرکلر اکانومی اور نیچر بیسڈ سلوشنز کو فروغ دیا جائے۔
ترقی پذیر ممالک کے لیے ماحولیاتی فنانس اور ٹیکنالوجی ٹرانسفر کو عملی شکل دی جائے، مقامی اور دیسی علم کو عالمی پالیسی سازی کا حصہ بنایا جائے، نوجوانوں اور متاثرہ کمیونٹیز کو فیصلہ سازی میں شامل کیا جائے۔
یہ اعلامیہ اس بات کا اعتراف ہے کہ ماحولیاتی بحران اب صرف ماحول کا نہیں بلکہ معاشی استحکام، انسانی صحت اور سماجی انصاف کا مسئلہ بھی بن چکا ہے۔
کانفرنس کے دوران گلوبل اینوائرمینٹ آؤٹ لک (جیو-7) رپورٹ بھی جاری کی گئی، جو اقوامِ متحدہ کی سب سے مستند ماحولیاتی تشخیصی رپورٹ ہے۔
رپورٹ کے مطابق دنیا ماحولیاتی بگاڑ کے ایک خطرناک موڑ پر پہنچ چکی ہے،اگر موجودہ پالیسیاں برقرار رہیں تو 2050 تک ماحولیاتی نقصان ناقابلِ واپسی ہو سکتا ہے،شدید موسمی واقعات اب استثنا نہیں بلکہ معمول بنتے جا رہے ہیں۔
رپورٹ خبردار کرتی ہے کہ جنگلات، دریا، سمندر اور زمینی نظام اپنی بحالی کی صلاحیت کھو رہے ہیں،آلودگی ہر سال لاکھوں قبل از وقت اموات کا سبب بن رہی ہے،خوراک، پانی اور توانائی کے موجودہ نظام غیر پائیدار ہیں۔
کیا دنیا کے پاس ابھی بھی وقت ہے؟ رپورٹ واضح کرتی ہے کہ اگر بروقت فیصلے کیے جائیں تو تباہی کو روکا جا سکتا ہے۔
اہم سفارشات میں توانائی کے شعبے میں فوری منتقلی (رینیو ایبل ٹرانزیشن)، زرعی اصلاحات اور پانی کے بہتر انتظام، سرکلر اکانومی اور وسائل کے کفایتی استعمال،ماحولیاتی سرمایہ کاری کو قومی ترقی کا مرکز بنانا شامل ہے۔
رپورٹ کے مطابق ماحولیاتی تحفظ معاشی بوجھ نہیں بلکہ طویل المدتی فائدہ ہے۔
پاکستان اُن ممالک میں شامل ہے جو عالمی گرین ہاؤس گیسز کے اخراج میں معمولی کردار رکھتے ہیں، مگر موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سب سے زیادہ بھگت رہے ہیں۔
سن2022 کے تباہ کن سیلاب، مسلسل ہیٹ ویوز، پانی کی قلت اور گلیشیئرز کا تیز رفتار پگھلاؤ اس کی واضح مثالیں ہیں۔
کانفرنس کا اعلامیہ ماحولیاتی انصاف کے مؤقف کو تقویت دیتا ہے، جو پاکستان کے لیے سفارتی طور پر اہم ہے۔
موسمیاتی فنانس اور لاس اینڈ ڈیمج فنڈ تک رسائی کے لیے عالمی دباؤ بڑھانے کا موقع فراہم کرتا ہے،قومی سطح پر موسمیاتی پالیسی، پانی اور شہری منصوبہ بندی کو ہم آہنگ کرنے کی ضرورت اجاگر کرتا ہے۔
پاکستان کے لیے یہ اجلاس ایک یاد دہانی ہے کہ ماحولیاتی پالیسی کو ثانوی مسئلہ نہیں بلکہ قومی سلامتی کے تناظر میں دیکھنا ہوگا۔
اقوامِ متحدہ کی ساتویں ماحولیاتی اسمبلی نے یہ واضح پیغام دیا ہے کہ دنیا کے پاس اب مزید وقت نہیں۔ وزارتی اعلامیہ اور جیو-7 رپورٹ امید بھی دیتی ہیں اور خبردار بھی کرتی ہیں۔
یہ بھی پڑھیں
ماحولیاتی کارکنوں کا قتل کیوں ہو رہا ہے؟
ورٹیکل فارمنگ: پاکستان کے شہروں میں سبز انقلاب
اگر یہ وعدے عملی اقدامات میں نہ بدلے تو ماحولیاتی بحران مزید گہرا ہو جائے گا۔ مگر اگر عالمی برادری، خصوصاً ترقی یافتہ ممالک، اپنی ذمہ داریاں قبول کریں تو اب بھی زمین، انسان اور فطرت کے درمیان بگڑتا توازن بحال کیا جا سکتا ہے۔
اقوام متحدہ کی ساتویں ماحولیاتی اسمبلی دراصل ایک سوال چھوڑ کر گئی ہے۔کیا دنیا اس بار سنجیدگی دکھائے گی، یا آنے والی نسلیں بھی قیمت ادا کریں گی؟
ورٹیکل فارمنگ پاکستان میں شہری فوڈ سیکیورٹی، کم پانی اور کم زمین میں زیادہ پیداوار…
ماحولیاتی کارکنوں کا قتل ہونے کی بنیادی وجوہات کارپوریٹ مفادات، زمین پر قبضے اور قدرتی…
گلوبل اینوائرمنٹ آؤٹ لک رپورٹ خبردار کرتی ہے کہ صنعتی ترقی، آلودگی اور قدرتی وسائل…
موسمیاتی تبدیلی 2025 میں دنیا شدید بحران کا شکار ہے، وجہ بڑھتا کاربن اخراج، گرم…
پاکستان کے پہاڑ اور موسمیاتی تبدیلی ایک سنگین بحران بن چکے ہیں، جہاں عالمی درجہ…
سری لنکا ٹورزم روڈ شوکراچی2025 میں سیاحت، کاروبار اورایم آئی سی ایٹورزم میں نئی شراکت…
This website uses cookies.