موسمیاتی تبدیلی 2025 میں دنیا شدید بحران کا شکار ہے، وجہ بڑھتا کاربن اخراج، گرم سمندر اور عالمی وعدوں پر عملدرآمد کی ناکامی ہے۔
فروزاں رپورٹ
دنیا اس وقت موسمیاتی تبدیلی کے ایک ایسے مرحلے میں داخل ہو چکی ہے جہاں سائنس دانوں کی وارننگز اب خبری سرخیوں میں بدل چکی ہیں۔
عالمی میڈیا، سائنسی ادارے اور اقوامِ متحدہ مسلسل اس بات پر متفق نظر آتے ہیں کہ سال 2025 انسانی تاریخ کے گرم ترین برسوں میں شامل ہونے جا رہا ہے، اور امکان ہے کہ یہ دوسرا یا تیسرا سب سے زیادہ گرم سال ثابت ہو۔

یہ محض ایک عددی حقیقت نہیں بلکہ ایک ایسا اشارہ ہے جو مستقبل کے لیے شدید خطرات کی گھنٹی بجا رہا ہے۔
ڈگری 1.5کی سرخ لکیر اور انسانیت کا امتحان
پیرس ماحولیاتی معاہدے کے تحت دنیا نے یہ عہد کیا تھا کہ عالمی درجہ حرارت کو صنعتی دور سے پہلے کی سطح کے مقابلے میں 1.5 ڈگری سینٹی گریڈ سے زیادہ نہیں بڑھنے دیا جائے گا۔ تاہم تازہ ترین سائنسی ڈیٹا بتاتا ہے کہ دنیا اس حد کے انتہائی قریب پہنچ چکی ہے، بلکہ بعض مہینوں میں یہ حد عارضی طور پر عبور بھی ہو چکی ہے۔
ماہرینِ موسمیات کے مطابق یہ صورتحال اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ عالمی سطح پر کیے گئے وعدے عملی اقدامات میں تبدیل نہیں ہو سکے۔
کاربن کے اخراج میں کمی، قابلِ تجدید توانائی کا فروغ اور ماحولیاتی انصاف جیسے موضوعات اب محض پالیسی بیانات نہیں رہے بلکہ انسانی بقا سے جُڑ چکے ہیں۔
گرم ہوتے سمندر، بپھرتا موسم
عالمی میڈیا میں ایک اور بڑی اسٹوری سمندروں کے درجہ حرارت میں غیر معمولی اضافے سے متعلق ہے۔
سائنسی تحقیقات نے واضح کیا ہے کہ دنیا کے سمندر ریکارڈ حد تک گرم ہو چکے ہیں، جس کا براہِ راست اثر بارشوں، طوفانوں اور سیلابوں پر پڑ رہا ہے۔
ایشیا کے کئی ممالک جن میں سری لنکا، انڈونیشیا، تھائی لینڈ، ملائیشیا اور ویت نام شامل ہیں حالیہ مہینوں میں شدید بارشوں اور جان لیوا سیلابوں کا سامنا کر چکے ہیں۔
سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ اگر سمندر اس حد تک گرم نہ ہوتے تو یہ موسمی واقعات اتنے شدید نہ ہوتے۔ یوں یہ قدرتی آفات نہیں بلکہ انسانی سرگرمیوں کا نتیجہ بن چکی ہیں۔
یورپی یونین کا سخت فیصلہ: امید کی ایک
اسی پس منظر میں یورپی یونین کی جانب سے ایک تاریخی اعلان بھی عالمی میڈیا کی توجہ کا مرکز بنا۔ یورپی یونین نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ 2040 تک 1990 کی سطح کے مقابلے میں گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں 90 فیصد کمی کرے گی۔
یہ ہدف دنیا کے دیگر ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک کے لیے ایک واضح پیغام ہے کہ موسمیاتی بحران کے مقابلے میں آدھے اقدامات کافی نہیں۔

ماہرین کے مطابق اگرچہ یہ فیصلہ قابلِ ستائش ہے، مگر اصل سوال یہ ہے کہ کیا باقی دنیا بھی اس رفتار سے چلنے کو تیار ہے؟
اقوامِ متحدہ کی وارننگ: اب وقت کم ہے
اقوامِ متحدہ کے ماحولیاتی پروگرام (یو این ای پی) کی حالیہ رپورٹ بھی عالمی میڈیا میں نمایاں رہی، جس میں خبردار کیا گیا ہے کہ اگر موجودہ رفتار برقرار رہی تو دنیا اس دہائی کے اختتام سے پہلے 1.5 ڈگری کا ہدف مستقل طور پر عبور کر سکتی ہے۔
اس کے اثرات محض درجہ حرارت تک محدود نہیں ہوں گے بلکہ خوراک کی قلت،پانی کے شدید بحران،ساحلی علاقوں کا زیرِ آب آنا،انسانی نقل مکانی (کلائمٹ مائیگریشن)،جیسے مسائل شدت اختیار کر جائیں گے۔

پاکستان اور ترقی پذیر دنیا کے لیے سبق
اگرچہ یہ خبریں بظاہر عالمی تناظر میں ہیں، مگر پاکستان جیسے ممالک ان کے اثرات سب سے پہلے اور سب سے زیادہ بھگت رہے ہیں۔
شدید گرمی کی لہریں، غیر متوقع بارشیں، سیلاب، گلیشیئرز کا تیزی سے پگھلنا اور شہری انفرا اسٹرکچر کی ناکامی یہ سب موسمیاتی بحران کے مقامی مظاہر ہیں۔
پاکستان کا کردار عالمی اخراج میں نہایت کم ہونے کے باوجود نقصان بہت زیادہ ہے، جو ماحولیاتی ناانصافی (کلائمٹ جسٹس) کی ایک واضح مثال ہے۔
یہ بھی پڑھیں
پاکستان کے پہاڑ پگھل گئے تومستقبل کیا ہوگا؟
سوال صرف ماحول کا نہیں، بقا کا ہے
عالمی میڈیا میں زیرِ بحث یہ موسمیاتی اسٹوریز دراصل ایک مشترکہ پیغام دیتی ہیں کہ یہ بحران مستقبل کا نہیں، حال کا مسئلہ ہے۔اب سوال یہ نہیں رہا کہ موسمیاتی تبدیلی ہو رہی ہے یا نہیں، بلکہ اصل سوال یہ ہے کہ
دنیا کتنی تیزی سے ردِعمل دیتی ہے؟کیا طاقتور معیشتیں اپنی ذمہ داری قبول کرتی ہیں؟اور کیا ہم اجتماعی طور پر اپنے طرزِ زندگی پر نظرِ ثانی کے لیے تیار ہیں؟
اگر جواب نفی میں ہے تو آنے والی سرخیاں مزید گرم برسوں، مزید تباہ کن آفات اور مزید انسانی المیوں پر مشتمل ہوں گی۔
