فروزاں فروزاں کے مضامین

پاکستان کے پہاڑ پگھل گئے تومستقبل کیا ہوگا؟

پاکستان کے پہاڑ اور موسمیاتی تبدیلی کے باعث پگھلتے گلیشیئرز، پانی اور مستقبل کو لاحق خطرات

پاکستان کے پہاڑ اور موسمیاتی تبدیلی ایک سنگین بحران بن چکے ہیں، جہاں عالمی درجہ حرارت، کاربن اخراج اور بے ہنگم سیاحت گلیشیئرز پگھلا رہی ہے۔

پاکستان کے پہاڑ اور موسمیاتی تبدیلی کے باعث پگھلتے گلیشیئرز، پانی اور مستقبل کو لاحق خطرات

دنیا بھر میں ہر سال 11 دسمبر کو ”پہاڑوں کا عالمی دن“ اس عہد کے ساتھ منایا جاتا ہے کہ انسان، معیشت اور ماحول کے لیے ناگزیر پہاڑی نظام کو محفوظ رکھا جائے۔ پہاڑ زمین کے قدرتی محافظ ہیں،ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ پہاڑ صرف بلند چٹانیں نہیں بلکہ زندگی کے ضامن ہیں۔

انکی اہمیت و افادیت اپنی جگہ ایک مسلّمہ حقیقت ہے مگر آج وہ دنیا کے تیزی سے بدلتے ہوئے موسم اور بڑھتے ہوئے عالمی درجہ حرارت کے سامنے کمزور پڑ رہے ہیں۔

پاکستان کے پہاڑ اور موسمیاتی تبدیلی کے باعث پگھلتے گلیشیئرز، پانی اور مستقبل کو لاحق خطرات
موسمیاتی تبدیلی پاکستان کے پہاڑوں اور گلیشیئرز کو تیزی سے پگھلا رہی ہے، جس سے پانی، زراعت اور آبادیاں خطرے میں ہیں۔

پانی کا عالمی ذخیرہ گلیشیئرز کا ایک حیاتیاتی معجزہ

دنیا کے بڑے دریاؤں کا آغاز پہاڑوں ہی سے ہوتا ہے۔ہمالیہ، ہندوکش، قراقرم، اینڈیز، راکی ماؤنٹینز اور الپس دنیا کے پانی کے نظاممیں ریڑھ کی ہڈی ہیں۔

اقوامِ متحدہ کے مطابق دنیا کی آبادی کا 50 فیصد بالواسطہ یا بلاواسطہ پہاڑی پانی پر انحصار کرتا ہے جب کہ دنیا کے 60 سے 70 فیصد میٹھے پانی کا ماخذ پہاڑی برف اور گلیشیئرز ہیں۔

اس حوالے سے پاکستان کے لیے صورتِ حال اس لئے بھی اہم ہے کیونکہ ہمارے دریاؤں سندھ، کابل، جہلم اور چناب کا تقریباً 80 فیصد پانی ان ہی پہاڑوں سے آتا ہے۔

آئندہ دہائیوں میں یہی پانی فیصلہ کرے گا کہ ہمارے شہر، زراعت اور صنعت کتنی دیر تک پائیدار رہ سکتے ہیں۔

حیاتیاتی تنوع کا عظیم مرکز

کرۂ ارض پر موجود پہاڑی خطے دنیا کے 25 فیصد پودوں اور جانوروں کا قدرتی گھر ہیں۔پاکستان کے شمال میں پائے جانے والے برفانی تیندوے، مارخور، ریچھ، نایاب جڑی بوٹیاں، اور پرندوں کی درجنوں اقسام اسی تنوع کی علامت ہیں۔

یہ حیاتیاتی خزانہ نہ صرف ادویات، خوراک اور سائنس کے لیے اہم ہے بلکہ پہاڑوں کی ماحولیاتی صحت کو بھی قائم رکھتا ہے۔

پہاڑ اور عالمی موسموں کا توازن

پہاڑ بادلوں کے سفر، بارش کے نظام، درجہ حرارت اور ہوا کے بہاؤ کو کنٹرول کرتے ہیں۔یہ ایک قدرتی فلٹر اور بفر کی حیثیت رکھتے ہیں جو زمین کو بے قابو موسمی شدت سے بچاتے ہیں۔

اگر پہاڑ نہ ہوں تو دنیا کا موسم غیر متوازن، ناہموار اور زیادہ خطرناک ہو جائے۔

معیشت، روزگار اور پائیدار سیاحت

دنیا کی لاکھوں کمیونٹیز پہاڑی سیاحت، زراعت، مویشی بانی، پھلوں کی کاشت اور ہتھ کلا سے وابستہ ہیں۔

پاکستان کی شمالی معیشت ہنزہ، اسکردو، ناران، کاغان، چترال، وادی نیلم براہِ راست سیاحتی سرگرمیوں کی مرہونِ منت ہے۔ سیاحوں کی بڑی تعداد پاکستان کے پہاڑ(جو پرکشش خدوخال کے حامل ہیں )کی بنا پراسے سر کرنے میں خاصی دلچسپی دکھاتے ہیں۔

پاکستان کے پہاڑ اور موسمیاتی تبدیلی کے باعث پگھلتے گلیشیئرز، پانی اور مستقبل کو لاحق خطرات

ہر سال لاکھوں لوگ یہاں آتے ہیں جس سے مقامی ہوٹلنگ، ٹرانسپورٹ اور ہنرمندوں کو روزگار ملتا ہے۔

موسمیاتی تبدیلی۔۔۔پہاڑ سب سے زیادہ خطرے میں کیوں؟

دنیا بھر میں درجہ حرارت میں اضافہ پہاڑوں پر انتہائی شدید اثر ڈال رہا ہے۔یہ خطے زمین کے کسی بھی دوسرے ماحول سے دوگنی رفتار سے گرم ہو رہے ہیں جس کی وجہ سے برفانی ذخائرتیزی سے پگھل رہے ہیں۔

ہمالیہ اور قراقرم میں موجود برفانی گلیشیئر دنیا میں سب سے اہم میٹھے پانی کے ذخائر ہیں۔لیکن تحقیق بتاتی ہے کہ درجہ حرارت میں اضافہ اسی طرح جاری رہا تو 2100تک ہمالیہ کے 80 فیصد گلیشیئر ختم ہو سکتے ہیں۔

اس حوالے سے صورتحال کی سنگینی کا اندازہ اس بات سے لگا یا جا سکتا ہے کہ پاکستان میں 7 ہزار سے زائد گلیشیئر تیزی سے سکڑ رہے ہیں۔

جب کہ گلیشیئر کے پگھلنے کی رفتار بعض علاقوں میں دو سے تین گنا بڑھ چکی ہے جس کے نتیجے میں دریاؤں کے بہاؤ میں بے ترتیبی، گرمیوں میں خطرناک سیلاب،سردیوں میں خشک سالی، ہائیڈرو پاور کی قلت اورزراعت پر شدید دباؤ آ رہا ہے۔

گلیشیئر جھیلیں:خاموش مگر مہلک خطرہ (GLOF)

گلیشیئر پگھلنے سے جھیلیں بنتی ہیں، جن کے پھٹنے سے تباہ کن سیلاب آتا ہے۔ دنیا اسے گلیشیل لیک آوٹ برسٹ فلڈ (GLOF)کے نام سے جانتی ہے۔اس وقت پاکستان میں 3000سے زائد برفانی جھیلیں موجود ہیں ان میں سے 35 جھیلیں انتہائی خطرناک قرار دی جا چکی ہیں۔

ہم کئی برسوں سے مشاہدہ کر رہے ہیں کہ گلگت بلتستان اور خیبر پختونخوا میں ہر سال GLOF کے متعدد واقعات پیش آتے ہیں،جو گھروں، پلوں، سڑکوں اور کھیتوں کو تباہ کر دیتے ہیں۔

پہاڑی زراعت کا بحران

موسم میں تبدیلی نے ان علاقوں میں خوبانی، چیری، سیب اور بادام کی پیداوار کم کر دی ہے،چراگاہوں کے اوقات بدل دیئے۔

جڑی بوٹیوں کی نشوونما متاثر ہوئی،آلودگی اور سیاحت کے دباؤ سے جنگلی حیات گھٹ رہی ہے،شدید بارشوں، برف باری میں کمی، جنگلات کی کٹائی اور زمین کے کمزور ہونے سے لینڈ سلائیڈنگ ایک بڑا خطرہ بن چکی ہے۔

یہ سڑکوں کو کاٹ دیتی ہے، سیاحت متاثر کرتی ہے اور کمیونٹیز کو مسلسل عدم تحفظ کا شکار رکھتی ہے۔

پاکستان کے پہاڑ ایک قیمتی مگر خطرے میں پڑا سرمایہ ہیں۔ہمیں یاد رکھنا ہو گا کہ پاکستان کا پہاڑی نظام دنیا میں منفرد ہے کیونکہ یہاں دنیا کی 14 میں سے 5 بلند ترین چوٹیاں موجود ہیں۔

دنیا کا دوسرا سب سے بڑا گلیشیئر سسٹم (قطب شمالی و جنوبی کے بعد) پاکستان کےپاس ہے۔

یہ پورے ملک کا پانی، آبادی اور معیشت کا مرکز ہیں۔تاہم موسمیاتی تبدیلی سے پاکستان میں موجود پہاڑوں کو شدید خطرات لاحق ہو چکے ہیں۔

پاکستان کے شمالی پہاڑ عالمی اوسط سے دو گنا تیزی سے گرم ہو رہے ہیں،گلیشیئرز کے نیچے موجود بستیاں GLOF خطرے کا شکار ہیں۔ بے ہنگم سیاحت نے ماحول کو نقصان پہنچایا ہے۔

جنگلات کی بے دریغ کٹائی اور کچرے کا بڑھتا ہوا بوجھ پاکستان کے پہاڑوں کو مزیدکمزور کر رہا ہے۔ حتی کہ وسائل کی کمی سے پہاڑی کمیونٹیز شدید موسمی واقعات سے غیر محفوظ ہیں۔

پہاڑوں کی حفاظت۔۔ ایک عالمی اور قومی ضرورت

اس حوالے سے مؤثر سائنس اور ڈیٹا بیس کی تشکیل انتہائی ضروری ہے،گلیشیئرز کی نگرانی، برفانی ذخائر کا ڈیٹا، موسمیاتی ماڈلز اور زمینی مشاہدات لازمی ہیں اس کے ساتھ پاکستان کو ہمالیہ ہندوکش ریجن میں عالمی معیار کی ریسرچ بڑھانے کی ضرورت ہے۔

جب کہ پائیدار اور منظم سیاحت (ایکو ٹورزم)کے لیے ضروری ہے کہ سیاحتی علاقوں میں کوڑا کرکٹ کی مینجمنٹ،عمارتیں مقامی طرزِ تعمیرکے مطابق،پلاسٹک فری ٹورزم،جنگلات کے تحفظ کو لازمی پالیسی بنانا جیسے اقدامات اٹھانا ہوں گے۔

اگر یہ اقدامات نہ ہوں تو سیاحت پہاڑوں کے لیے تباہی کا سبب بنتی ہے۔

جنگلات لینڈ سلائیڈنگ کم کرتے ہیں، فضا صاف رکھتے ہیں اور مقامی آکسیجن بیلنس کو بہتر کرتے ہیں۔جو لوگ پہاڑوں کے دامن میں رہتے ہیں، انہیں آفات، پانی کے انتظام، موسمیاتی خطرات اور ہنگامی ردعمل کی تربیت دینا ضروری ہے۔

یہ ایک مسلّمہ حقیقت ہے کہ عالمی سطح پر کاربن اخراج میں کمی پہاڑوں کی بقا کے لیے انتہائی ضروری ہے۔

یہ بھی پڑھیں

سری لنکا ٹورزم روڈ شوکراچی2025: نئی سیاحتی شراکت کا آغا

پاکستان میں پانی کا بحران شدید: فی کس پانی کی دستیابی خطرناک حد تک کم

مغرب کا ماحولیاتی بحران

اگر دنیا گرین ہاؤس گیسوں میں کمی نہیں کرتی تو پہاڑوں کے تحفظ کی کوئی مقامی کوشش نتیجہ خیز ثابت نہیں ہو سکتی۔

پہاڑوں کو بچانا، ہماری آنے والی نسلوں کو بچانا ہے

پہاڑ نہ صرف قدرت کے عظیم شاہکار ہیں بلکہ زندگی کا بنیادی اثاثہ ہیں۔ان کے بغیر پانی نہیں، دریا نہیں، زراعت نہیں، موسم نہیں، اور زندگی بھی نہیں۔مگر آج یہی پہاڑ ہم سے تحفظ مانگ رہے ہیں۔

ان کی برف تیزی سے پگھل رہی ہے، جنگلات سمٹ رہے ہیں، حیاتیاتی تنوع سکڑ رہا ہے، اور پہاڑی باشندے موسمیاتی تبدیلی کی پہلی ضرب برداشت کر رہے ہیں۔

پہاڑوں کا عالمی دن ہمیں یاد دلاتا ہے کہ پہاڑ صرف منظر نہیں ہماری بقا ہیں۔جو قوم پہاڑوں کو بچا لیتی ہے، وہ اپنا مستقبل محفوظ کر لیتی ہے۔

پاکستان کے پہاڑ اور موسمیاتی تبدیلی کے باعث پگھلتے گلیشیئرز، پانی اور مستقبل کو لاحق خطرات
موسمیاتی تبدیلی پاکستان کے پہاڑوں اور گلیشیئرز کو تیزی سے پگھلا رہی ہے، جس سے پانی، زراعت اور آبادیاں خطرے میں ہیں۔

اپنا تبصرہ لکھیں