پاکستان میں بڑھتی گرمی کا بحران خوراک، مویشی اور عوامی صحت کے لیے سنگین خطرہ بنتا جا رہا ہے، جبکہ شدید گرمی زرعی پیداوار اور روزگار کو براہ راست متاثر کر رہی ہے۔
اسلام آباد میں پالیسی ادارہ برائے پائیدار ترقی (ایس ڈی پی ائی)کے زیرِ اہتمام پوسٹ کوپ 30 سیمینا کا اانعقاد کیا گیا۔
اس موقع پر ماہرین کا کہنا تھا کہ پاکستان میں تیزی سے بڑھتا ہوا درجہ حرارت خطرناک ہیجس کے نتیجے میں خوراک کی سلامتی، مویشیوں کی صحت اور عوامی رویّوں پر سنگین اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔
ماہرین کے مطابق ملک کو اگلے اقوامِ متحدہ کے موسمیاتی اجلاس لوپ 31 سے قبل ہنگامی تیاری کرنا ہوگی۔
سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے چیئرمین قائمہ کمیٹی برائے خزانہ سید نوید قمر نے کہ پاکستان کو نعروں سے نکل کر اب عملی اقدامات کرنے ہوں گے۔
انہوں نے کہا کہ موسمیاتی تبدیلی ایک حقیقی مسئلہ ہے- جس کے اثرات کا سامناہماری نئی نسل کو کرنا پڑے گا۔
نوید قمر نے مزید بتایا کہ 2022 کے بڑے سیلاب کے بعد عالمی سطح پر اربوں ڈالر کے وعدے ہوئے تھے مگر پاکستان کو صرف وہی منصوبہ ملا جس کی تیاری مکمل تھی۔
انہوں نے صاف ماحول دوست ٹرانسپورٹ اور صوبائی سطح پر مضبوط اقدامات کی ضرورت پر زور دیا۔
اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے وزیرِ مملکت برائے موسمیاتی تبدیلی ڈاکٹر شزرہ منصب خان کا کہنا تھا کہ حالیہ موسمیاتی مذاکرات سے وابستہ کی جانے والی زیادہ امیدیں پوری نہیں ہوئیں۔
لیکن پاکستان اپنے وسائل کے مطابق موسمیاتی عمل آگے بڑھانے کے لیے پرعزم ہے۔
انھوں نے پاکستان کے نئے این ڈی سیز 3.0کو مضبوط دستاویز قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس سے عالمی فورمز پر پاکستان کی پوزیشن بہتر ہوگی۔
ان کے مطابق کلائمیٹ پروسپیرٹی پلان پاکستان کی گرین گروتھ اور پائیدار ترقی کی سمت واضح کر رہا ہے۔
ایس ڈی پی آئی کے سربراہ ڈاکٹر عابد قیوم سلہری نے خبردارکرتے ہوئے کہا کہ بڑھتی ہوئی گرمی نہ صرف خوراک اور صنعت کے لیے خطرہ ہے بلکہ یہ مویشیوں اور انسانی رویّوں تک کو متاثر کر رہی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ فوڈ سیکیورٹی سے متعلق وزارتیں پاکستان کے مستقبل کے لیے اہم ترین ہیں مگر بیوروکریسی میں انہیں کم اہم سمجھا جاتا ہے۔
سیکریٹری وزارتِ موسمیاتی تبدیلی عائشہ حمیرہ چوہدری نے سیمینار میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ انتظامی چیلنجز کے باوجود کوپ 30 ترقی پذیر ممالک کی سفارتی کامیابی تھا۔
انہوں نے بتایا کہ پاکستان کو عالمی فورمز پر اپنی ضروریات زیادہ واضح طور پر پیش کرنی ہوں گی۔
انہوں نے کہاکہ پاکستان کو عالمی فورمز پر اپنی ضروریات زیادہ واضح طور پر پیش کرنی ہوں گی کیونکہ حالیہ دو بڑے سیلاب ملک کو مجموعی قومی پیداوار کا 10 فیصد نقصان پہنچا چکے ہیں
یہ بھی پڑھیں
جنوبی و جنوب مشرقی ایشیا کی حالیہ آفات اور موسمیاتی تباہی
سیمینار کے آغاز میں ڈاکٹر شفقت منیر احمد نے کہا کہ کوپ 30 ماحول کے حوالے سے اہم کانفرنس تھی۔ پاکستان کو چاہیے کہ آنے والی کوپ 31 میں ”پانی اور قرض“ کے موضوع کو عالمی سطح پر اجاگر کرے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کے ہمالیائی گلیشیئر ملکی معیشت اور دریاوں کا بنیادی ستون ہیں اور موسمیاتی آفات کے بڑھتے خطرات عالمی مالیاتی نظام میں اصلاحات کا تقاضا کرتے ہیں
