فروزاں رپورٹ
پاکستان پہلے ہی واٹر اسٹریسڈ ممالک کی فہرست میں شامل ہے، مگر قومی اسمبلی میں حال ہی میں پیش کی گئی تازہ ترین تفصیلات نے پاکستان میں پانی کے بحران کی صورتحال کی سنگینی کو ایک بار پھر اُجاگر کر دیا ہے۔
وفاقی وزیر برائے آبی وسائل محمد معین وٹونے ایوان کو آگاہ کرتے ہوئے بتایا کہ ملک میں فی کس پانی کی دستیابی گزشتہ چند برسوں میں خطرناک حد تک کم ہوئی ہے، اور اگر یہی رفتار برقرار رہی تو آئندہ دہائی میں پانی کا بحران مزید شدید ہو جائے گا۔
واضع رہے کہ یہ معلومات ”پانی کی قومی صورتحال، مستقبل کے خدشات اور حکومتی اقدامات“ کے عنوان سے دی گئی بریفنگ کا حصہ تھیں، جس میں صوبائی تقسیم سے لے کر مستقبل کی آبی پالیسی تک اہم نکات پیش کیے گئے۔
وفاقی وزیر کے مطابق پاکستان میں 2017 سے 2023 تک آبادی میں تقریباً چار کروڑ اضافہ ہوا۔ پانی کے نئے ذخائر نہ بننے، موسمیاتی تبدیلی سے ہونے والی بے ترتیبی اور مون سون کے غیر متوقع رجحانات نے مجموعی پانی کی دستیابی کو کم کیا۔
نتیجتاً فی کس پانی کی دستیابی میں 154 مکعب میٹر سالانہ کمی ریکارڈ کی گئی۔یہ اعداد و شمار اس اہم حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ پاکستان تیزی سے اس دہلیز کی طرف بڑھ رہا ہے جہاں پانی محض ایک قدرتی نعمت نہیں بلکہ معاشی، سماجی اور سیاسی استحکام کے لیے بنیادی عنصر بن چکا ہے۔
وزارتِ آبی وسائل نے خبردار کیا کہ اگر آبادی میں اسی رفتار سے اضافہ جاری رہا تو 2030 تک پاکستان کی آبادی تقریباً 288 ملین تک پہنچ سکتی ہے، جس کے نتیجے میں فی کس پانی کی سالانہ دستیابی کم ہو کر صرف 795 مکعب میٹر رہ جائے گی۔
یہ سطح عالمی معیار کے مطابق واٹرسکیورٹی کے زمرے میں آتی ہے، یعنی شدید پانی کی کمی۔اس کا مطلب یہ ہے کہ نہ صرف زراعت اور صنعتی شعبوں کو مشکلات کا سامنا ہو گا بلکہ شہری علاقوں میں بھی پینے کے پانی کی فراہمی متاثر ہو سکتی ہے۔
وفاقی وزیر معین وٹو نے صوبائی سطح پر پانی کی فی کس دستیابی بھی پیش کی، جس سے واضح ہوتا ہے کہ پاکستان کے اندر خود بھی پانی کی کمی یکساں نہیں۔
معین وٹو کے مطابق خیبر پختونخوا میں تقریباً 679 مکعب میٹر سالانہ،پنجاب میں تقریباً 760 مکعب میٹر،بلوچستان میں تقریباً 928 مکعب میٹر اور سندھ میں مسلسل موسمیاتی خطرات اور سمندری پانی کی بڑھتی مداخلت کے باعث شدید دباؤ کا شکار ہے۔
یہ اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ کچھ علاقے پہلے ہی پانی کی قلت کے نازک مرحلے میں داخل ہو چکے ہیں، جبکہ بعض ابھی بھی بہتر پوزیشن میں ہیں۔ تاہم موسمیاتی تبدیلی اور آبادی میں مزید اضافہ اس عدم توازن کو مزید بڑھا سکتا ہے۔
حکومتی وزیرنے ایوان کو بتایا کہ پانی کے بحران سے نمٹنے کے لیے نیشنل واٹر پالیسی 2018پر عمل درآمدکو تیز کیا جا رہا ہے۔ اس کے علاوہ نئے ڈیموں اور ذخائر کے منصوبے،پانی کے ذخیرہ کرنے کی گنجائش بڑھانے کی کوشش،موسمیاتی تبدیلی سے مطابقت رکھنے والے واٹر انفرا اسٹرکچرکی تعمیر،صوبوں کے درمیان بہتر کوآرڈینیشن اور پانی کے ضیاع میں کمی کے ساتھ جدید آبپاشی طریقوں کے فروغ کے لیے اقدامات اٹھائے جا رہے ہیں۔تاہم زمینی حقائق بتاتے ہیں کہ انتظامی کمزوریاں، مالی مسائل اور صوبائی اختلافات ان اقدامات کی رفتار کو متاثر کر رہے ہیں۔
پانی کی دستیابی میں مسلسل کمی پاکستان کے مستقبل اور قومی سلامتی سے جڑے مسائل کی جانب اشارہ کر رہی ہے۔ زرعی پیداوار جو ہماری معیشت کا ستون ہے اس سے براہِ راست متاثر ہو رہی ہے۔
دوسری طرف صنعتی شعبے، شہری آبادی اور پانی پر انحصار کرنے والی چھوٹی معیشتیں بھی تیزی سے دباؤ میں آ رہی ہیں۔
اگر سنجیدہ، مربوط اور بڑے فیصلے نہ کیے گئے تو پانی کا بحران ملک کی ترقی کے لیے سب سے بڑا خطرہ بن سکتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں
گلگت میں پینے کا پانی آلودہ: شہر وبائی خطرے کی زد میں
بلوچستان کی ماہی گیری خطرے میں
قومی اسمبلی میں پیش کی گئی یہ بریفنگ پاکستان کو خبردار کرتی ہے کہ اب پانی کو صرف قدرتی وسیلہ سمجھ کر استعمال کرنے کا دور ختم ہو چکا ہے۔ یہ اب ایک اسٹریٹجک، معاشی اور وجودی مسئلہ ہے۔
فی کس پانی کی دستیابی میں کمی اور مستقبل کی سنگین پیش گوئی ہمیں یہ بتاتی ہے کہ پاکستان کو فوری اور مؤثر پانی پالیسی، نئے ذخائر، بہتر انتظام اور عوامی سطح پر شعور کی ضرورت ہے۔
پاکستان میں پانی کا بحران جس قدر شدید ہےاگر آج ہم نے اس کے لیےانتظام کو درست سمت میں ڈال دیا تو آنے والی نسلوں کو ایک محفوظ مستقبل دیا جا سکتا ہے۔ ورنہ پانی کا بحران ہماری ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بن سکتا ہے۔
بلوچستان کی ماہی گیری کی معیشت غیر قانونی ٹرالرنگ، زیادہ شکار اور ناکافی انفراسٹرکچر کے…
جنوری سے نومبر 2025 تک عالمی درجہ حرارت صنعتی دور سے پہلے کے مقابلے میں…
مٹی کا عالمی دن زمین کی صحت، آلودگی کے خطرات اور زرخیزی میں کمی کی…
پاکستان پانی کے محاصرے میں ہے۔بھارت کی دھمکیاں، افغان اپ اسٹریم سرگرمی اور اندرونی بدانتظامی…
ماحول کے تحفظ، فضائی آلودگی میں کمی اور اسموگ جیسے مسائل سے نمٹنے کیلئے میڈیا…
کراچی انفراسٹرکچر بحران،کھلے مین ہولز اور ناکارہ نکاسیِ آب بچوں کی زندگیاں خطرے میں ڈال…
This website uses cookies.