سید خاور مہدی
پاکستان پانی بحران کے تناظر میں، دارالحکومت اسلام آباد میں اس وقت خطرے کی گھنٹیاں بج اٹھیں جب بھارت نے رواں سال کے آغاز میں یہ اعلان کیا کہ وہ سندھ طاس معاہدے (انڈس واٹر ٹریٹی) کو ”معطل” کر رہا ہے،۔
چند ہی روز بعد افغانستان کی عبوری حکومت نے کنڑ دریا پر ایک بڑے ڈیم کی تیز رفتار تعمیر کے منصوبے کی تصدیق کر دی۔
واضع رہے کہ یہ وہی دریا ہے جو کابل کا اہم معاون ہے اور جس کا بہاؤ پاکستان میں سندھ کے نظام میں شامل ہوتا ہے۔ یہ دونوں اقدامات جنوبی ایشیا میں ہائیڈرو پالیٹکس کے ایک نئے اور نہایت تشویشناک دور کی نشاندہی کرتے ہیں۔
ایک ایسا دور جس میں پانی اب صرف ایک مشترکہ وسیلہ نہیں رہا بلکہ اسے ممکنہ ہتھیار بھی بنایا جا سکتا ہے۔اب پاکستان، جس کی بقا کا دارومدار سندھ بیسن پر ہے، ایک وجودی خطرے سے دوچار ہے۔
کیا وہ اپنا پانی بچا سکتا ہے قبل اس کے کہ اسے روکا جائے؟ اور ایسے خطے میں کس قسم کا دفاع معنی رکھتا ہے جو پہلے ہی تنازعات کی زد میں ہے؟
اگرچہ پاکستان، زیریں سطحی ریاست ہونے کے باوجود، 19 ستمبر 1960 کو عالمی بینک اور امریکہ کے مشورے پر سندھ طاس معاہدے پر دستخط کرنے پر مجبور ہوا، لیکن اس عمل میں اسے تین مشرقی دریاؤں راوی، بیاس اور ستلج کے اپنے قدرتی حقوق سے دستبردار ہونا پڑا۔
دنیا نے اسے ایک ”مثالی معاہدہ“ کہا، مگر حقیقت میں یہ پاکستان کی قدرتی ملکیت کا ایک اسٹریٹجک ترکِ دعویٰ تھا۔
اس معاہدے نے مشرقی دریا بھارت اور مغربی دریا سندھ، جہلم اور چناب پاکستان کو دیے۔یہ معاہدہ 1965، 1971 اور 1999 کی جنگوں سمیت بے شمار بحرانوں سے بچ نکلا۔ لیکن اپریل 2025 میں بھارت نے پہلگام میں ایک سیکیورٹی واقعے کے بعد اچانک اسے ”معطل“ قرار دے دیا۔
پاکستان نے اسے ”فالس فلیگ“ قرار دیا اور خبردار کیا کہ سندھ کے پانیوں سے چھیڑ چھاڑ ”جنگی اقدام“ تصور ہو گی۔
پاکستان نے اسے ”فالس فلیگ“ قرار دیا اور خبردار کیا کہ سندھ کے پانیوں سے چھیڑ چھاڑ ”جنگی اقدام“ تصور ہو گی۔
افغانستان کا کنڑ دریا پر ڈیم کو تیزی سے تعمیر کرنے کا اعلان پاکستان کی تشویش میں مزید اضافہ کر رہا ہے۔
کنڑ دریا کابل کے سالانہ بہاؤ کا تقریباً تین چوتھائی فراہم کرتا ہے، جو نوشہرہ کے قریب پاکستان میں داخل ہوتا ہے اور آخرکار سندھ کے نظام سے جا ملتا ہے۔
پاکستان کافی عرصے سے کابل کے ساتھ پانی کی تقسیم کا فریم ورک چاہتا تھا مگر آج تک کوئی معاہدہ وجود میں نہیں آ سکا۔
چونکہ پاکستان کے 80 فیصد قابلِ تجدید پانی کی درآمد سرحد پار سے ہوتی ہے، لہٰذا اگر بھارت اور افغانستان دونوں جارحانہ اپ اسٹریم ڈویلپمنٹ پر چل پڑیں تو پاکستان ”دو محاذی پانی کے دباؤ“ کا شکار ہو جائے گا۔
ملک میں یہ بحث شدت اختیار کر رہی ہے کہ کیا پاکستان کو چترال دریا (جو افغانستان میں داخل ہو کر کنڑ بن جاتا ہے) پر کوئی اسٹریٹجک ڈیم تعمیر کر کے پیش بندی کرنی چاہیے؟لیکن سرحدی علاقوں میں یکطرفہ اقدامات سفارتی کشیدگی کو جنم دے سکتے ہیں۔
اصل پانی کی جنگ ٹینکوں سے نہیں بلکہ سروے ٹیموں، مشینری اور ایمرجنسی تعمیرات سے شروع ہوتی ہے۔
زیادہ دانشمندانہ راستہ یہ ہے کہ پاکستان پہلے اندرونی طور پر اپنی قوت بڑھائے۔
پاکستان کے دریائی بیسن کے ساتھ ساتھ شدت سے پھیلے ہوئے زیرِ زمین آبی ذخائر دنیا کے سب سے بڑے کنیکٹڈ ایکویفرز میں شمار ہوتے ہیں جن میں تقریباً 400 ملین ایکڑ فٹ پانی موجود ہے۔
معروف ماہرِ آبیات ڈاکٹر حسن عباس اسے پاکستان کا ”اصل اسٹریٹجک ذخیرہ“ قرار دیتے ہیں،نہ اسے بم سے اڑایا جا سکتا ہے،نہ موڑا جا سکتا ہے،نہ شبوتاز کیا جا سکتا ہے اورنہ روکا جا سکتا ہے۔
ہوریژنٹل کلیکٹر ویلز جیسے جدید طریقے بڑے شہروں کے لیے پانی کو محفوظ کرنے، خشک سالی میں زراعت کو سہارا دینے اور ایک قومی واٹر ریزرو بنانے میں مدد دے سکتے ہیں وہ بھی بغیر بین الاقوامی تنازعات کے۔مگر حقیقت یہ ہے کہ زیرِ زمین پانی بھی خطرے میں ہے۔
رومانوی تصورات سے حقیقت نہیں بدلتی۔ پاکستان پہلے ہی 50فیصد سے زائد زرعی ضرورت اور 70فیصد شہری ضرورت زیرِ زمین پانی سے پوری کرتا ہے اور یہ نظام تیزی سے دباؤ میں ہے کیوں کہ پانی کی زیادہ مقدار پمپ ہو رہی ہے،سطح آب نیچے جا رہی ہے جس میں نمکین پانی داخل رہا ہے،آرسینک اور نائٹریٹ سے آلودگی بڑھ رہی ہے اورری چارج بھی کم ہو رہا ہے۔
اگر ری چارج مینجمنٹ، ٹیوب ویلز کا کنٹرول، جدید آبپاشی، فلڈ اسپریڈنگ بیسنز، اور پانی کا سخت حساب کتاب نہ کیا گیا تو یہ ”چھپا ہوا سمندر“ جلد ہی سراب بن سکتا ہے۔
پاکستان اپنے سالانہ پانی کا صرف 10فیصد ہی ذخیرہ کر پاتا ہے،نہری نظام میں 30فیصد سے زائد پانی ضائع ہو جاتا ہے،لاہور اور کوئٹہ جیسے بڑے شہر ہر سال مزید گہرے ایکویفر تک بور کر رہے ہیں،چاول اور گنے جیسی فصلیں اب بھی زیرِ آب پٹیوں میں اگائی جاتی ہیں،گلیشیئر تیزی سے پگھل رہے ہیں۔
سن1951میں فی کس پانی 5000 مکعب میٹر تھا، آج 900 مکعب میٹر سے بھی کم ”شدید قلت“ کی حد سے نیچے پہونچ چکا ہے۔ایک آبی افسر کے مطابق ”ہمارا سب سے بڑا ڈیم ہماری نااہلی ہے اور یہ بھی رس رہا ہے“۔
سندھ طاس معاہدہ اپنی خامیوں کے باوجود دنیا کے ایک مستحکم انتظامی نظاموں میں سے ہے۔ یہ اعتماد پر نہیں بلکہ،تصدیق،ثالثی اور طے شدہ حقوق پر قائم ہے۔ یہی نظام بھارت ہی نہیں بلکہ افغانستان کے ساتھ بھی فوری طور پر بحال کرنا ضروری ہے۔
عالمی بینک دوبارہ اس میں کردار ادا کر سکتا ہے۔ تنازعہ چھوڑ کر جارحانہ اقدامات اختیار کرنا انتہائی خطرناک ہو گا۔اس کے لیے قابل اعتماد سفارت کاری ہی قومی پانی کے حقوق کا سب سے مؤثر راستہ ہے۔
بھارت کی دھمکی، افغانستان کی اپ اسٹریم سرگرمی، موسمیاتی تبدیلی اور اندرونی بدانتظامی، یہ سب مل کر پاکستان کے پانی کے لیے شدید خطرہ پیدا کرتے ہیں۔اس لیے پاکستان کو کریڈیبل ریذیلینس(کم از کم قابلِ بھروسامزاحمتی سکت و لچک) کی پالیسی اپنانی ہو گی۔
اس کے لیے گھریلو ذخائر میں فوری اضافہ،سائنسی بنیادوں پر ایکویفر ری چارج،سخت کفایتی معیار،قابلِ عمل پانی کی ریگولیشن کے ساتھ سفارت کاری میں مسلسل چوکسی دیکھانا ہو گی کیوں کہ پانی اب وراثت نہیں، ایک اسٹریٹجک اثاثہ ہے جسے محفوظ کرنا، بڑھانا اور اس کا دفاع کرنا قومی سلامتی جتنا اہم ہے۔
یہ بھی پڑھیں
سندھ طاس معاہدہ: مرزا اور ایوب کی آبی کشمکش
ایگرو کارپوریشنز کا اثر: عالمی منافع کی بھوک اور زمین کی آخری پکار
جنوبی ایشیا میں ہائیڈرو پالیٹکس ایک سخت مرحلے میں داخل ہو رہی ہے۔ پاکستان کے لیے نجات نہ تو زور دار بیانات میں ہے اور نہ ہی عجلت میں بننے والے میگا پراجیکٹس میں۔نجات ہے تونظم و ضبط پر مبنی پانی کے انتظام میں،دور اندیش سفارت کاری اورزیرِ زمین اور سطحی دونوں اقسام کے پانی میں اسٹرٹیجک سرمایہ کاری میں۔
جیسا کہ ڈاکٹر حسن عباس یاد دلاتے ہیں کہ ”پاکستان کی نجات زیادہ ڈیموں میں نہیں اپنے دریاؤں کے نیچے دیکھنے میں ہے“۔قبل اس کے کہ دریا خشک ہو جائیں، شاید یہی سب سے محب وطن عمل ثابت ہو۔
سید خاور مہدی Honor-bound to Pakistan in duty, & Death: Iskandar Mirza- Pkistan’s First Elected President Memoirs From Eixle کے مصنف ہیں۔
ماحول کے تحفظ، فضائی آلودگی میں کمی اور اسموگ جیسے مسائل سے نمٹنے کیلئے میڈیا…
کراچی انفراسٹرکچر بحران،کھلے مین ہولز اور ناکارہ نکاسیِ آب بچوں کی زندگیاں خطرے میں ڈال…
ایگرو کارپوریشنز کا اثر زمین، ماحول اور کسانوں کو شدید نقصان پہنچا رہا ہے، جبکہ…
دسمبر کا سپر مون پاکستان میں کل رات 15 فیصد زیادہ روشن نظر آئے گا۔…
“ریاض کانفرنس 2025 گرین انڈسٹری” ریاض ڈیکلریشن صنعت، ماحول اور پاکستان و جنوبی ایشیا کی…
گلگت بلتستان میں مارخور کا غیر قانونی شکار دو ہفتوں میں دوسرا واقعہ، جنگلی حیات…
This website uses cookies.