فروزاں ماحولیاتی رپورٹس

ریاض کانفرنس 2025: گرین انڈسٹری اور ریاض ڈیکلریشن کی نئی سمت

ریاض کانفرنس 2025 میں گرین انڈسٹری اور ریاض ڈیکلریشن کے اہم فیصلے – پاکستان اور جنوبی ایشیا کی پائیدار صنعتی ترقی

“ریاض کانفرنس 2025 گرین انڈسٹری” ریاض ڈیکلریشن صنعت، ماحول اور پاکستان و جنوبی ایشیا کی پائیدار ترقی کے لیے نئی سمت متعین کی ہے۔

دنیا آج ایک ایسے موڑ پر کھڑی ہے جہاں صنعتی ترقی اور ماحولیاتی پائیداری کے درمیان ٹکراؤ پہلے سے کہیں زیادہ شدید ہو چکا ہے۔

گزشتہ صدی میں صنعتی ترقی نے جہاں لاکھوں لوگوں کو غربت سے نکالا، روزگار سکھایا اور عوامی معیارِ زندگی کو بہتر بنایا، وہیں اس نے ماحولیاتی آلودگی، وسائل کی بے دریغ کھپت اور موسمیاتی تبدیلی کے تناؤ کو بھی شدت سے جنم دیا۔

ایسے میں ضرورت ہے کہ ترقی کا عمل نہ صرف معاشی بلکہ ماحولیاتی اور سماجی اعتبار سے بھی ذمہ دار ہو۔

اسی پس منظر میں یونیڈو کی 21ویں جنرل کانفرنس”گلوبل انڈسٹری سُمِٹ 2025“کے نام سے ریاض، سعودی عرب میں منعقد ہوئی،جس کے اختتام پر ایک تاریخی دستاویز”ریاض ڈیکلریشن“کے نام سے جاری کی گئی۔

ریاض کانفرنس نے ”گرین انڈسٹری“(ماحول دوست صنعتی ترقی) کو عالمی ترقیاتی ایجنڈے کا مرکز بنانے کی ٹھوس سمت طے کی۔

ریاض کانفرنس 2025 میں گرین انڈسٹری اور ریاض ڈیکلریشن کے اہم فیصلے – پاکستان اور جنوبی ایشیا کی پائیدار صنعتی ترقی
ریاض کانفرنس 2025 میں جاری ہونے والا ریاض ڈیکلریشن، گرین انڈسٹری اور پائیدار ترقی کے نئے عالمی اہداف کو متعین کرتا ہے۔

ریاض کانفرنس اور اس کے اہداف

کانفرنس میں دنیا کے 173 رکن ممالک کے نمائندے، صنعت کار، معاشی ماہرین، اور ترقیاتی ادارے شریک تھے۔ اس کانفرنس کا بنیادی مقصد عالمی صنعتی پالیسیز کو نئے عہد اور ضروریات کے مطابق ڈھالنا تھا۔

خصوصی توجہ اس بار”شمولیتی، پائیدار، اور جاندار صنعتی ترقی“پر تھی تاکہ صنعتی نمو غربت کے خاتمے، روزگار کے مواقع، اور سماجی عدل و مساوات کے ساتھ ماحولیاتی استحکام کو بھی یقینی بنا سکے۔

کانفرنس کے مختلف موضوعاتی سیشن ہوئے جن میں سرمایہ کاری و شراکت داری،خواتین کے لیے صنعتی شمولیت، نوجوانوں کی شمولیت و مستقبل کی صنعت۔

کانفرنس کے اختتام پر ریاض ڈیکلریشن جاری کیا گیا جو مستقبل کی صنعت کے لیے ایک جامع فریم ورک کہا جا سکتا ہے۔

ریاض کانفرنس 2025 میں گرین انڈسٹری اور ریاض ڈیکلریشن کے اہم فیصلے – پاکستان اور جنوبی ایشیا کی پائیدار صنعتی ترقی
ریاض کانفرنس 2025 میں جاری ہونے والا ریاض ڈیکلریشن، گرین انڈسٹری اور پائیدار ترقی کے نئے عالمی اہداف کو متعین کرتا ہے۔

ریاض ڈیکلریشن اور گرین انڈسٹری۔۔کلیدی اصول

ریاض ڈیکلریشن اور اس کے پسِ منظر میں ابھرتی عالمی صنعتی حکمتِ عملی چند بنیادی ستونوں پر کھڑی ہے، جنہیں سمجھنا خاص طور پر ہمارے جنوبی ایشیائی اور پاکستانی پسِ منظر کے لیے اہم ہے۔

ڈیکلریشن زور دیتاہے کہ صنعتی ترقی صرف کارخانوں کے اضافہ یا پیداوار کی شرح بڑھانے تک محدود نہ رہ جائے، بلکہ اس کا محور غربت کا خاتمہ، روزگار کے وسیع مواقع، اور سماجی مساوات ہو۔

اس کے ساتھ ماحول دوست صنعتی عمل، کاربن کے اخراج میں کمی، توانائی کی کارکردگی، سرکلر اکنامی ماڈلز، اور کلائمٹ ایکشن کے ساتھ مطابقت رکھتی ہو۔

نئی صنعتی سرگرمیوں کو جدید ٹیکنالوجی، ڈیجیٹل سپلائی چین، اور جدت پر مبنی بنانے سے ترقی پذیر ممالک کو عالمی مقابلے میں اہم مقام حاصل ہو سکتا ہے۔

ڈیکلریشن خاص طور پر خواتین کے کردار کو اجاگر کرتا ہے۔ کانفرنس نے 21 اپریل کو “انٹرنیشل ڈے آف وویمن اینڈ انڈسٹری” کے طور پر تسلیم کرنے کی منظوری دی۔

نوجوانوں کو مستقبل کی صنعت میں شامل کرنا، ان کی صلاحیتوں کو نکھارنا اور انہیں صنعتی قیادت کے مواقع فراہم کرنا ریاض ڈیکلریشن کا اہم عنصر ہے۔

اس کے ساتھ ترقی پذیر ممالک کو تکنیکی مدد، مالی معاونت، سرمایہ کاری اور پالیسی مشورے فراہم کرنا تاکہ عالمی معیارات کے مطابق صنعتی ترقی ہو سکے۔

ریاض کانفرنس 2025 میں گرین انڈسٹری اور ریاض ڈیکلریشن کے اہم فیصلے – پاکستان اور جنوبی ایشیا کی پائیدار صنعتی ترقی
ریاض کانفرنس 2025 میں جاری ہونے والا ریاض ڈیکلریشن، گرین انڈسٹری اور پائیدار ترقی کے نئے عالمی اہداف کو متعین کرتا ہے۔

پاکستان اور جنوبی ایشیا کے لیے اہمیت

ہماری معیشت کے کئی حصے بے روزگاری، کم تنخواہوں، اور غیر رسمی شعبوں پر منحصر ہیں۔ اگر صنعتی منصوبے فقط بڑے شہروں اور کارخانوں تک محدود رہیں، تو فلاح کی منازل دور رہیں گی۔ مگر ریاض کانفرنس کے اصول بتاتے ہیں کہ صنعتی ترقی کو معاشرتی اور سماجی پہلوؤں کے ساتھ جوڑا جائے تاکہ عام آدمی بھی خوشحال زندگی گزار سکے۔

پاکستان خاص طور پر موسمیاتی تبدیلیوں، پانی کی قلت اور ماحولیاتی آلودگی سے متاثر ہے۔ اگر صنعت غیر ذمہ دار ہو کر بڑھے گی، تو یہ دباؤ اور بڑھ جائے گا۔

ریاض ڈیکلریشن کے حوالے سے اہم بات یہ ہے کہ ماحولیاتی تحفظ کو مد نظر رکھتے ہوئے کہا گیا ہے کہ صنعتی ترقی کو ماحول کے ساتھ ہم آہنگ بنایا جائے، سرکلر اکنامی، توانائی کی بچت، کم کاربن ٹیکنالوجیز، اور ماحول دوست مینوفیکچرنگ کو فروغ دیا جائے۔

ہمارے ملک میں خواتین اور نوجوان طبقہ اکثر غیر منظم شعبوں میں کام کرنے پر مجبور رہتا ہے۔ مگر اگر صنعتی ترقی ان کے لیے موزوں مواقع فراہم کرے، تو سماجی ترقی اور مساوات کا خواب حقیقت بن سکتا ہے جیسا کہ ریاض ڈیکلریشن میں سفارش کی گئی ہے کہ بہت سی صنعتیں پرانی تکنیکوں پر منحصر ہیں، جس کی وجہ سے وسائل ضائع ہوتے ہیں، آلودگی بڑھتی ہے اور معیارِ زندگی متاثر ہوتا ہے۔

ریاض ڈیکلریشن ٹیکنالوجی ٹرانسفر اور جدت کو فروغ دیتا ہے، جو پاکستان جیسے ملک کے لیے ایک بڑی سہولتہے تاکہ ہم پرانی خرابیاں ترک کر کے ماحول دوست اور مؤثر صنعت کی جانب بڑھیں۔

اکثر ترقی پذیر ممالک کو سرمایہ کاری، فنانسنگ، اور تکنیکی مہارت کم ملتی ہے۔ ریاض ڈیکلریشن بین الاقوامی تعاون اور سرمایہ کاری کی راہ ہموار کرتا ہے جسے اگر پاکستان اپنائے، تو روزگار، صفائی، ماحول اور معیشت تینوں سطحوں پر فائدہ ہوگا۔

ممکنہ چیلنجز اور حقیقت کی تصویر

یقیناً ریاض ڈیکلریشن ایک رہنما فریم ورک ہے، مگر اسے عملی جامہ پہنانا آسان نہیں۔ چند ممکنہ چیلنجز یہ ہو سکتے ہیں۔

ترقیاتی پالیسیوں میں سیاسی ارادے کا فقدان ایک بڑی وجہ ہے۔صنعتی منصوبے اکثر مختصر مدّت منافع پر مبنی ہوتے ہیں، جبکہ سرکلر اکنامی اور ماحول دوست صنعتی اصول طویل مدّت سرمایہ کاری اور منصوبہ بندی چاہتے ہیں۔تکنیکی و مالی وسائل کی کمی کا مسئلہ بھی اپنی جگہ موجود ہے۔

جدت اور ماحولیاتی ٹیکنالوجیز مہنگی ہو سکتی ہیں، اور ترقی پذیر ممالک کے لیے ان پر عمل درآمد مشکل ہو سکتا ہے۔

سماجی شعور اور حکومتی ترجیحات کے حوالے سے دیکھا جائے تو اکثر صنعتی ترقی کو منافع خور بنیاد پر دیکھا جاتا ہے جب کہ ماحول اور سماجی فوائد کو ثانوی مقام دیا جاتا ہے۔

اس کے ساتھ ذمہ دار پالیسی اور نگرانی کا فقدان ماحول دوست صنعت کے اصول اپنانے کے لیے قوانین، ضوابط اور نگرانی کی ضرورت ہے جو ہر ملک میں موجود نہیں۔

یہ چیلنجز اگر بروقت اور سنجیدگی کے ساتھ نہ حل ہوئے، تو”گرین انڈسٹری“محض ایک خواب رہ جائے گی۔

پاکستان اور جنوبی ایشیا کے لیے عملی راستے

حکومت اور صنعتی شعبے مل کر ”گرین انڈسٹری پلان“بنائیں جہاں ہر نئے صنعتی منصوبے کی منظوری ماحول، توانائی استعمال، وسائل کی بچت اور سماجی اثرات کے پیمانے پر کی جائے۔ٹیکنالوجی ٹرانسفر، توانائی کی بچت، سرکلر اکنامی اور ماحولیاتی ضابطے (انوائرمینٹل ریگولیشن) پر زور دیا جائے۔

خواتین اور نوجوانوں کی صنعت میں شمولیت کو فروغ دیا جائے، پیشہ ورانہ تربیت اور روزگار کے مواقع پیدا کیے جائیں تاکہ سماجی ترقی اور مساوات ممکن ہو سکے۔

سول سوسائٹی، ماحولیاتی ماہرین اور عوامی آواز کو صنعتی منصوبہ بندی میں شامل کیا جائے اور شفافیت اور احتساب کو یقینی بنایا جائے۔

بین الاقوامی شراکت کاری اور مالی معاونت حاصل کی جائے ترقی پذیر ممالک کے لیے ”گرین انڈسٹری فنانسنگ“کے وسائل تلاش کیے جائیں۔

یہ بھی پڑھیں

شہر اور کوپ30: آب و ہوا کی جنگ کا نیا دور

گلگت بلتستان میں دو ہفتوں کے دوران مارخور کے غیر قانونی شکار کا دوسرا واقعہ

ایک نئی سمت، ایک نیا عہد

ریاض کانفرنس 2025 اور اس کے جاری کردہ ریاض ڈیکلریشن نے ثابت کیا ہے کہ صنعتی ترقی اور ماحولیاتی تحفظ ایک دوسرے کے خلاف نہیں بلکہ ساتھ چل سکتے ہیں۔

اگر عالمی برادری، ریاستیں اور معاشرے مل کر اس سمت پر قدم اٹھائیں تو ہم ایک ایسی صنعت کی بنیاد رکھ سکتے ہیں جو نہ صرف معیشت کو ترقی دے بلکہ ماحول، معاشرت اور انسانی حقوق کو بھی تحفظ دے۔

پاکستان اور جنوبی ایشیا جیسے خطوں کے لیے جہاں غربت، بے روزگاری، ماحولیاتی دباؤ اور موسمیاتی تبدیلیاں ہم عصر مسائل ہیں یہ گرین انڈسٹری ماڈل ایک امید کی کرن بن سکتی ہے۔

اپنا تبصرہ لکھیں