فروزاں رپورٹ
دنیا اب اس حقیقت کو تسلیم کرنے پر مجبور ہو چکی ہے کہ موسمیاتی بحران کا سب سے پہلا اور سب سے شدید اثر شہروں پر پڑتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ برازیل کے شہر بیلیم میں ہونے والی کوپ30 نے عالمی مذاکرات میں پہلی مرتبہ شہروں کو مؤثر اور مرکزی کردار دیا۔
اگرچہ کاربن اخراج کا بڑا حصہ شہری علاقوں سے نکلتا ہے، مگر عملی اقدامات، تیز رفتار پالیسی نفاذ اور زمینی سطح پر تبدیلی بھی سب سے پہلے یہی شہر لاتے ہیں۔ اسی حقیقت نے اس سال کوپ کو’’کوپ سٹیز‘‘بنا یا۔
کوپ کی برازیلی صدارت نے واضع الفاظ میں اعلان کیا کہ کلائمٹ ایکشن تب ہی موثر ہوگا جب شہروں کو مذاکرات، فیصلوں اور فنڈنگ کے عمل میں سنجیدہ حصہ دار بنایا جائے۔ ماضی میں شہروں کی آوازیں اکثر قومی وفود کے پیچھے دب جاتی تھیں، مگر اس بار’’ملٹی لیول گورننس’’کو باضابطہ طور پر کوپ کے ایجنڈے میں شامل کیا گیا۔
اس کا مقصد یہ تھا کہ قومی حکومتیں،صوبائی انتظامیہ اور شہری/میونسپل ادارے سب ایک مربوط طریقے سے موسمیاتی اقدامات کریں۔
یہ پیش رفت پاکستان جیسے ممالک کے لیے خاص اہمیت رکھتی ہے جہاں شہری آبادی، معیشت اور موسمیاتی خطرات،تینوں کا بوجھ اٹھاتے ہیں۔
کوپ 30میں یو این ہیبٹاٹ نے اپنی نئی عالمی رپورٹ ’’اربن کونٹینٹ اِن این ڈی سیز 3.0‘‘ جاری کی، جس نے واضح کیا کہ پہلی مرتبہ عالمی سطح پر 80 فیصد ممالک نے اپنی این ڈی سیز میں شہروں کو شامل کیا ہے۔
ان این ڈی سیز میں صرف اخراجات نہیں، بلکہ موافقت، مالیات اور شہری منصوبہ بندی تک کی پالیسیوں کو بھی شامل کیا گیا ہے۔
ترقی پذیر ممالک میں شہری موسمیاتی اقدامات کو ’’اقتصادی مضبوطی‘‘ سے بھی جوڑا جا رہا ہے۔یہ رپورٹ اس بات کا ثبوت ہے کہ کوپ30 نے شہروں کو محض ایک ’’لوکل گورننس یونٹ‘‘ نہیں بلکہ ’’کلائمٹ ایکشن لیڈر‘‘ تسلیم کیا ہے۔
کوپ30 میں کولیشن فار ہائی امبیشن ملٹی لیول پارٹنرشپ(چیمپ) کو مزید مضبوط کرتے ہوئے برازیل اور جرمنی کو اس کا نیا عالمی سربراہ (کو۔چیر) مقرر کیا گیا۔
یہ اتحاد اس بات کو یقینی بنا رہا ہے کہ شہروں کو کلائمٹ فنڈنگ تک براہ راست رسائی مل سکے،قومی حکومتیں مقامی پالیسیوں کو نظر انداز نہ کریں اورکلائمٹ اہداف مقامی، صوبائی اور قومی سطح پر ہم آہنگ ہوں۔چیمپ اس وقت عالمی سطح پر سب سے بڑا فورم ہے جو شہر اور ریاست دونوں کو یکجا کر کے موسمیاتی اہداف کے نفاذ کو تیز کر رہا ہے۔
کوپ30میں پلان ٹو اکسلیرٹ سلوشن (پی اے ایس) نامی ایک نیا عالمی منصوبہ بھی سامنے آیا جس کا کردار بہت اہم ہے۔
اس منصوبے کے تحت شہروں کے لیے فوری قابل عمل حل جن میں گرین ٹرانسپورٹ، جدید شہری پلاننگ، کم اخراج والی توانائی اور موسمیاتی لچک (resilience) کے ماڈل تیار کیے جا رہے ہیں جنہیں دنیا کے مختلف خطوں میں فوراً نافذ کیا جا سکے۔
کوپ کانفرنس کا ایک نمایاں پہلو یہ رہا کہ دنیا بھر کے میئرز، لوکل لیڈرز، اور میونسپل فنانس ادارے بڑے پیمانے پر موجود تھے۔
”Local Leadership for Global Adaptation“نامی سیشن میں یہ اہم نکتے سامنے آئے کہ شہروں میں موسمیاتی موافقت پہلے ہی عملی سطح پر شروع ہو چکی ہے۔
ہیٹ ویوز، اربن فلڈنگ، سمندری طوفان اور ہوا کی آلودگی جیسے خطرات سب سے پہلے شہروں پر ضرب لگاتے ہیں۔
مقامی اداروں کو فنڈنگ، ٹیکنالوجی اور اختیارات دیے بغیر کوئی عالمی ہدف حاصل نہیں ہو سکتا۔یہ وہی نکتہ ہے جو پاکستان کے شہروں خاص طور پر کراچی، لاہور، پشاور اور کوئٹہ کا سب سے بڑا چیلنج ہے۔
ICLEI نے کانفرنس میں “ٹاؤن ہال کوپس” نامی ایک نیا ماڈل پیش کیا، جس میں مقامی کمیونیٹیز،شہری نمائندے،سول سوسائٹی اور لوکل حکومتیں براہِ راست مذاکرات تک اپنی آواز پہنچاتی ہیں۔
یہ ماڈل خاص طور پر افریقہ، لاطینی امریکہ اور جنوبی ایشیا کے لیے ایک امید بن کر اُبھرا ہے، کیونکہ ان خطوں میں کمیونٹی لیول پر فیصلہ سازی سب سے زیادہ متاثر ہوتی ہے۔
کوپ30 میں ایک بڑی پیش رفت یہ رہی کہ شہروں کے لیے براہ راست کلائمٹ فنڈنگ کو ایک ترجیح کے طور پر سامنے لایا گیا۔ ’’سٹیز اینڈ ریجن حب‘‘ کے اجلاس میں اس بات پر اتفاق ہوا کہ شہروں کو گرین فنڈز تک براہ راست رسائی،مقامی گرین انفراسٹرکچر کے لیے مالی تعاون اور چھوٹے و درمیانی شہروں کے لیے آسان فنانسنگ ماڈلز مستقبل کے کلائمٹ منصوبوں کی بنیاد ہوں گے۔سی 40کی رپورٹ نے بھی یہ ظاہر کیا کہ جن شہروں کو براہ راست فنڈنگ میسر ہے، وہاں کلائمٹ اہداف تیزی سے حاصل ہو رہے ہیں۔
کوپ میں سی40 اور GCoM نے اپنی مشترکہ رپورٹ میں ثابت کیا کہ دنیا کے بڑے شہر اخراج میں کمی،ہیٹ ایڈاپٹیشن،صاف ٹرانسپورٹ،ویسٹ مینجمنٹ اور گرین پالیسیوں میں عملی طور پر قومی حکومتوں سے کہیں زیادہ آگے بڑھ چکے ہیں۔
یہ وہ پیغام ہے جسے کوپ30 نے پوری دنیا تک پہنچایا کہ ’’اگر دنیا کو 1.5ڈگری کے ہدف کے اندر رہنا ہے‘‘، تو شہروں کو قیادت دینا ہوگی۔
کوپ30 میں ہونے والی یہ تمام پیش رفت پاکستان کے لیے براہ راست اہم ہے کیوں کہ کراچی، لاہور اور پشاور جیسے شہر موسمیاتی دباؤ کا سب سے زیادہ شکار ہیں۔
اربن فلڈنگ،ہیٹ ویوز، اسموگ اور کچی آبادیوں کی بے ترتیبی،یہ سب شہری کلائمٹ گورننس کا تقاضا کرتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں
کسانوں اور ماہی گیروں کا 99 ارب ڈالرز کا نقصان
کوپ کی ملٹی لیول حکمرانی اور شہری فنڈنگ کی پیش رفت پاکستان کے لیے بڑی سفارتی اور انتظامی گنجائش پیدا کرتی ہے۔پاکستان کے این ڈی سیز میں شہروں کو زیادہ مؤثر کردار دینے کی فوری ضرورت ہے۔
کوپ 30نے یہ بات ثابت کر دی کہ دنیا موسمیاتی بحران کا مقابلہ اس وقت تک نہیں کر سکتی جب تک وہ شہروں، میئرز، کمیونٹیز اور مقامی اداروں کو ترجیح نہ دے۔
بیلیم کا یہ اجلاس شاید آنے والے دور کا سب سے اہم موڑ ثابت ہو جہاں عالمی آب و ہوا کے تحفظ کی جنگ اقوام نہیں بلکہ شہر لڑیں گے۔
گلگت بلتستان میں مارخور کا غیر قانونی شکار دو ہفتوں میں دوسرا واقعہ، جنگلی حیات…
قدرتی آفات کے باعث کسانوں اور ماہی گیروں کا 99 ارب ڈالرز کا سالانہ نقصان…
عالمی شہری توسیع تیزی سے بڑھ رہی ہے اور کراچی موسمیاتی خطرات، آبادی دباؤ، شہری…
ہنزہ کا ہینگنگ گلیشیر موسمیاتی تبدیلی، آلودگی اور برفانی تودوں کے بڑھتے واقعات سے خطرے…
کراچی کی تاریخی عمارتوں کا تحفظ، زبوں حال قدیم عمارتیں اور ثقافتی ورثے کو بچانے…
کیا کوپ 30 ناکام ہوا؟رپورٹ میں جانیں کہ فوسل فیول فیصلوں کی کمی، لاس اینڈ…
This website uses cookies.