لسبیلہ زرعی میلہ 2025 نے کسانوں، خواتین اور نوجوانوں کو ایک پلیٹ فارم پر لا کر جدید زراعت اور موسمیاتی لچک کا نیا دور شروع کر دیا۔
خلیل رونجھو

بلوچستان کا ضلع لسبیلہ قدرتی وسائل، زرخیز زمین اور محنتی لوگوں کے باعث ہمیشہ سے زراعت اور لائیوسٹاک کے حوالے سے نمایاں اہمیت رکھتا ہے۔ یہاں کے بیشتر لوگ کھیتی باڑی، باغبانی اور مویشی پالنے کے پیشے سے وابستہ ہیں، جو نہ صرف ان کی روزی روٹی کا ذریعہ ہیں بلکہ ان کی ثقافت، روایات اور طرزِ زندگی کا بھی بنیادی حصہ ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ لسبیلہ کی معیشت میں زرعی شعبہ ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔
تاہم حالیہ برسوں میں موسمیاتی تبدیلی نے بلوچستان کے زرعی نظام کو گہرے چیلنجز سے دوچار کر دیا ہے۔ غیر متوقع بارشوں، بڑھتے درجہ حرارت، پانی کی کمی اور خشک سالی نے کسانوں کے روایتی طریقہ کاشت کو متاثر کیا ہے۔ زمین کی زرخیزی میں کمی اور زیرِ زمین پانی کی سطح میں تیزی سے کمی نے لسبیلہ سمیت پورے بلوچستان میں کاشتکاروں کے لیے نئی مشکلات پیدا کر دی ہیں۔
بدلتے حالات کے پیش نظر حکومتِ بلوچستان، بین الاقوامی اداروں اور مقامی تنظیموں کی مشترکہ کاوشوں سے اس شعبے کو جدید خطوط پر استوار کرنے کے لیے متعدد منصوبے شروع کیے گئے ہیں تاکہ کسانوں کو جدید تکنیک، مارکیٹ تک بہتر رسائی، اور موسمیاتی موافقت (Climate Adaptation) کے مواقع فراہم کیے جا سکیں۔ انہی کوششوں کے تحت ضلع لسبیلہ کے مرکزی شہر اوتھل میں حال ہی میں ایک شاندار زرعی و کاروباری میلہ منعقد کیا گیا، جس نے مقامی کسانوں، کاروباری حضرات، ماہرینِ زراعت اور طلبا کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کیا۔

یہ میلہ یورپی یونین کے مالی تعاون سے جاری پروجیکٹ گراسپ (GRASP) کی سرگرمیوں کا حصہ تھا۔ اس منصوبے کا مقصد بلوچستان کے دیہی علاقوں میں زراعت اور لائیوسٹاک کے شعبوں کو مستحکم بنانا، چھوٹے کاشتکاروں کو بااختیار کرنا، اور ان کی مصنوعات کو قومی و بین الاقوامی منڈیوں تک پہنچانا ہے۔
گراسپ پروجیکٹ میں خاص طور پر موسمیاتی لچکدار زراعت (Climate-Resilient Agriculture) کے فروغ پر زور دیا جا رہا ہے، تاکہ کسان موسمیاتی اثرات کے باوجود اپنی پیداوار کو بہتر بنا سکیں۔
اسی پروجیکٹ کی کاوشوں کے نتیجے میں لسبیلہ کے متحرک اور باصلاحیت کسانوں کے تعاون سے ایک اہم فورم ”زرسبز سوشل انٹرپرائز پلیٹ فارم” (ZarSabz SEP) کے نام سے قائم کیا گیا ہے۔ یہ پلیٹ فارم کسانوں، تاجروں اور ماہرین کے درمیان پل کا کردار ادا کر رہا ہے تاکہ جدید کاروباری ر جحانات، موسمیاتی تبدیلی کے تقاضے، اور مارکیٹ کی ضروریات کے مطابق مقامی پیداوار کو فروغ دیا جا سکے۔
زرسبز سوشل انٹرپرائز پلیٹ فارم انٹرنیشنل ٹریڈ سینٹر کے کنسلٹنٹس کی رہنمائی میں فعال طور پر کام کر رہا ہے، جس کا مقصد زرعی کاروبار کو ایک منظم، پائیدار اور ماحولیاتی لحاظ سے محفوظ سمت دینا ہے۔
اس پلیٹ فارم کی قیادت چیف ایگزیکٹو آفیسر فرحان سرور رونجھو کر رہے ہیں۔ ان کی ٹیم میں تجربہ کار ماہرین شامل ہیں جن میں ڈائریکٹر فنانس علی اکبر میراجی، ڈائریکٹر بزنس آپریشن محمد ہارون رونجھو، ڈائریکٹر مارکیٹنگ خادم حسین، ڈائریکٹر لنکیج فہمیدہ حمید اور ایگزیکٹیو کمیٹی کے ممبران غلام مرتضیٰ اور حضور بخش چنہ شامل ہیں۔
ان تمام ماہرین کی مشترکہ کوششوں سے لسبیلہ کے کسانوں میں ایک نئی امید اور حوصلہ پیدا ہوا ہے۔ وہ اب جدید ٹیکنالوجی، مارکیٹنگ کے اصولوں اور موسمیاتی لحاظ سے پائیدار زراعت کے طریقوں کو اپنانے کی جانب گامزن ہیں۔ اس قسم کی سرگرمیاں نہ صرف مقامی معیشت کو مضبوط بنا رہی ہیں بلکہ بلوچستان کے زرعی مستقبل کے لیے بھی ایک مثبت سمت متعین کر رہی ہیں۔
اس میلے میں لسبیلہ یونیورسٹی کے مختلف شعبہ جات، جن میں ایگریکلچر، ویٹرنری سائنس، کاٹن ریسرچ سینٹر، محکمہ زراعت، محکمہ لائیو اسٹاک، فوڈ اینڈ ایگریکلچر آرگنائزیشن (FAO)، ورلڈ فوڈ پروگرام (WFP)، بلوچستان رورل سپورٹ پروگرام (BRSP)، وانگ، زرعی ترقیاتی بینک، وایارو ریسرچ فارم، WWF، کاکاز گارڈن، Kekbek Bakers، Evyol Group، Kanzo Ag، میرا مان، NRSP اور WFP کے کمیونٹی ریسورس پرسنز سمیت متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے شرکت کی۔

اس میلے کا بنیادی مقصد کسانوں، صنعت کاروں، سرمایہ کاروں اور ماہرینِ زراعت کے درمیان براہِ راست رابطہ قائم کرنا، جدید ٹیکنالوجی کے استعمال کو فروغ دینا، موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے ہم آہنگ زرعی طریقے اپنانا، اور بلوچستان میں پائیدار زراعت کے نئے مواقع پیدا کرنا تھا۔ مزید برآں، اس کا مقصد مقامی کسانوں کو خود کفیل بنانا، فی ایکڑ پیداوار میں اضافہ کرنا، اور زرعی پیداوار کو براہِ راست منڈیوں تک رسائی دلانا ہے۔
افتتاحی سیشن سے خطاب کرتے ہوئے زرسبز ایس ای پی کے سی ای او فرحان سرور رونجھو نے کہا کہ ”بلوچستان کا مستقبل زراعت اور فوڈ ویلیو چین سے وابستہ ہے۔ اگر ہم جدید تحقیق، ٹیکنالوجی، اور موسمیاتی تبدیلی سے مطابقت رکھنے والی پالیسیوں کو یکجا کر لیں تو ہم مقامی سطح پر ایک مضبوط معاشی انقلاب برپا کر سکتے ہیں۔“
میلے کا افتتاح ڈپٹی کمشنر لسبیلہ محترمہ حمیرا بلوچ نے فیتہ کاٹ کر کیا۔ افتتاحی تقریب میں وائس چانسلر لسبیلہ یونیورسٹی پروفیسر ڈاکٹر مالک ترین، چیئرمین ڈسٹرکٹ کونسل عبدالرشید پھورائی، ڈپٹی ڈائریکٹر ایگریکلچر تنویر چنا، ڈپٹی ڈائریکٹر لائیو اسٹاک ڈاکٹر اللہ بچایا، قادر بخش جاموٹ، اعجاز علی، وڈیرہ غلام نبی گنگو، ڈاکٹر عبدالحکیم لاسی، ڈاکٹر تولہ رام لاسی، پرکاش کمار لاسی، چیئرمین اوتھل سید سومار شاہ کاظمی، ڈاکٹر عبدالحمید بلوچ، غلام سرور جمعہ، عبدالقادر رونجھو، محسن جمالی، فیروز جمالی، سید حسن شاہ، حاجی نوید ہاشمی، ایم عیسیٰ، وقار لاسی، غلام رسول رونجھو سمیت متعدد زمینداروں، اساتذہ، طلبا، زرعی ماہرین اور کاروباری شخصیات نے شرکت کی۔
لسبیلہ زرعی میلہ کے موقع پر انٹرنیشنل ٹریڈ سینٹر پاکستان کے گراسپ پروجیکٹ سے منسلک ماہرین آغا بشیر، سیال خان کاکڑ اور آصف زہری بھی موجود تھے جنہوں نے جدید زرعی طریقوں، پانی کے بہتر انتظام، موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے نمٹنے کی حکمت عملیوں، اور فوڈ ویلیو چین کی بہتری سے متعلق اپنے تجربات شرکاء کے ساتھ شیئر کیے۔
میلے کی سب سے نمایاں خصوصیت لسبیلہ یونیورسٹی کے ماہرین کی کسانوں اور مالداروں کے ساتھ براہِ راست شرکت تھی، جنہوں نے مختلف تحقیقی منصوبوں، تجرباتی کاشتکاری، فصلوں کی جدید اقسام، جانوروں کی افزائش نسل، موسمیاتی پائیداری، اور قدرتی وسائل کے مؤثر استعمال کے حوالے سے قیمتی معلومات فراہم کیں۔ اس مکالماتی نشست نے مقامی کسانوں کو جدید تحقیق اور عملی تجربے کے امتزاج سے مستفید ہونے کا منفرد موقع دیا۔
میلے کی ایک اور اہم بات خواتین کسانوں کی بھرپور شرکت تھی، جو نہ صرف اپنے زرعی تجربات لائیں بلکہ فوڈ پراسیسنگ، مقامی ہنرمندی اور دیہی معیشت کے فروغ میں اپنی شمولیت کو اجاگر کیا۔ شرکاء نے مختلف اسٹالز کا دورہ کیا، جن میں جدید بیج، زرعی مشینری، حیوانی خوراک، غذائی مصنوعات، ماحولیاتی تحفظ، فوڈ ویلیو ایڈیشن اور مقامی دستکاریوں کی متنوع نمائش کی گئی۔
لسبیلہ زرعی میلہ میں شریک اوتھل کی معروف خاتون کسان زاہدہ لاسی نے کہا کہ زرعی میلہ نہ صرف کسانوں کے لیے معلوماتی اور رہنمائی کا ذریعہ ثابت ہوا بلکہ خواتین کے لیے بھی اپنی صلاحیتوں کے اظہار کا ایک شاندار پلیٹ فارم تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمیں پہلی بار محسوس ہوا کہ خواتین کسان بھی زراعت کے جدید تقاضوں اور موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے اقدامات میں برابر کی شراکت دار ہیں۔ ایسے میلوں سے دیہی خواتین کو خود اعتمادی ملتی ہے، معاشی خودمختاری کے دروازے کھلتے ہیں، اور روزگار کے نئے مواقع پیدا ہوتے ہیں۔

بیلہ کے علاقے جمن بٹ سے تعلق رکھنے والے زمیندار محمد عباس رونجھو نے کہا کہ یہ میلہ واقعی ایک تاریخی قدم تھا۔ ہمیں جدید کھیتی باڑی، بیجوں کے انتخاب، کھادوں کے متوازن استعمال، آبپاشی کے مؤثر طریقوں، اور موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے بچاؤ کے حوالے سے قیمتی معلومات حاصل ہوئیں۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ اب ہم ٹیکنالوجی اور پائیدار زراعت کو اپنی عملی زندگی کا حصہ بنانے کے لیے پُرعزم ہیں۔ زرسبز ایس ای پی اور انٹرنیشنل ٹریڈ سینٹر کی یہ کاوش بلوچستان کے کسانوں کے لیے ایک نئے دور کا آغاز ہے۔”
اسی طرح لسبیلہ یونیورسٹی کے طالب علم معراج احمد نے کہا کہ میلے نے نوجوانوں میں زراعت کے حوالے سے نیا جوش اور جذبہ پیدا کیا ہے۔ ان کے مطابق ہم نے دیکھا کہ کس طرح مقامی ادارے، طلبہ، محققین، زمیندار اور بین الاقوامی تنظیمیں ایک مقصد کے لیے اکٹھی ہوئیں۔ یہ صرف ایک میلہ نہیں بلکہ ایک تعلیمی اور سیکھنے کا تجربہ تھا، جس نے ثابت کیا کہ زراعت کو جدید علوم، سائنسی تحقیق، موسمیاتی شعور اور ڈیجیٹل ٹیکنالوجی سے جوڑ کر ہی حقیقی ترقی ممکن ہے۔
یہ تمام آراء اس بات کا ثبوت ہیں کہ زرعی میلہ محض ایک تقریب نہیں تھا بلکہ ایک عملی قدم تھا، جس نے مقامی کسانوں، طلبہ، ماہرین اور خواتین کو ایک ہی پلیٹ فارم پر لا کر بلوچستان میں جدید، پائیدار اور موسمیاتی طور پر محفوظ زراعت کے نئے دور کی بنیاد رکھی۔یہ تاریخی زرعی میلہ نہ صرف کسانوں کے لیے سیکھنے، جڑنے اور آگے بڑھنے کا موقع تھا بلکہ بلوچستان میں پائیدار زرعی ترقی، موسمیاتی لچک، اور غذائی خود کفالت کی سمت ایک مضبوط قدم بھی ثابت ہوا۔
اس میلے نے یہ واضح کر دیا کہ اگر نجی و سرکاری ادارے، تعلیمی تنظیمیں، اور بین الاقوامی پارٹنرز مشترکہ عزم کے ساتھ کام کریں تو بلوچستان کے کسان عالمی منڈیوں تک رسائی حاصل کر سکتے ہیں اور صوبے کی معیشت کو نئی قوت دے سکتے ہیں۔

شرکاء اور عوامی حلقوں نے اس میلے کو ایک مثبت، تعمیری اور تاریخی پیش رفت قرار دیا اور مطالبہ کیا کہ ایسے میلوں کا انعقاد سالانہ بنیادوں پر کیا جائے تاکہ کسانوں کی استعداد میں اضافہ ہو، موسمیاتی تبدیلی سے آگاہی بڑھے، جدید ٹیکنالوجی کا استعمال فروغ پائے، اور مقامی معیشت مزید مضبوط ہو۔
کیا اسے دیکھنا یاد ہے؟
کیا بیلہ اور لیاری کا ثقافتی ورثہ مٹ رہا ہے؟
ماحولیاتی تحفظ کی فرنٹ لائن: کیٹی بندر کے مینگرووز اور مقامی مچھیروں کی زندگی
لسبیلہ میں منعقد ہونے والا یہ زرعی میلہ بلوچستان کی تاریخ میں ایک اہم سنگِ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔یہ نہ صرف مقامی کسانوں کے لیے امید کی کرن ہے بلکہ ایک ایسی مثال بھی ہے جو یہ ثابت کرتی ہے کہ جب کمیونٹی، ادارے، خواتین، نوجوان اور ماہرین ایک مقصد کے لیے اکٹھے ہوں تو پائیدار اور موسمیاتی لحاظ سے محفوظ ترقی محض خواب نہیں بلکہ ایک قابلِ فخر حقیقت بن جاتی ہے
