فروزاں فروزاں کے مضامین

ماحولیاتی انصاف اور کاربن کالونیلزم: پاکستان میں سیلابوں کا اصل مجرم گلوبل نارتھ

گلوبل

پاکستان کاربن اخراج میں کم حصہ دار مگر سیلابوں کا بڑا شکار ہے۔ ماحولیاتی انصاف کا تقاضہ ہے کہ گلوبل نارتھ اپنے تاریخی جرائم کا اعتراف کرے۔


پاکستان سن 2010 تا سن 2022 اور اب سن 2025 میں ایک بار پھر تباہ کن اور جان لیوا سیلابوں کی زد میں آیا ہے ۔

یہ آفات ہزاروں انسانی زندگیاں نگل چکی ہیں۔ علاوہ ازیں کروڑوں لوگ متاثر ہو چکے ہیں۔ افسوس، مویشی مر گئے ہیں گاؤں اور بستیاں صفحہ ہستی سے مٹ گئی ہیں۔

پاکستان کا مقامی میڈیا ان سانحات کو زیادہ تر حکومتی نااہلی اور انتظامی غفلت سے تو جوڑتا ہے لیکن اس بیانیے میں ایک نہایت اہم اور تلخ حقیقت کو نظرانداز کیا جارہا ہے ۔

(Carbon Colonialism)وہ حقیقت یہ ہے کہ یہ سیلاب صرف بارشوں کا نہیں بلکہ کاربن کالونیلزم

کا نتیجہ ہیں۔ گلوبل نارتھ کے سرمایہ دارانہ ممالک دہائیوں سے اپنی معیشت کو فوسل فیول

کی لت پر کھڑا کیے ہوئے ہیں۔ (Fossil Fuel Addiction)

حتی کہ یہی ممالک سب سے زیادہ کاربن اور گرین ہاؤس گیسوں کا اخراج کرتے ہیں ۔ جبکہ ان کی صنعتی ترقی اور منافع کی ہوس پاکستان جیسے ممالک کے لیے مسلسل ماحولیاتی تباہی میں ڈھل چکی ہیں۔

اسی لئے بین الاقوامی ماحولیاتی ماہرین واضح کر چکے ہیں کہ پاکستان جیسے ممالک کاربن اخراج میں عالمی سطح پر ایک فیصد سے بھی کم حصہ ڈالتے ہیں۔

لیکن اس کے باوجود ہم دنیا کے سب سے زیادہ متاثرہ ممالک میں شامل ہیں۔ دوسری طرف امریکا، برطانیہ، یورپ، کینیڈا اور آسٹریلیا جیسے ممالک نے صدیوں سے فوسل فیول (کوئلہ، تیل اور گیس) جلا جلا کر کے اپنی معیشتوں کو ترقی دی ہے۔

لہذا یہ عمل نہ صرف گلوبل وارمنگ میں اضافے کا سبب بنا بلکہ غریب ممالک کی زمین، پانی اور زرعی وسائل کو تباہ کر گیا۔

نتیجتاً ان امیر اور طاقتور ریاستوں کے شہری تو محفوظ رہتے ہیں ترقی یافتہ انفراسٹرکچر اور جدید سہولیات سے مستفید ہوتے ہیں جبکہ کمزور ممالک میں زراعت تباہ ہوتی ہے ۔

حتی کہ گاؤں زیرِ آب آ جاتے ہیں اور لاکھوں لوگ بنیادی انسانی ضروریات سے محروم رہ جاتے ہیں۔ یہ ہے وہ ماحولیاتی نسل پرستی جس میں طاقتور اپنے وسائل اور ترقی کی چھتری میں محفوظ رہتے ہیں جبکہ کمزور ریاستیں اور انسان مسلسل ماحولیاتی تباہی اور معاشی نقصان کے بھنور میں پھنسے رہتے ہیں۔

گلوبل

یہ اب محض اخلاقیات کا سوال نہیں رہا کیونکہ معاملہ صرف یہ نہیں کہ گلوبل نارتھ کے سرمایہ دارانہ امیر ممالک کو“صحیح”یا“غلط”ثابت کرنے کے تناظر میں تنقید کی جائے۔

بلکہ یہ ایک سیاسی سوال بن چکا ہے ،کیونکہ یہ سرمایہ دارانہ کارپوریٹ نظام، عالمی طاقتوں کی پالیسیوں، معاہدوں اور بین الاقوامی ذمہ داریوں سے جڑا ہوا ہے۔

جب گلوبل نارتھ اپنی صنعتی ترقی سے پیدا ہونے والے کاربن اور گرین ہاؤس گیسوں کے اثرات کا ازالہ نہیں کرتا تو وہ صرف اخلاقی ذمہ داری سے نہیں بھاگ رہا بلکہ عالمی طاقت کے کھیل میں غریب ممالک کے وسائل اور انسانوں کی زندگیوں پر قبضہ بھی کر رہا ہے۔

یہ سیاسی سوال اس لیے بھی ہے کیونکہ عالمی قوانین، اقوامِ متحدہ کے معاہدے اور کلائمیٹ جسٹس کے اصول واضح کرتے ہیں کہ امیر ممالک معاوضہ دینے اور نقصان کو کم کرنے کے پابند ہیں۔ اقوامِ متحدہ کے لاس اینڈ ڈیمج میکنزم نے تسلیم کیا ہے کہ ترقی یافتہ ممالک ماحولیاتی نقصانات کے ازالے کے پابند ہیں۔

پیرس ایگریمنٹ کے آرٹیکل 8 میں ‘related Loss and Damage” Climate-“کو الگ اور سنجیدہ مسئلہ قرار دیا گیا ہے۔

سب سے اہم اصول یہ ہے کہ Polluter Pays Principle یعنی جس نے آلودگی پھیلائی ہے وہی اس کا معاوضہ دے۔

اگر وہ یہ نہیں کرتے تو نہ صرف پاکستان اور دیگر متاثرہ ممالک کے لیے نقصان بڑھتا ہے بلکہ عالمی نظام میں طاقت کے عدم توازن اور ناانصافی کی بنیادیں بھی مضبوط ہو جاتی ہیں۔

المیہ یہ بھی ہے کہ گلوبل نارتھ نے صدیوں تک فوسل فیول کی معیشت پر کھربوں ڈالرز کا منافع کمایا۔ ماحول اور انسانی زندگیوں کو برباد کیا اور اب عالمی سطح پر متاثرہ غریب ممالک کو حقیر سا معاوضہ دینے پر بھی راضی نہیں۔

یہ نہ صرف ناانصافی ہے بلکہ ماحولیاتی استحصالی کھیل اور ڈیزاسٹر کیپیٹلزم کی سب سے بدترین مثال بھی ہے۔

یہ بھی پڑھیں

کیا پاکستان صاف پانی کے ماحولیاتی چیلنجز سے نمٹنے کے لیے تیار ہے؟

گلگت بلتستان میں پہلی پی سی ایف کلائمیٹ یوتھ سمٹ کا انعقاد

پاکستانی عوام کو بھی گلوبل نارتھ کے سرمایہ دارانہ ممالک کی جانب سے خیرات، چندہ، خیمے یا وقتی ریلیف نہیں چاہیے۔

پاکستان کو امداد نہیں بلکہ براہِ راست ماحولیاتی تباہی و بربادی کا معاوضہ اور ازالہ چاہیئے۔ اور یہ ہمارا حق ہے کیونکہ یہ تباہی ہم نے پیدا نہیں کی ہے۔

اب اصل سوال یہ ہے کہ کیا دنیا کی بڑی معیشتیں اپنی دولت، ترقی اور منافع کی اصل قیمت چکانے پر تیار ہیں؟

کیا یہ طاقتور ممالک اپنے تاریخی ماحولیاتی جرائم کو صرف گرین واشنگ، ڈیزاسٹر کیپیٹلزم، جیو انجینئرنگ، اوشین فرٹیلائزیشن، سولر ریڈی ایشن مینجمنٹ، کاربن کیپچر اینڈ اسٹوریج اور دیگر سرمایہ دارانہ نوعیت کے مصنوعی حل، جعلی اقدامات اور پر فریب تیکنیکی اصلاحات کے ذریعے چھپاتی رہیں گی؟

یا پھر وہ اس تلخ حقیقت کو تسلیم کریں گے کہ ان کے صنعتی عمل اور فوسل فیول پر مبنی ترقی نے نہ صرف پاکستان جیسے ممالک میں تباہی مچائی بلکہ عالمی ماحولیاتی نظام کو بھی خطرے میں ڈال دیا ہے؟

اگر آج گلوبل نارتھ اپنے ماحولیاتی جرائم تسلیم نہیں کرتا اور اپنی ذمہ داریوں سے بھاگتا ہے تو یہ صرف پاکستان کے خلاف ناانصافی نہیں بلکہ پوری دنیا کے لیے ایک خطرناک نظیر بھی ہوگی۔

ماحولیاتی انصاف کا تقاضا ہے کہ امیر ممالک اپنے تاریخی جرائم کا اعتراف کریں۔ براہِ راست معاوضہ ادا کریں اور اپنی سرمایہ دارانہ ہوس زدہ پالیسیوں کو فوری طور پر تبدیل کریں۔

بصورت دیگر کل کا سیلاب صرف جنوبی ایشیا کو نہیں پوری دنیا کو بہا کر لے جائے گا۔

اپنا تبصرہ لکھیں