Melting of glaciers
یو این رپورٹ
موجودہ دور میں تازہ پانی کے ان بڑے ذخائر کا مکمل خاتمہ نہیں ہوا، تاہم انہیں آئندہ نسلوں کے لیے محفوظ بنانے میں تاخیر ہو چکی ہے۔ اگر گلیشیئر اسی رفتار سے پگھلتے رہے تو رواں صدی کے اختتام تک متعدد خطوں میں ان کا وجود مٹ جائے گا، جس سے میدانی علاقوں میں رہنے والے لاکھوں افراد متاثر ہو سکتے ہیں۔
گرین لینڈ، انٹارکٹیکا اور دنیا بھر کے گلیشیئرز زمین پر دستیاب تازہ پانی کے 70 فیصد ذخائر پر مشتمل ہیں۔ عام طور پر موسمیاتی توازن برقرار رہنے پر ان کے حجم میں تبدیلی نہیں آتی، لیکن عالمی درجہ حرارت میں اضافے کے باعث یہ برف تیزی سے پگھل رہی ہے۔ گلیشیئروں کی نگرانی کرنے والے عالمی ادارے کے مطابق 1975 سے اب تک دنیا بھر کے گلیشیئر تقریباً 9,000 ارب ٹن برف کھو چکے ہیں۔ یہ مقدار جرمنی کے رقبے پر 25 میٹر موٹی برفانی تہہ کے برابر ہے۔
ماہرین کے مطابق 2000 کے بعد ہر سال تقریباً 273 ارب ٹن برف پگھل رہی ہے، جو کہ پانی کی اس مقدار کے برابر ہے جو دنیا بھر کے انسان 30 سال میں استعمال کرتے ہیں۔ یورپ میں کوہ الپس کے گلیشیئرز 40 فیصد تک کم ہو چکے ہیں اور اگر یہی صورتحال برقرار رہی تو رواں صدی کے آخر تک یہ مکمل طور پر ختم ہو سکتے ہیں۔
عالمی موسمیاتی تنظیم کی رپورٹ کے مطابق بڑھتے ہوئے درجہ حرارت اور انسانی سرگرمیوں کے باعث پیدا ہونے والی موسمیاتی تبدیلیوں سے برف کی تہیں غیرمعمولی رفتار سے ختم ہو رہی ہیں۔ اگر گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں کمی نہ آئی تو یورپ، مشرقی افریقہ، انڈونیشیا اور دیگر خطوں میں 80 فیصد چھوٹے گلیشیئرز ختم ہونے کا خدشہ ہے۔
ہندوکش کے پہاڑی سلسلے، جو افغانستان سے پاکستان تک پھیلا ہوا ہے، میں 120 ملین سے زائد کسانوں کے لیے گلیشیئرز پانی کا بنیادی ذریعہ ہیں۔ یہ خطہ اپنے وسیع برفانی ذخائر کی وجہ سے ’دنیا کا تیسرا قطب‘ کہلاتا ہے۔ تاہم، یہاں گلیشیئرز کے پگھلنے سے لاکھوں کسانوں کے مویشی اور روزگار متاثر ہو رہے ہیں۔
ماحولیاتی ماہرین کے مطابق گلیشیئرز کے پگھلنے سے سمندری سطح میں اضافہ ہو رہا ہے، جو کہ دنیا بھر میں کئی ساحلی علاقوں کے لیے خطرہ بن سکتا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق ہر سال سمندر کی سطح میں ایک ملی میٹر اضافے کی بنیادی وجہ گلیشیئرز کے پگھلاؤ ہے، جو لاکھوں افراد کو نقل مکانی پر مجبور کر سکتا ہے۔
عالمی موسمیاتی تنظیم کے مطابق 2022 سے 2024 کے درمیان گلیشیئرز میں ہونے والی برفانی کمی، تین سالہ مدت میں سب سے زیادہ ریکارڈ کی گئی ہے۔ ماہرین خبردار کر رہے ہیں کہ اس تیزی سے ہونے والی برفانی کمی کے اثرات بعض اوقات ناقابل واپسی ہو سکتے ہیں۔
21 مارچ کو دنیا بھر میں گلیشیئرز کا عالمی دن منایا جاتا ہے تاکہ عوام میں ان برفانی ذخائر کی اہمیت اور انہیں لاحق خطرات کے حوالے سے شعور اجاگر کیا جا سکے۔ 22 مارچ کو پانی کا عالمی دن بھی اسی مقصد کے تحت منایا جاتا ہے۔ نیویارک میں اقوام متحدہ کے صدر دفتر میں عالمی رہنما، سائنس دان اور ماحولیاتی ماہرین گلیشیئرز کی بقا اور ان کے تحفظ کے لیے تبادلہ خیال کریں گے۔
امریکہ کی ریاست واشنگٹن میں واقع ’ساؤتھ کیسکیڈ گلیشیئر‘ کو اس سال کا سب سے مستحکم گلیشیئر قرار دیا گیا ہے۔ اس گلیشیئر کی 1952 سے مسلسل نگرانی کی جا رہی ہے اور اس میں بڑی تبدیلیاں دیکھنے میں نہیں آئیں۔ یو ایس جیالوجیکل سروے کی تحقیق کار کیٹلن فلورنٹائن کے مطابق یہ گلیشیئر سائنسی تحقیق اور ماحولیاتی استحکام کی ایک منفرد مثال ہے۔
گلیشیئرز کے پگھلنے سے دنیا بھر میں پانی کی دستیابی، زراعت، معیشت اور انسانی بقا کو شدید خطرات لاحق ہو رہے ہیں۔ اس ماحولیاتی بحران سے نمٹنے کے لیے فوری اقدامات، پالیسی میں اصلاحات اور عوام میں شعور بیدار کرنے کی ضرورت ہے تاکہ آئندہ نسلوں کے لیے ان قیمتی برفانی ذخائر کو محفوظ رکھا جا سکے۔
گلگت بلتستان میں مارخور کا غیر قانونی شکار دو ہفتوں میں دوسرا واقعہ، جنگلی حیات…
دنیا موسمیاتی بحران کا مقابلہ نہیں کر سکتی جب تک شہر، میئرز اور مقامی اداروں…
قدرتی آفات کے باعث کسانوں اور ماہی گیروں کا 99 ارب ڈالرز کا سالانہ نقصان…
عالمی شہری توسیع تیزی سے بڑھ رہی ہے اور کراچی موسمیاتی خطرات، آبادی دباؤ، شہری…
ہنزہ کا ہینگنگ گلیشیر موسمیاتی تبدیلی، آلودگی اور برفانی تودوں کے بڑھتے واقعات سے خطرے…
کراچی کی تاریخی عمارتوں کا تحفظ، زبوں حال قدیم عمارتیں اور ثقافتی ورثے کو بچانے…
This website uses cookies.