ماہرین ماحولیات، سائنسدان اور منصوبہ ساز اب سیاست، معاشرت اور پالیسی سازی میں دخیل ہو کر ایک نئی پیشہ ورانہ دنیا تشکیل دے رہے ہیں۔
ڈاکٹرشہزادہ ارشاد محمد

کبھی زمانہ ایسا بھی تھا جب دنیا اتنیجڑی ہوئی نہ تھی۔ ہر پیشہ اپنے قلعے کی طرح مضبوط اور الگ تھلگ ہوتا۔
ماہرین ماحولیات صرف کیڑوں مکوڑوں پر تحقیق کرتے ۔Ecologist
اور ماہرین آب و ہو (موسمیات) صرف موسم کی فکر میں رہتے۔ Climatologist
ماہرین ارضیات دان) خوشی خوشی ہتھوڑے سے چٹانیں توڑتے ۔) Geologist جبکہ کہ
ماہرین قصبہ ساز/شہری منصوبہ )ساز ٹریفک کے بہاؤ کے پیچھے سر کھپاتا۔ ) Town Planner حتی کہ
پھر آہستہ آہستہ سرحدیں مدہم پڑنے لگیں۔ کہیں مشترکہ پاور پوائنٹ پریزنٹیشن، کہیں بین اللسانی ورکشاپ۔رفتہ رفتہ وہ باریک تعلیمی باڑیں نہ صرف ٹوٹ گئیں بلکہ ملیامیٹ ہو گئیں۔
نتیجہ یہ نکلا کہ ایک رنگا رنگ، خوشگوار مگر بالکل بے ہنگم دُنیا وجود میں آگئی، جہاں ہر کوئی ہر چیز کا ماہر ہے، اور کوئی بھی پُریقین نہیں کہ اس کا اصل کام ہے کیا۔محوِ حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہوجائے گی۔
Lobbyist ہمارا لطیف مزاج اور نرم دل Ecologist بن گیاہے۔جو Ecologist (ماہرین ماحولیات)
جواپنے من میں ڈوب کراب ایک جتھ ساز تتلیاں گِننے اور کائی کی افزائش نوٹ کرنے میں خوش رہتا تھا، اچانک چونک اٹھا ”اوہ خُدایا! یہ سب جاندار تو مرتے جا رہے ہیں۔ کوئی کچھ کرے”ََ۔
لہذا اُس نے اپنے کھردرے بوٹ چھوڑ کر چمکدار آکسفورڈ جوتے پہن لیے، اور فیلڈ نوٹس کی جگہ پالیسی بریف ہاتھ میں لے لی۔
اب وہ ماحولیاتی توازن کی بجائے، سیاست دانوں کو غائب ہوتے بھُنوروں اور بٹیروں کے معاشی اثرات سمجھا رہا ہے۔
اکثر زیرِ لب بڑبڑاتابھی رہتا ہے،”کاش یہ لوگ شکاری اور شکار کے نازک رشتے کو سمجھ پاتے، تو جان لیتے کہ پلاسٹک پر ٹیکس چھوٹ دینا قیامت کو دعوت دینا ہے!”آہ۔ کس قدر حیران کن ہے گردشِ دورِ فلک۔
جو اب لائف کوچ بن گیا ہے۔ Climatologist (ماہر آب و ہوا)
Climatologist اپنے ماڈلز پر جھُک کر گمبھیر لہجے میں کہتا ہے ”گرمی بڑھ رہی ہے… بہت بڑھ رہی ہے۔”لیکن صرف ڈیٹا پیش کرنے پر اکتفا کرنے کے بجائے، وہ دوسروں کیپیشانیوں پر بہتے پسینے کو دیکھنے لگاہے”۔
اے کاش اگر لوگ زیادہ ری سائیکل کرلیں، کار پول کیا کریں … تو گلوبل وارمنگ کی ایسی نوبت نہ آے”۔
یوں وہ شخص جو صرف ملی بار اور درجہ حرارت کی بے قاعدگی کی زبان بولتا تھا، اب کمپوسٹ بنانے اور سبزی خور خوراک کے روحانی فوائد پر نصیحتیں بانٹ رہا ہے۔
اس کے پاور پوائنٹس میں اب ایسے سلائیڈز شامل ہیں,Atmospheric Carbon &Your Personal Wellness Journey”’۔ خوف بڑھتا جا رہا ہے صورتِ طوفان کا۔
Environmentalist (ماحولیاتی کارکن)
جس نے شومئی قسمت سائنس کی کتاب پڑھ لی ہیبرسوں تک اس کا نعرہ سیدھا سادہ سا تھا: ”Save the Earth!”۔
لیکن پھر اس نے سائنس دانوں کی سننی شروع کردی۔ اب اس پہ ناگہانی ایسے عقدیکھلنے لگے۔”کیا؟ معاملہ صرف بلب بند کرنے کا نہیں بلکہRadiative Forcing اور Ocean Acidification کے پیچیدہ چکر کا بھی ہے؟”اب آپ اسے جلسوں میں سائنس کی اصطلاحات اور تحقیقی حوالوں کے ساتھ Carbon Capture Technology کے حق میں تقریریں کرتے دیکھیں گے، اور ساتھ کھڑے آئیں درختوں کو گلے لگائیں کہنے والے، ریلیاں نکالنے والے اس کے ساتھی کارکن حیرت سے اس کا منہ تک رہے ہوں گے۔
Sustainablist (friendly and zero waste lifestyl -Sustainable, ecoماحولیاتی و معاشی پائیداری کا علمبردار)
جو اب ناگہاں سب کچھ کرنے پر تُل گیاہے۔اس کا مقصد ہمیشہ ”فاصلوں اور تفاوتوں کو پاٹنا” رہاتھا۔ مگر وہ اتنا کامیاب ہوا کہ اب اسے حکم ملا ہے کہ ایک ایسی عمارت ڈیزائن کرے جو بیک وقت Zero-Waste، Carbon-Neutral، Socially Equitable، Biodiversity Positive-، aesthetically pleasing اور culturally sensitive ہو۔۔۔ ساتھ ہی وہ کمیونٹی باغ اور Data Center بھی ہو، اور وہاں صرف Trade Coffee۔Fariملے۔ ”ترے جمال سے ہٹ کر بھی ایک دنیا ہے۔ یہ سیرچشم مگر کب ادھر کو دیکھتے ہیں“۔
Geologist (ارضیات دان)
جس نے ”.impactاثر” دریافت کیاہمارا loving Geologist۔Rockصرف کروڑوں سال کے ارضیاتی تغیرات کو جانتا تھا۔پھر کسی نے اسے نئی کان کنی کے ”Environmental Impact” کا جائزہ لینے کہا۔Impact؟کیا یہ کٹاؤ یا Sedimentation سے متعلق ہے؟”اب وہ مجبوراً Community Displacement، Indigenous Rights اور term Ecological Footprint Long -جیسے مسائل پر بات کرنے لگا ہے۔ مگریہ سب اُس کے صاف ستھرے ارضیاتی خاکوں سے کہیں زیادہ اُلجھا ہوا ہے۔
Town Planner (شہری منصوبہ ساز) جو Habitat Designer بن گیا
اس کے ہاں زندگی زوننگ قوانین اور ٹریفک نقشوں میں سمٹتی تھی۔لیکن ایک Environmentalist نے اُسے گلہریوں کے ”Migration Corridors” دکھا دیے۔اب اُس کے نقشے میں friendly Medians، Pigeon-friendly Streetlights Pollinator- اور قبرستانوں میں آباد خاردارسیہی Hedgehog Sett کی بود و باس اور”-Economic Impact Assessment” Socio -وغیرہ شامل ہے۔
Botanist (نباتات دان) جواب شہری جنگل میں اُتر آیاہے۔
یہ صاحب کبھی صرف Chlorophyll کی خاموش دنیا اور لاطینی ناموں میں کھوئے رہتے تھے۔مگر اب ہاتھ میں Clipboard لے کر کسی Lawn کو ویسے ہی جانچتے ہیں جیسے برساتی جنگل کو۔گھاس کی ایک ایک جھاڑی، جڑی بوٹیاں اور کونپل کودیکھ کر پکار اٹھتے ہیں۔۔!” Ah, Taraxacum officinaleیہ ایک شاندار Pioneer Species ہے۔ کاش آپ اس کی Ecosystem Services سے فائدہ اٹھاتے!”
Horticulturist (ماہر باغبانی)
جسے اب کمرشیل لینڈ سکیپرز اور فلسفی نماء آرکیٹیکٹس سے نبٹتے نبٹتے مستقل خفقان چڑھ گیا ہے۔یہ بندہ ہاتھ مٹی میں رولنے والارہا ہے۔ اس کی دوستی زیر زمین کینچووں،اتراتی اٹھلاتی تتلیوں، گنگناتے بھنوروں سے تھی اور اُس کے نزدیک ہر مسئلے کا حل فقط دھوپ، پانی اور بیج رہے ہیں۔اب وہProjects Meetings جیسے نام نہاد ادراتی اصطلاحات اور ”Ecosystem Services” جیسے الفاظ سے بیزار ہے۔اکثرچیخ کر پوچھتا ہے “آپ سب Sustainability Metrics پر بحث کرتے ہیں، لیکن کیا کسی نے کبھی واقعی ایک بھی درخت لگایا ہے؟”
Marine Scientist (بحری سائنس داں)
جواب سمندر اپنے دفتر لے آیاہے۔یہ سمندر کی گہرائیوں اور بے پاؤں مخلوقات اور مونگے کی چٹانوں کے بیچ بود و باس کرتی آبی حیاتیات کا عاشق رہا ہے۔مگر جب اسے Urban Sprawl پر میٹنگ میں بٹھایا جاتا ہے تو ہکا بکا رہ جاتا ہے۔”اسے کہنا پڑتا ہے کہ میں نے 10,000 فٹ کی گہرائی پر مخلوق کو شدید دباؤ سہتے دیکھا ہے۔ یہ معمولی Suburban Runoff؟ بس ایک Minor Fluctuation ہے!”۔ اب وہ نئے Sewer System کو بھی ”Hydrothermal Vent Community” کہہ کر بیان کررہا ہوتا ہے۔
وہ کیوں پیچھے رہ جائیں۔ Politicians (ماہر سیاست داں)
آپ اکثر ان کے ارشادات سنتے اور سر دھنتے ہوں گے، خصوصا جب بھی سیلاب آتا ہے،زخم ہرے ہوجاتے ہیں۔ ان کے ”نایاب” جملے عوام کو بہا لے جاتے ہیں: مثلا:
”جب بارش آتا ہے تو پانی آتا ہے۔ جب زیادہ بارش آتا ہے تو زیادہ پانی آتا ہے۔”
”بارش کی وجہ سے رین ہوئی ہیں۔”
”خیرپور ضلع سیلاب میں ڈوباہو تو وینس کا منظر پیش کرتا ہے۔”
اورآجکل! موسم بدلا رت گدرائی اور اہل جنوں بیباک ہوئے۔ کی کیفیات ہیں۔ ارشاد ہوتاہے:
مون سون کو رحمتِ خداوندی سمجھا جائے اور عوام پانی کو ٹبوں اور بالٹیوں میں ذخیرہ کر لیں۔
ایک اعلی سطح کی کانفرنس کی روداد کے مطابق۔ سندھ میں مویشیوں کی کل آبادی 4 کروڑ 99 لاکھ 52 ہزار ہے (لائیو اسٹاک مردم شماری 2024 کے مطابق)۔
اب تک 6 لاکھ 52 ہزار مویشیوں کو محفوظ مقامات پر منتقل کیا گیا ہے۔ اب اس دعوے کی تصدیق مویشی ہی کرسکتے ہیں۔
اگروہ کہہ پاتے تو کہتے کہ ع۔ آدمی کوئیہمارا دم تحریر بھی تھا! ساری آوبھگت چوپایوں کی ہے،بے چاری دو پاٗوں والی مخلوق کا بھی کسی نے پوچھا ؟
صاحبو و مہربانو! حاصل کلام یہ ہے کہ ع۔ ہوتاہے شب و روز تماشہ مرے آگے۔
یہ بھی پڑھیں
ماحولیاتی انصاف اور کاربن کالونیلزم: پاکستان میں سیلابوں کا اصل مجرم گلوبل نارتھ
بائیوڈائیورسٹی (حیاتیاتی تنوع): موسمیاتی تبدیلی کے منفی اثرات کی زد میں
اس رنگ برنگی مگر الجھی ہوئی دنیا میں ایک بات تو واضح ہے کہ سرحدیں صرف دھندلی نہیں ہوئیں، پوری طرح مٹ گئیں ہیں۔
اب ہر مداری اپنی ڈگڈگی بجایجا رہا ہے اور اسکے اشاروں پہ ناچنے والے بندرمی رقصم کی تصویر بنے طوعا و کرہا ناچتے چلے جارہے ہیں، ناچتے چلے جارہے ہیں۔ ع۔ رقص کناں ہوں اک رسی پر۔ اور توازن بگڑ رہا ہے مرا
ٹاؤن پلانر اور ماہر سمندری سائنسدان، میونسپل سوئمنگ پول کے ہائیڈروڈینامکس پر جھگڑ رہے ہیں، جبکہ ماہر نباتات اور ماہر باغبان بحث کر رہے ہیں کہ کیا گارڈن گنوم مقامی نوع ہے یا نہیں۔
اور باقی ہم؟ بہتر یہی ہے کہ آرام سے بیٹھیں، مقامی طور پرگٹر باغیچے میں اگائے گئے پاپ کارن ہاتھ میں لیں، اور یہ تماشہ دیکھتے رہیں۔