دنیا کی 56٪ آبادی شہروں میں رہتی ہے جو توانائی کے 75٪ استعمال اور کاربن کے 70٪ اخراج کے ساتھ موسمیاتی تبدیلی کی اصل قوت ہیں۔

گزشتہ چند دہائیوں میں دنیا بھر میں موسمیاتی تبدیلی کے اثرات نے زندگی کے ہر پہلو کو متاثر کیا ہے۔ شدید گرمی، ب ے وقت کی بارشیں، سیلاب، خشک سالی اور سمندری طوفانوں نے انسانیت کو نئے خطرات سے دوچار کر دیا ہے۔
اکثر یہ سمجھا جاتا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی ایک دیہی یا قدرتی ماحولیاتی مسئلہ ہے، مگر حقیقت یہ ہے کہ اس بحران کی جڑیں زیادہ تر شہری مراکز میں پیوست ہیں۔ دنیا کی نصف سے زائد آبادی اب شہروں میں رہتی ہے۔
اقوام متحدہ کے ورلڈ ہیبیٹاٹ پروگرام کی جاری کردہ رپورٹ 2022 کے مطابق شہر عالمی کاربن گیسوں کے اخراج کا تقریباً 70 فیصد ذمہ دار ہیں۔ اگر شہروں کی پالیسیوں اور طرزِ زندگی میں تبدیلی نہ کی گئی تو عالمی درجہ حرارت میں کمی کے ہدف کو حاصل کرنا تقریباً ناممکن ہو جائے گا۔
شہروں کا موسمیاتی تبدیلی میں بڑھتا ہوا کردار
دنیا بھر میں شہری علاقے انسانی سرگرمیوں کے سب سے بڑے مراکز ہیں۔ یہاں صنعتیں، ٹرانسپورٹ، توانائی کا استعمال، تعمیرات اور انسانی نقل و حرکت اپنے عروج پر ہوتی ہے۔ یہ حقیقت بھی بہت سنگین ہے کہ ان سرگرمیوں کے نتیجے میں بڑی مقدار میں گرین ہاؤس گیسیں خارج ہوتی ہیں جو فضاء میں جمع ہو کر عالمی حدت میں اضافہ کرتی ہیں۔
اربنائزیشن اور کاربن اخراج
عالمی بینک کی 2023 میں جاری کی جانے والی رپورٹ کے مطابق، دنیا کی آبادی کا تقریباً 56 فیصد شہروں میں رہتا ہے۔ اور یہ حصہ 2050 تک 68 فیصدتک پہنچنے کا امکان ہے جب کہ عالمی سطح پر توانائی کا 75 فیصد استعمال بھی شہروں میں ہوتا ہے، اور کاربن ڈائی آکسائیڈ کے 70فیصد اخراج کا منبع بھی یہی شہر ہیں۔ گاڑیوں کی کثرت، بجلی گھروں کا بوجھ، ایئرکنڈیشنرز اور غیر پائیدار تعمیرات اس اخراج کو کئی گنا بڑھا دیتے ہیں۔
شہری گرمی کا اثر (Urban Heat Island Effect)
شہروں میں عمارتوں، سڑکوں اور کنکریٹ کے پھیلاؤ نے قدرتی سبزہ زاروں کو ختم کر دیا ہے۔ چناچہ شہروں کا درجہ حرارت آس پاس کے دیہی علاقوں سے کئی درجے زیادہ ہو جاتا ہے۔ مثال کے طور پر کراچی میں گرمی کی لہروں کے دوران شہری گرمی کا اثر واضح طور پر محسوس کیا جا رہا ہے، جس کے نتیجے میں سینکڑوں لوگ جاں بحق اور ہزاروں شدید متاثر ہو رہے ہیں۔
اب صورتحال یہ ہے کہ تیسری دنیا کے بیشتر شہر اب گرمی کا جزیرہ بن چکے ہیں اور پاکستان سمیت بڑے شہروں میں گرمی کی شدت اور دورانیے میں مسلسل اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔
کمزور شہری منصوبہ بندی اور ماحولیاتی بگاڑ
بیشتر ترقی پذیر ممالک، جن میں پاکستان بھی شامل ہے، شہری منصوبہ بندی سائنسی بنیادوں پر نہیں کی جاتی۔ نتیجتاً شہر پھیلاؤ، آلودگی اور ماحولیاتی تنزلی کے گڑھ بن چکے ہیں جس کی وجہ سے موسمیاتی تبدیلی کی شدت میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔
گرین اسپیسز کی کمی
شہری علاقوں میں پارکس، درختوں اور سبزہ زاروں کی تعداد نہ ہونے کے برابر رہ گئی ہے کیوں کہ مختلف منصوبوں کی آڑ میں درختوں کی کٹائی کا عمل بلا روک ٹوک جاری ہے جب کہ نئی تعمیرات میں ماحول دوست ڈیزائن کو شاذ و نادر ہی ترجیح دی جارہی ہے۔
ٹرانسپورٹ کا غیر پائیدار نظام
فی الوقت پبلک ٹرانسپورٹ کے بجائے پرائیویٹ گاڑیوں پر انحصار بڑھ چکاہے۔ لہذا ایندھن کا کا زاءد استعمال اور فضائی آلودگی دونوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔ پاکستان کے دو بڑے شہروں لاہور اور کراچی میں فضائی آلودگی کی بلند شرح اس کا واضح ثبوت ہے۔
فضلے اور پانی کا ناقص انتظام
واضع رہے کہ نکاسی آب، کچرا ٹھکانے لگانے اور سیوریج کے نظام میں کمزوریاں موسمیاتی اثرات کو مزید شدت دیتی ہیں۔ مون سون بارشوں کے دوران بڑے شہروں میں پانی بھر جانا اور نالوں کا ابل پڑنا ایک معمول بن چکا ہے کیوں کہ شہروں میں پانی کی نکاسی کے نالوں پر اداروں کی ملی بھگت سے تعمیرات کر لی گئی ہیں۔
سول سوسائٹی کا بڑھتا ہوا کردار
موسمیاتی تبدیلی کے خلاف جنگ صرف حکومتوں تک محدود نہیں رہی۔ سول سوسائٹی جس میں مقامی تنظیمیں، تعلیمی ادارے، میڈیا، ماحولیاتی کارکنان، طلبہ گروپس اور عام شہری شامل ہیں۔جو بالخصوص دنیا کے ترقی یافتہ ملکوں میں ایک فیصلہ کن قوت کے طور پر سامنے آ رہے ہیں۔
لیکن اس حوالے سے پاکستان سمیت دنیا کے ترقی پذیر ممالک میں سول سو سائٹی کی صورتحال کچھ زیادہ بہتر نظر نہیں آتی جس کی بنیادی وجہ موسمیاتی اور ماحولیاتی تبدیلی کے حوالے سے آگہی کا فقدان ہے۔
آگہی اور مہمات
پاکستان سمیت ترقی پذیر ممالک میں سول سوسائٹی کا ایک حصہ فعال ہے جو موسمیاتی مسائل پر عوامی شعور بیدار کرنے میں کلیدی کردار ادا کر رہی ہے۔ مختلف شہروں میں درخت لگانے کی مہمات، پلاسٹک کے استعمال کے خلاف تحریکیں، اور ماحولیاتی تعلیم کے پروگرام مختلف مہمات کا حصہ ضرور ہیں لیکن ان میں اتنی شدت نہیں پائی جاتی جس کی ضرورت ان ملکوں کو ہے۔موسمیاتی تبدیلی میں شہروں کا کردار کیا ہوگا یا ہونا چاہیے؟ اسے واضح کرنے کے لئے مضبوط آگہی اور مہمات کی اشد ضرورت ہے۔
پالیسی پر دباؤ
یہ امر بھی اپنی جگہ موجود ہے کہ کئی مواقع پر سول سوسائٹی نے مقامی اور صوبائی حکومتوں کو ماحول دوست پالیسیاں بنانے پر مجبور کیا۔ مثال کے طور پر لاہور میں شہریوں اور عدالتوں کے دباؤ کے باعث درختوں کی کٹائی کے کئی منصوبے روکے گئے۔
نوجوانوں کا کردار
یوتھ نیٹ ورکس اور طلبہ تنظیمیں بھی آگہی پھیلا رہی ہیں اورعملی منصوبوں جیسے ”اربن فارسٹنگ”، ری سائیکلنگ اور پانی بچاؤ کے پروگرامز میں بھی سرگرم ہیں۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ نوجوانوں کو اس سلسلے میں زیادہ سے زیادہ متحرک کیا جائے۔
کامیاب ماڈلز اور مثالیں
دنیا کے مختلف شہروں نے شہری منصوبہ بندی اور سول سوسائٹی کی شراکت سے موسمیاتی چیلنجز سے نمٹنے کی کامیاب مثالیں قائم کی ہیں مثلا
Curitiba (برازیل)
یہ شہر دنیا کا پہلا ماڈل ہے جس نے کم لاگت اور ماحول دوست پبلک ٹرانسپورٹ نظام متعارف کرایا، جس کے بعد کاروں کے استعمال میں نمایاں طور پر کمی واقع ہوئی۔
سٹیز انیشیٹو۔سی40
دنیا کے 100 سے زائد بڑے شہر اس عالمی نیٹ ورک کا حصہ ہیں، جہاں وہ موسمیاتی پالیسیوں، کاربن میں کمی، صاف توانائی اور گرین اربن منصوبوں پر مل کر کام کر رہے ہیں۔
پاکستان میں مثالیں
کراچی میں موسمیاتی تبدیلی میں شہروں کا کردار اس حد تک تو قابل ستائش ہے کہ شہری گروپس نے مختلف منصوبوں کے ذریعے بنجر زمین کو سرسبز کیا۔ لاہور میں سول سوسائٹی نے درختوں کی حفاظت اور فضائی آلودگی کے خلاف کامیاب مہمات چلائیں۔ علاوہ ازیں اسلام آباد میں طلبہ گروپس اور NGOs نے پلاسٹک بیگز پر پابندی کے نفاذ میں کردار ادا کیا۔ اس کے ساتھ کئی شہری گروپس نے عدالتوں سے بھی رجوع کیا۔

آگے کا راستہ: شراکت داری اور عملی اقدامات
مستقبل کی منصوبہ بندی کے لیے ضروری ہے کہ شہروں کی پالیسیوں کو ماحول دوست خطوط پر استوار کیا جائے اور سول سوسائٹی کو بامعنی کردار ادا کرنے دیا جائے۔
شہری منصوبہ بندی میں گرین انفراسٹرکچر کو مرکزی اہمیت دی جائے۔ ٹرانسپورٹ، توانائی اور تعمیرات میں کاربن کمی کے ہدف واضح کیے جائیں۔
سول سوسائٹی، مقامی حکومتوں اور نجی شعبے کے درمیان مؤثر شراکت داری قائم کی جائے۔
عوامی شرکت کو فیصلہ سازی کا حصہ بنایا جائے تاکہ پالیسیاں صرف کاغذوں تک محدود نہ رہیں۔
شہر موسمیاتی تبدیلی کے سب سے بڑے مجرم بھی ہیں اور اس کے حل کی سب سے بڑی امید بھی۔
اگر ہم شہری زندگی کو پائیدار، ماحولیاتی اصولوں پر مبنی اور عوامی شمولیت کے ذریعے تشکیل دیں تو موسمیاتی بحران کا رخ بدلا جا سکتا ہے۔
سول سوسائٹی کی مزاحمت، شراکت اور عمل ہی وہ طاقت ہے جو شہروں کو ماحولیاتی تباہی کے مراکز سے پائیدار ترقی کے نمونوں میں بدل سکتی ہے۔ یہ لڑائی صرف حکومتوں کی نہیں یہ ہم سب کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔

حوالہ جات
UN-Habitat. (2022). World Cities Report.
World Bank. (2023). Urban Development Data.
IPCC. (2023). AR6 Synthesis Report.
C40 Cities Initiative. (2024). Annual Climate Action Report.
WWF Pakistan. (2022). Urban Environmental Challenges in Pakistan.