فروزاں کے مضامین

موسمیاتی تبدیلی نے صحافیوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا

باجوڑ میں گرمی کی شدت میں ریکارڈ اضافہ ہوا ہے جس کی وجہ سے صحافیوں کے پیشہ ورانہ کام پر منفی اثرات ہوئے ہیں۔

جولائی کا مہینہ اور دن بارہ بجے کا وقت ہے تپتی دھوپ میں کندھے پر کیمرے کا ٹرائی پارٹ لئے اپنے پیشہ وارانہ کام میں مشغول صحافی قیاس خان دو مہینے بعد ایک فیلو شپ کی ویڈیو پیکج کی ریکارڈنگ کے سلسلے میں فیلڈ ورک کے لئے گھر سے نکلا ہے۔

پاکستان کے نسبتا سرد قبائلی علاقہ ، ضلع باجوڑ میں کام کرنے والے صحافی قیاس خان کا فیلڈ میں کم کام کرنے کی بنیادی وجہ گرمی کی شدت میں اٖضافہ ہے۔ ہر سال گرمی کا پارہ مسلسل بلند ہورہا ہے۔


قیاس ایک نوجوان صحافی ہے اور پچھلے 12سالوں سے صحافت کے میدان میں اپنی ذمہ داری سر انجام دے رہا ہے۔ باجوڑ میں رواں سال گرمی کی شدت میں ریکارڈ ا اضافہ ہوا ہے جس کی وجہ سے دیگر شعبوں کے کاروبار کے ساتھ ساتھ اس نے صحافیوں کے پیشہ وارانہ کام پر بھی برے اثرات مرتب کئے ہیں۔


قیاس نے بتایاکہ وہ ملکی اور غیر ملکی نشریاتی اداروں کے ساتھ فری لانس صحافی کے طور پر کام کرنے کے ساتھ باجوڑ ٹائم کے نام سے اپنی ایک نیوز ویب سائٹ چلا رہا ہے۔

سوشل میڈیا پر بھی اس کے پیجز موجود ہیں جس پر مستند خبریں ویڈیوز اور ٹیکسٹ کے شکل میں پوسٹ کئے جاتے ہیں۔جس کی وجہ سے ان کے سوشل میڈیا پر لاکھوں کی تعداد میں فالورز ہیں جن کا تعلق نہ صرف باجوڑ سے ہے بلکہ پورے باکستان اور بیرونی ممالک میں بھی ان کے معقول تعداد میں فالورز موجود ہیں۔

نا کا کہنا ہے کہ ہم پہلے روزانہ کے بنیاد پر ویڈیوز اور ٹیکسٹ سٹوریز پوسٹ کرتے تھے لیکن اب گرمی کی شدت میں اضافہ کے وجہ سے اس میں ستر فیصد کمی آئی ہے کیونکہ گرمی کی شدت، وسائل کی کمی اور ہیٹ ویو سے بچنے کے حوالے سے مناسب ٹریننگ نہ ہونیکی وجہ سے فیلڈ میں جانا چھوڑ دیا ہے۔


قبائلی ضلع باجوڑ کا شمارخیبر پختون خواہ کے شمالی اور نسبتا ٹھنڈے علاقوں میں ہوتا ہے اور یہی وجہ تھی کہ یہاں پر موسم معتدل رہتا تھا لیکن پچھلے ایک عشرے سے یہاں پر بتدریج گرمی میں اضافہ ہونا شروع ہوا ہے جس میں ہر سال شدت آرہی ہے۔

باجوڑ میں باقاعدہ درجہ حرارت ریکارڈ کرنے کا کوئی انتظام موجود نہیں ہے لیکن آن لائن ایپس کے ڈیٹا کے مطابق ، اپریل سے گرمی شروع ہوئی تھی اورمئی سے لیکر جولائی کے دس تاریخ تک باجوڑ کا درجہ حرارت 35 سنٹی گریڈ سے لیکر 41 س ڈگری سینٹی گریڈ رہا جو پچھلے سالوں کے مقابلے میں پانچ سے آٹھ سنٹی گریڈ زیادہ تھا۔

باجوڑ میں کام کرنے والے رجسٹرڈ صحافیوں کی تعداد پینتالیس تک ہے جبکہ اس کے علاوہ سوشل میڈیا پر بھی کئی نوجوان صحافی سرگرم ہیں جو سوشل ایشوز کے علاوہ حالات حاضرہ اور دوسرے امور پر رپورٹینگ کررہے ہیں۔

محمد یونس بھی روزنامہ پاکستان کے علاوہ سوشل میڈیا پر اپنے نام سے دو پیجز پر لوگوں کو باخبر رکھنے کے لئے باجوڑ اور ملحقہ اضلاع کی خبریں پوسٹ کررہا ہے اور ان کے بھی معقول فالورز ہیں۔

اگر چہ محمد یونس حالات حاضرہ کی خبروں کو کور کرتا ہے لیکن اس کا کام بھی گرمی کی شدت سے کا فی متاثر ہوچکا ہے۔

انہوں نے کہا کہ وہ پہلے باجوڑ کے دوردراز علاقوں میں روازانہ کی بنیاد پر مختلف ایونٹ کور کرتا تھا تاہم اب اس میں ساٹھ فیصد کمی واقع ہوئی ہے کیونکہ گرمی کی شدت کی وجہ سے انہوں نے اپنے آپ کو گھر اور پریس کلب تک محدود کیا ہے۔

یونس نے بتایا کہ پچھلے چند سالوں سے گرمیوں کے دورانیے میں اضافے اور شدت کی وجہ سے وہ زیادہ تر خبریں اورمعلومات فون یا واٹس ایپ پر لوگوں سے لیتے ہیں۔ اگر چہ اسکی کنفرمیشن کرنا بھی ایک مشکل کام ہوتا ہے لیکن اس کے بغیر ان کے پاس کوئی دوسرا آپشن نہیں ہے۔

یہ بھی پڑھیں

تھر میں کوئلے کی کان کنی میں توسیع: سول سوسائٹی اور مقامی لوگوں کا اظہار تشویش

پاکستان کے ختم ہوتے گلیشئرز: بقا کا برفانی بحران


موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے گرمیوں کے دورانیہ اور شدت نے باجوڑ کے زیادہ تر صحافیوں کے پیشہ وارانہ کام کو متاثرکیا ہے۔

ایسے صحافیوں کے فہرست میں پینتالیس سالہ انور زادہ گلیار بھی شامل ہے جو ڈیلی ٹائم اور باجوڑ نیوز کے لئے کام کررہا ہے۔

گلیار جو بلڈ پریشر کا مریض ہے لیکن اس کے باوجود بھی اپنی پیشہ وارانہ سرگرمیوں کو جاری رکھی ہوئے ہے۔


انہوں نے اپنے ایک فیلڈ کوریج کے بارے میں بتایا کے”جون کے مہینے میں ان کو ایک راضی نامے (صلح) کی ایک تقریب میں کوریج کے لئے تحصیل ماموند کے ایک دور افتادہ علاقے میں جانا پڑا جہاں پر گرمی کی شدت کے بنا پر ان کے جسم سے زیادہ پسینہ چھوٹنے کی وجہ سے اس کا جسم ڈی ہائیڈریشن کا شکار ہوا وراس کو بیہوشی کے دورے پڑے اور کام روکنا پڑا۔

تاہم انور زادہ گلیار کو بروقت مقامی لوگوں نے فرسٹ ایڈ دی اور ایک گھنٹہ آرام کرنے کے بعد طبیعت نارمل ہوئی۔ اس کے بعد گرمیوں میں فیلڈ ورک کے لئے جانا چھوڑ دیا ہے ”۔

گلیار کے بقول روزانہ ان کو باجوڑ کے کونے کونے سے لوگ مختلف تقریبات کو کور کرنے کے لئے دعوت نامے بھیج دیتے ہیں لیکن گرمی کے وجہ سے میں شرکت کرنے سے معذرت کرتا ہوں۔

انہوں نے کہا کہ فیلڈ میں کوریج نہ کرنے کی وجہ سے ان کے فالورز اور ریڈرز پر بھی اثر پڑاہے جس سے ان کو دکھ بھی ہے لیکن کیا کریں اپنی صحت کا بھی خیال رکھنا ہے۔

ضلع باجوڑ میں موسمیاتی تبدیلی کے منفی اثرات پچھلے ایک عشرے سے نمایاں ہونا شروع ہوگئے ہیں جس میں ہر سال اضافہ ہورہا ہے۔

ماہرین موسمیات کے مطابق، موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کم کرنے اور موسم کو خوشگوار رکھنے کے لئے آلودگی کو کنٹرول کرنا اور جنگلات کا رقبہ بڑھانا اور جنگلات کی بے دریغ کٹائی کو فوری طور پر روکنابہت ضروری ہے۔ جس کے لئے ہر ایک کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔

قیاس خان کیبقول جس ویڈیو پیکج پر وہ ابھی کام کررہے ہیں یہ گرمی کی شدت کیوجہ سے دی ہوئی ڈیڈلائن سے بیس دن تاخیر کا شکار ہوئی ہے۔

تاہم اب اس گرمی میں فیلڈ ورک کے لئے نکلنے کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ لوگوں کو موسمیاتی تبدیلی کے منفی اثرات کم کرنے کے حوالے سے آگاہی دیں کیونکہ جس ویڈیو پیکج پر وہ کام کررہا ہے یہ باجوڑ میں جنگلی زیتون کے حوالے سے ہے۔

جنگلی زیتون ایک ماحول دوست پودہ ہے جو ماحول کو معتدل رکھنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ وہ اپنے فیلوشپ کے اس ویڈیو پیکج میں زیتون کے معاشی اور ماحولیاتی فوائد کو اجاگر کر رہے ہیں۔ قبائلی علاقوں کے زیادہ ترصحافی بلامعاوضہ کام کررہے ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ گرمی سے بچاؤ کیلئے ان کے پاس بنیادی کٹس اور وسائل موجود نہیں ہیں۔ لیکن پھر بھی وہ اپنے پیشہ وارانہ کام کو جاری رکھنا اپنا فرض سمجھتے ہیں۔ تاہم گرمی کے شدت کے احساس کو کم کرنے کے لئے زیادہ تر صحافیوں نے اپنا کام محدود کیا ہے۔

یونس بیان کرتے ہیں کہ ”باجوڑ میں رواں برس گرمی کی شدید لہر کی وجہ سے ان کے جسم پر چھوٹے چھوٹے دانے نکل آئے تھے جس سے ان کو سوزش اور خارش کی تکلیف ہوئی تھی جس کے لئے ایک ماہ تک علاج کرایا اور ایک ہفتہ مری میں اپنے دوستوں کے ہاں گزرا تاکہ ان کو ذہنی سکون حاصل ہوسکے”۔

انہوں نے مزید کہا کہ گرمی کے موسم میں دن کے اوقات میں گرمی کی شدت کی وجہ سے وہ اپنا زیادہ پیشہ وارانہ کام رات کے وقت کرتے ہیں جس کی وجہ سے نیند پوری نہیں ہوتی اور پھر سر درد اور آنکھوں میں سوزش ہوتی ہے۔

گرمیوں میں ہمیں بہت سے مسائل کا سامنا ہوتا ہے جس سے ہمارا پیشہ وارانہ کام بہت متاثر ہوا ہے۔

قیاس خان کا کہنا ہے کہ باجوڑ کے صحافیوں کے پیشہ وارانہ کام کو موسمیاتی تبدیلی کے منفی اثرات اور گرمی کی شدت نے اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے جس کا مقابلہ کرنا ہم جیسے صحافیوں کی بس کی بات نہیں۔

اس لئے موسمیاتی تبدیلی کے منفی اثرات کم کرنے پر کام کرنے والے متعلقہ سرکاری محکموں اور غیر سرکاری تنظیموں کو چاہئے کہ وہ باجوڑ کے صحافیوں کے استعداد کار بڑھانے کے لئے فوری اقدامات کریں ورنہ ان کا کام گرمی کی شدت سے ہر سال کم ہوتا جائیگاجس سے لاکھوں لوگوں کا مستند خبروں سے محروم ہونے کا خدشہ ہے۔

اپنا تبصرہ لکھیں