فروزاں فروزاں کے مضامین

موسمیاتی تبدیلی کا عالمی بحران: انسانیت کا بڑا امتحان

موسمیاتی تبدیلی کا عالمی بحران

موسمیاتی تبدیلی کا عالمی بحران شدت اختیار کر چکا ہے۔ سیلاب، گرمی، آگ اور خشک سالی نے پوری دنیا کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔

موسمیاتی تبدیلی کا عالمی بحران

ہم سب ایک ہی سیارے کے باسی ہیں، لیکن یہ سیارہ آج شدید بحران کی لپیٹ میں ہے۔ کہیں سیلاب بستیوں کو بہا لے جاتا ہے، کہیں آگ جنگلات کو جلا دیتی ہے، کہیں خشک سالی لاکھوں لوگوں کو بھوک اور پیاس کے شکنجے میں جکڑ دیتی ہے۔

یہ آفات اب کسی ایک ملک یا خطے تک محدود نہیں رہیں۔ پاکستان سے لے کر امریکہ، افریقہ سے یورپ اور ایشیا تک، موسمیاتی تبدیلی سب کو یکساں طور پر متاثر کر رہی ہے۔

یہ اس تلخ حقیقت کی نشانی ہے کہ اگرچہ ہمارے ممالک اور معیشتیں مختلف ہیں، لیکن ہم سب ایک ہی بحران کا سامنا کر رہے ہیں،یعنی آب و ہوا کی تباہ کاری۔ یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ پاکستان کابھی ان چند ممالک میں شمار ہوتا ہے جو موسمیاتی تبدیلی سے سب سے زیادہ متاثر ہیں حالانکہ اس کا عالمی کاربن اخراج میں حصہ نہ ہونے کے برابر ہے۔

حالیہ برسوں میں آنے والے تباہ کن سیلاب نے کراچی سے لے کر اندرونِ سندھ تک لاکھوں لوگوں کی زندگی بدل کر رکھ دی۔ گھروں میں پانی داخل ہوا، کھیت کھلیان ڈوب گئے، لاکھوں افراد بے گھر ہوئے اور صحت کے مسائل بے پناہ بڑھ گئے۔

موسمیاتی تبدیلی کا عالمی بحران

کراچی جیسے بڑے شہر میں بارش کے بعد گھنٹوں بلکہ دنوں تک پانی کھڑا رہنا اب معمول بنتا جا رہا ہے۔ شہری نظام ناکام دکھائی دیتا ہے اور یہ صورتحال صاف ظاہر کرتی ہے کہ اگر فوری اقدامات نہ کیے گئے تو مستقبل مزید بھیانک ہو سکتا ہے۔

دوسری طرف ملک کے شمالی اور وسطی حصوں میں گرمی کی شدید لہریں انسانی صحت کو شدید نقصان پہنچا رہی ہیں۔ ہیٹ اسٹروک سے اموات میں اضافہ، بجلی اور پانی کی قلت اور معیشت پر دباؤ روز بروز بڑھتا جا رہا ہے۔

اب اگر پاکستان میں سیلاب اور گرمی کی لہریں تباہی مچا رہی ہیں تو دنیا کے دوسرے کنارے کیلیفورنیا میں جنگلاتی آگ ہر سال ہزاروں ایکڑ زمین کو جلا دیتی ہے۔ لاکھوں لوگ نقل مکانی پر مجبور ہوتے ہیں اور اربوں ڈالر کا نقصان ہوتا ہے۔ یورپ میں مسلسل ہیٹ ویوز نے صحت کے نظام کو ہلا کر رکھ دیا ہے، ہزاروں اموات ہو چکی ہیں اور پانی کے ذخائر تیزی سے کم ہو رہے ہیں۔ افریقہ کے کئی ممالک قحط سالی اور خشک سالی سے دوچار ہیں جہاں لوگ کھانے اور پانی کی بنیادی ضرورت کے لیے ترس رہے ہیں۔

موسمیاتی تبدیلی کا عالمی بحران

ایشیائی خطے میں فلپائن اور بنگلہ دیش جیسے ممالک سمندری طوفان اور لینڈ سلائیڈنگ کا شکار ہیں۔ ان تمام مثالوں سے یہ بات عیاں ہے کہ آب و ہوا کی آفات کا تعلق صرف جغرافیے سے نہیں بلکہ پورے سیارے سے ہے۔یہ سب آفات بظاہر مختلف ہیں،کہیں آگ، کہیں پانی، کہیں گرمی اور کہیں خشک سالی۔مگر ان سب کا ربط ایک ہی ہے اور وہ ہے موسمیاتی بحران۔

بڑھتا ہوا عالمی درجہ حرارت، گلیشیئرز کا تیزی سے پگھلنا، بارش کے پیٹرن میں تبدیلی اور زمین کے وسائل کا بے دریغ استعمال اس بحران کو مزید سنگین بنا رہے ہیں۔

اہم بات یہ ہے کہ موسمیاتی تبدیلی امیر اور غریب کی تفریق نہیں کرتی۔ کیلیفورنیا جیسا ترقی یافتہ خطہ بھی اسی طرح متاثر ہو رہا ہے جیسے سندھ کے پسماندہ دیہات۔ فرق صرف یہ ہے کہ ترقی یافتہ ممالک کے پاس نقصانات کو سنبھالنے کے لیے وسائل زیادہ ہیں جبکہ غریب ممالک کے لوگ اپنی بقا کے لیے جدوجہد کرتے رہ جاتے ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ آب و ہوا کی یہ آفات انسانی زندگی پر براہِ راست اثر ڈالتی ہیں۔ بیماریوں میں اضافہ، غربت، بے روزگاری اور نقل مکانی سب اسی بحران کے شاخسانے ہیں۔ لاکھوں لوگ اپنے گھروں سے ہجرت پر مجبور ہیں کیونکہ زمین یا تو پانی میں ڈوب گئی ہے یا خشک سالی سے بنجر ہو چکی ہے۔ معیشت پر بھی اس کے گہرے اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔

زرعی پیداوار متاثر ہو رہی ہے، انفراسٹرکچر کو نقصان پہنچ رہا ہے اور صحت کے نظام پر دباؤ بڑھ رہا ہے۔ ماحولیات پر بھی کاری ضرب لگ رہی ہے،جنگلات ختم ہو رہے ہیں، حیاتی تنوع کم ہوتا جا رہا ہے اور پانی کے ذخائر سکڑ رہے ہیں۔ لیکن راہ نجات کہاں ہے۔۔۔۔۔

اس بحران سے نمٹنے کے لیے قومی اور عالمی سطح پر اقدامات ناگزیر ہیں۔ پاکستان جیسے ممالک کو فوری طور پر شہری منصوبہ بندی بہتر بنانی ہوگی، شجرکاری مہمات کو فروغ دینا ہوگا اور ماحولیاتی قوانین پر سختی سے عمل درآمد کرنا ہوگا۔

موسمیاتی تبدیلی کا عالمی بحران

سب سے پہلے عالمی سطح پر ترقی یافتہ ممالک کو اپنے کاربن اخراج میں کمی لانی چاہیے اور ترقی پذیر ممالک کی مالی مدد کے لیے کلائمیٹ فنڈنگ بڑھانی ہوگی۔ ٹیکنالوجی شیئرنگ، قابلِ تجدید توانائی کے منصوبے اور پائیدار ترقی کے ماڈل ہی اس بحران سے نمٹنے کا واحد راستہ ہیں۔

عوامی سطح پر بھی شعور اجاگر کرنا ضروری ہے۔ ہمیں اپنے طرزِ زندگی میں تبدیلی لانا ہوگی۔پانی اور بجلی کے استعمال میں احتیاط، پلاسٹک کے استعمال میں کمی، اور ماحول دوست رویوں کو اپنانا لازمی ہے۔

یہ بھی پڑھیں

پلاسٹک کہانی: تحفظ سے تباہی تک

ڈیم: کیا پاکستان کے لئے سیلابی متبادل غل ہے؟

یہ زمین ہمارا مشترکہ گھر ہے اور اگر ہم نے اجتماعی طور پر اقدامات نہ کیے تو یہ گھر ہمارے لیے ناقابلِ رہائش بنتا جائے گا۔ پاکستان ہو یا امریکہ، افریقہ ہو یا یورپ، ہم سب ایک ہی کشتی میں سوار ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا ہم وقت پر مل جل کر قدم اٹھائیں گے یا پھر تماشائی بن کر اپنے سیارے کو برباد ہوتے دیکھتے رہیں گے؟

اگر آب و ہوا کی آفات سرحدوں کو نہیں مانتیں، تو کیا ہماری ذمہ داری بھی صرف اپنی سرحدوں تک محدود ہونی چاہیے؟

اپنا تبصرہ لکھیں