پاکستان میں برقی گاڑیاں تیزی سے مقبول ہو رہی ہیں۔ نئی ای وی پالیسی، سستی توانائی، اور صاف ماحول کے ساتھ برقی انقلاب کی شروعات ناگزیر ہیں۔
فروزاں رپورٹ
پاکستان میں صاف اور پائیدار نقل و حرکت (کلین موبلٹی) کی طرف منتقلی پر زور دیتے ہوئے، کلائمیٹ ایکشن سینٹر (CAC) نے ملتان میں اپنی تیسری الیکٹرک وہیکلز (ای وی) کانفرنس کامیابی سے منعقد کی۔
اس کانفرنس نے صنعت، بینکاری، حکومت اور تعلیمی شعبوں کے اسٹیک ہولڈرز کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کیا تاکہ ملک میں برقی گاڑیوں کے فروغ کی راہ میں حائل رکاوٹوں اور امکانات پر تفصیلی بات چیت کی جا سکے۔
یہ ایونٹ بینک آف پنجاب (بی او پی) کے تعاون سے اسپانسر کیا گیا، جبکہ ( ہوروِین ) ایک معروف برقی موٹر سائیکل کمپنی نے اسے سپورٹ فراہم کی۔
برقی نقل و حرکت اب کوئی خواب نہیں
کانفرنس کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے CAC کے ڈائریکٹر یاسر حسین نے کہا کہ معاملات درست سمت میں جا رہے ہیں اور حکومت نے ای وی منتقلی کو سنجیدگی سے لینا شروع کر دیا ہے۔
نئی پالیسی کے تحت تمام پٹرول اور ڈیزل گاڑیاں مرحلہ وار ختم ہوں گی، جس سے وہ آلودہ ہوا صاف ہوگی جو ہمیں بیمار رکھتی ہے۔ اسموگ جان لیوا ہے۔
انہوں نے بیٹری ری سائیکلنگ یونٹس کے قیام پر فوری توجہ دینے پر زور دیا تاکہ آنے والے برسوں میں ای وی سیکٹر پائیدار بنیادوں پر کھڑا ہو سکے۔
مارکیٹ کا رخ برقی گاڑیوں کی طرف

بینک آف پنجاب کے نعیم جاوید نے عالمی اور مقامی ای وی مارکیٹ کے اعداد و شمار پیش کرتے ہوئے بتایاکہ چین عالمی ای وی مارکیٹ کا 65فیصدحصہ رکھتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ 2024 میں دنیا بھر میں 1 کروڑ 70 لاکھ برقی گاڑیاں فروخت ہوئیں، جو کل کار سیلز کا 24 فیصدہیں۔ انھوں نے بتایا کہ آئندہ سال یہ تعداد 2 کروڑ تک پہنچنے کی توقع ہے۔
پاکستان کی نئی ای وی پالیسی (2025–2030)کے مطابق ای وی پر 1 فیصدجی ایس ٹی جبکہ پٹرول گاڑیوں پر 17فیصد۔پرزہ جات پر 1فیصد امپورٹ ڈیوٹی۔دو اور تین پہیوں والی گاڑیوں کے لیے 5 سال میں 100 ارب روپے کی سبسڈی ہے۔
انہوں نے واضح کیا کہ مارکیٹ میں امکانات روشن ہیں لیکن قیمت اور فنانسنگ بڑی رکاوٹیں ہیں۔ طویل مدتی، کم لاگت فنانسنگ کے بغیر ای وی عوام کی پہنچ میں نہیں آ سکتیں۔
پینل مباحثے: مواقع، چیلنجز اور پالیسی
پہلا پینل صنعت اور مالیات کے حوالے سے تھا جس میں ہوروین کے جنرل منیجر نعمان علوی، کیپیٹل اسمارٹ موٹرز کے فروخ رضا، BoP کے نعیم جاوید اور نیکس سیلز کے سی ای او جمشید اقبال شریک تھے۔
نعمان علوی کا اس موقع پر کہنا تھا کہ پاکستان ہر سال 15 ارب ڈالر کا ایندھن درآمد کرتا ہے، جس کا 60–70فیصددو اور تین پہیوں والی گاڑیاں استعمال کرتی ہیں۔ ان کی برقی منتقلی اولین ترجیح ہونی چاہیے کیونکہ یہی 80فیصد شہری آلودگی کی بڑی وجہ ہیں۔
انہوں نے استاندردائزیشن پر زور دیتے ہوئے کہا کہ مختلف کمپنیوں کے چارجنگ اور بیٹری سسٹمز میں ہم آہنگی نہ ہونا مارکیٹ کی توسیع میں بڑی رکاوٹ ہے۔

فروخ رضا نے صارفین کے اعتماد کی بحالی پر بات کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے پاکستان کا پہلا ملٹی برانڈ ای وی اسٹور کھولا اور چھ نئے ماڈلز متعارف کرائے تاکہ لوگوں کو انتخاب کا موقع ملے۔
جمشید اقبال نے کم معیار کی بیٹریز کے مسئلے کو اجاگر کرتے ہوئے بتایا کہ زیادہ تر امپورٹ شدہ برقی موٹر سائیکلیں گرافین لیڈ ایسڈ بیٹریاں استعمال کرتی ہیں جن کی عمر صرف 16–18 ماہ ہے۔ ہمیں فوری طور پر بیٹری کے معیار کے لیے ضابطہ سازی کرنی چاہیے۔
دوسرا پینل: شمولیت، خواتین اور عوامی ٹرانسپورٹ
دوسرا پینل CAC کی مائرہ ممتاز نے ماڈریٹ کیا۔اوکلا پاکستان کے محمد سعید اختر نے بتایا کہ دنیا بھر میں اوکلا کی دو پہیوں والی برقی گاڑیوں کی فروخت 30 لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے۔
پاکستان میں ایک عام برقی موٹر سائیکل کی قیمت 1.5 سے 2 لاکھ روپے ہے۔ان کا کہنا تھا کہ اس سال ملک میں 1,16,000 یونٹس کی فروخت کا امکان ہے جس میں سے 80فیصدبرقی اسکوٹی صارفین خواتین ہیں، جو ایک مثبت سماجی تبدیلی ہے۔
اس موقع پر پنجاب ماس ٹرانزٹ اتھارٹی کے محمد یاسین نے بتایا کہ ملتان میں 69 ای وی بسیں پہلے ہی چل رہی ہیں، لیکن چارجنگ انفراسٹرکچر کی شدید کمی ہے۔SDPIسے تعلق رکھنے والے ماہر
ڈاکٹر خالد ولید نے تین بنیادی ستونوں پر زور دیا۔ ان کا کہناتھا کہ ای وی چارجنگ انفراسٹرکچر کو قابلِ تجدید توانائی سے چلنا چاہیے تاکہ ہم ماحول کو نقصان نہ پہنچائیں۔
یہ بھی پڑھیں
اسلام آباد میں فضائی آلودگی تشویشناک حد تک بڑھ گئی
موسمیاتی تبدیلی میں شہروں کا کردار: سب سے بڑے مجرم یا امید کی کرن؟
ای وی کو عیاشی نہیں بلکہ ضرورت سمجھنا ہوگا، اور اس کا آغاز عوامی ٹرانسپورٹ سے ہونا چاہیے۔
سمت واضح ہے، سفر جاری ہے
کانفرنس کے اختتام پر CAC کے حسین رضوی اور جویریہ فیض کا کہنا تھا کہ ملتان کانفرنس پاکستان میں برقی نقل و حرکت کے فروغ کا ایک اہم سنگ میل ہے۔ راستہ کٹھن ضرور ہے، مگر سمت واضح ہے کہ مستقبل برقی ہے۔ تعاون اور تسلسل سے ہم اس مستقبل کو پائیدار اور سب کے لیے قابلِ رسائی بنا سکتے ہیں۔