فروزاں ماحولیاتی رپورٹس

پاکستان میں فضائی آلودگی اور PM2.5 کے اثرات: سانس لینا خطرے میں

فضائی آلودگی

اگر فوری، مربوط اور عوامی شمولیت پر مبنی اقدامات نہ کیے گئے تو آنے والی نسلیں سانس لینے کی آزادی سے بھی محروم ہو سکتی ہیں

ہر سال سردیوں کے آغاز کے ساتھ ہی پاکستان کے بڑے شہروں خصوصاً لاہور، کراچی، راولپنڈی، فیصل آباد اور اسلام آباد دھند کی دبیز چادر میں لپٹ جاتے ہیں۔ مگر یہ دھند قدرتی نہیں، بلکہ فضا میں موجود آلودگی کا نتیجہ ہے جس میں باریک ذرات (PM2.5) اور دیگر زہریلی گیسیں شامل ہوتی ہیں۔یہ آلودگی نہ صرف انسانی صحت بلکہ ملکی معیشت، زراعت اور ماحول کے لیے بھی خطرے کی گھنٹی بن چکی ہے۔

کیا ہیں؟ (PM2.5 اور PM10) پی ایم

فضا میں موجود آلودہ ذرات کو Particulate Matter یا مختصراً ”پی ایم (PM)” کہا جاتا ہے۔ یہ انتہائی باریک ذرات ہوتے ہیں جو انسانی آنکھ سے نظر نہیں آتے، مگر سانس کے ذریعے جسم میں داخل ہو کر پھیپھڑوں، دل، اور خون کی نالیوں کو متاثر کرتے ہیں۔PM10 وہ ذرات ہوتے ہیں جن کا قطر 10 مائیکرومیٹر تک ہوتا ہے یہ ناک یا گلے میں فلٹر ہو سکتے ہیں۔PM 2.5 اس سے بھی زیادہ

خطرناک ہیں کیونکہ ان کا قطر صرف 2.5 مائیکرومیٹر ہوتا ہے، یعنی یہ ایک بال کے مقابلے میں تقریباً 30 گنا چھوٹے ہوتے ہیں۔ یہ ذرات پھیپھڑوں کی گہرائی تک پہنچ کر خون میں جذب ہو جاتے ہیں اور دل کی بیماریوں، دمے، برونکائٹس، اور حتیٰ کہ کینسر کا باعث بن سکتے ہیں۔

عالمی ادارہ صحت (WHO) کے مطابق، فضا میں PM2.5 کی سالانہ محفوظ حد صرف 5 مائیکروگرام فی مکعب میٹرہے، جبکہ پاکستان کے بڑے شہروں میں یہ سطح اکثر 100 مائیکروگرام فی مکعب میٹرسے تجاوز کر جاتی ہے جو انسانی صحت کے لیے شدید خطرہ ہے۔

فضائی آلودگی

پاکستان میں فضائی آلودگی کی موجودہ صورتحال

بین الاقوامی ادارہ آئی کیو ائیرکے 2024 کے تازہ اعداد و شمار کے مطابق، پاکستان کا سالانہ اوسط PM2.5 لیول 73.7 مائیکروگرام فی مکعب میٹرریکارڈ ہوا جو کہ عالمی ادارہصحت کی مقرر کردہ حد 5 مائیکروگرام فی مکعب میٹرسے 14 گنا زیادہ ہے۔

یہی نہیں، ائیر کوالٹی لائف انڈیکس (AQLI) کی سن 2025 رپورٹ کے مطابق، موجودہ فضائی آلودگی کی سطح پاکستانیوں کی اوسط عمر کو 3.9 سال کم کر رہی ہے۔ مزید برآں، لاہور کا شمار دنیا کے سب سے آلودہ شہروں میں ہوتا ہے۔

سن 2024 کے نومبر اور دسمبر میں بعض دن ایسے ریکارڈ ہوئے جب PM2.5 کی سطح ڈبلیو ایچ اوکی ہدایت شدہ حد سے 40 گنا زیادہ تک پہنچی۔جب کہ کراچی،اسلام آباد سمیت ملک کے دوسرے شہربھی لاہور سے مقابلے کے لیے تیار رہتے ہیں۔

بنیادی وجوہات

فضائی آلودگی میں اضافہ کرنے میں ٹرانسپورٹ سیکٹرکا کردار بنیادی مانا جاتا ہے۔پاکستان کے بڑے شہروں میں گاڑیوں کی تیزی سے بڑھتی تعداد، ناقص ایندھن، پرانے ڈیزل انجن، اور ٹریفک جام کی وجہ سے فضاء میں کاربن مونو آکسائیڈ، نائٹروجن آکسائیڈ، سلفر ڈائی آکسائیڈ اور PM2.5 ذرات خارج ہوتے ہیں۔

فضائی آلودگی

صرف لاہور میں، پنجاب انوائرنمنٹ پروٹیکشن ڈیپارٹمنٹ (ای پی ڈی) کے مطابق، 35–40فیصد فضائی آلودگی کا تعلق ٹرانسپورٹ سے ہے جب کہ ماہرین کے مطابق یہ شرح ان اعداد و شمار سے کہیں زیادہ ہے۔

دوسری جانب کراچی میں یہ شرح 60فیصد تک پہونچ چکی ہے جس کے نتیجے میں کراچی بھی عالمی درجہ بندی میں سر فہرست رہتا ہے۔

(Brick Kilns) صنعتی آلودگی اور بھٹیاں

پاکستان میں تقریباً 18 ہزار سے زائد روایتی بھٹیاں کام کر رہی ہیں، جن میں سے بیشتر میں زگ زیگ ٹیکنالوجی ابھی نافذ نہیں ہوئی۔یہ بھٹیاں بلیک کاربن اور سلفر کمپاؤنڈز خارج کرتی ہیں جو فضا کو زہریلا بناتے ہیں جب کہ صنعتی علاقوں میں ناقص فلٹرنگ سسٹم بھی مسئلے کو بڑھاتا ہے۔

اس کے ساتھ ساتھ ملک کے بڑے شہروں میں صنعتی سرگرمیوں کے نتیجے میں خارج ہونے والا دھواں بھی اس میں اپنا حسہ ڈال رہا ہے،صوبوں کی ماحولیاتی وزارتیں ماحولیاتی قوانین پر عمل درامد کرانے میں ناکام رہی ہیں۔

(Crop Burning) زرعی فضلہ جلانا

ہر سال خریف کی فصل کے بعد پنجاب اور سندھ کے کسان گندم کی کاشت سے قبل دھان کے باقیات کو جلا دیتے ہیں۔یہ عمل اکتوبر تا دسمبر کے دوران اسموگ سیزن کو شدید بناتا ہے۔

ناساکی سیٹلائٹ تصاویر کے مطابق، سن 2024 میں پنجاب کے شمالی اضلاع میں 1500 سے زائد آگ لگنے کے واقعات ریکارڈ ہوئے۔

اور بجلی بحران (DG Sets) ڈی جی سیٹس

بجلی کی لوڈشیڈنگ کے دوران چلنے والے ڈیزل جنریٹرز بڑی مقدار میں بلیک کاربن اور PM2.5 پیدا کرتے ہیں۔ایک تازہ تحقیق کے مطابق لاہور میں آلودگی کا تقریباً 7سے 10فیصدحصہ انہی DG سیٹس سے آتا ہے۔

تعمیراتی دھول اور شہری منصوبہ بندی

شہری توسیع اور بڑی سڑکوں کی تعمیر کے دوران دھول اڑنا، غیر محفوظ مٹی ڈمپنگ، میدانوں میں اور دیگر خالی جگہوں پر کھلے عام کچرا جلانا اور کھلے تعمیراتی مقامات آلودگی میں خاطر خواہ اضافہ کرتے ہیں۔

فضائی آلودگی

انسانی صحت پر اثرات

فضائی آلودگی کے نتیجے میں ملک کے چھوٹے بڑے شہروں میں سانس اور دل کے امراض جیسی سنگین بیماریوں میں شدید اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔عالمی ادارہ صحت کی 2024 کی رپورٹ کے مطابق، پاکستان میں ہر سال فضائی آلودگی سے ایک لاکھ سے زائد قبل از وقت اموات ہوتی ہیں۔یہ ذرات خون میں شامل ہو کر دمہ، برونکائٹس، دل کے دورے، اسٹروک اور پھیپھڑوں کے سرطان کا باعث بنتے ہیں۔

بچوں اور بزرگوں پر اثرات

بچوں میں پھیپھڑوں کی نشوونما متاثر ہوتی ہے جبکہ بزرگ افراد میں سانس لینے میں دشواری بڑھ جاتی ہے۔لاہور کے جنرل اسپتال میں 2024 میں سانس کے مریضوں کی تعداد میں 27 فیصداضافہ رپورٹ ہوا۔جب کہ کراچی،اسلام آباد سمیت ملک کے مختلف شہروں میں بھی صورتحال اس حوالے سے سنگین صورت اختیار کر چکی ہے۔

معاشی نقصان

ورلڈ بینک کے مطابق، پاکستان کی معیشت کو ہر سال تقریباً 6.5 فیصد GDP کا نقصان فضائی آلودگی سے ہوتا ہے، جس میں صحت پر اٹھنے والے اخراجات، پیداواری صلاحیت کی کمی، اور ہسپتالوں کا دباؤ شامل ہیں۔

ماحولیاتی و سماجی اثرات

دھند میں حدِ نگاہ کی کمی ٹریفک حادثات میں اضافے کا باعث بنتی ہے۔زرعی پیداوار پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں، کیونکہ فضائی ذرات پودوں کی سطح پر جمع ہو کر فوٹوسنتھیسز روکتے ہیں۔تعلیمی ادارے بار بار بند ہونے سے طلبہ کی کارکردگی متاثر ہوتی ہے۔شہری فضا میں آلودگی کے سبب لوگ زیادہ وقت گھروں میں گزارنے پر مجبور ہوتے ہیں جس سے نفسیاتی دباؤ میں اضافہ ہوا ہے۔

ممکنہ تدارک اور پالیسیاں

اگر ہم قلیل مدتی اقدامات کی بات کریں تو حکومتی سطح پر فضائی معیار کی نگرانی کے لیے ٹھوس اقدامات کرنا ہوں گے خاص طور پر ہر بڑے شہر میں ریئل ٹائم AQI اسکرینیں اور موبائل ایپس کے ذریعے عوامی سطح پر آگاہی دینا ہو گی۔اسی طرح کچھ ہنگامی اقدامات بھی اٹھانا ضروری ہیں جیسا کہ شدید اسموگ کے دنوں میں اسکولوں کی آن لائن کلاسز، صنعتی سرگرمیوں پر عارضی پابندی، اور عوامی نقل و حرکت کی حد بندی جیسے اقدامات کرنا ہوں گے۔ اس کے ساتھ پرانے یا غیر مؤثر جنریٹرز پر جرمانہ اور سولر ہائبرڈ متبادل کی ترغیب دینا ہوگی۔

شجر کاری اور شہری جنگلات میں اضافہ کرنا ہو گا اور میونسپل سطح پر بڑے پیمانے پر درخت لگاناانتہائی ضروری ہو گا تاکہ کاربن جذب ہو اور گرد کم ہو۔

طویل مدتی حکمتِ عملی

ٹرانسپورٹ میں انقلاب لانا اب انتہائی ضروری ہو چکا ہے اس حوالے سے الیکٹرک بسز، میٹرو ٹریکس، کار پولنگ اور صاف ایندھن (Euro V Fuel) کی فراہمی کو یقینی بنانا ہو گا۔انڈسٹری اور برک کلنز کی جدید کاری کرتے ہوئے زگ زیگ ٹیکنالوجی، صنعتی فلٹرز، اور سخت ماحولیاتی ضوابط کا نفاذ کرنا ضروری ہے۔زرعی اصلاحات نافذ کرتے ہوئے کسانوں کو مشینری فراہم کرنا ہوں گی تاکہ وہ فصلیں جلانے کے بجائے انہیں زمین میں مکس کرسکیں۔قانونی و مالی فریم ورک کو نافذ کرتے ہوئے قومی سطح پرکلین ائیر پالیسی 2025کے تحت فنڈنگ اور نفاذ کو روبہ عمل لانا ہو گا۔عوامی شعور و تعلیم کے ذریعے میڈیا، اسکول اور یونیورسٹی نصاب میں فضائی آلودگی کی تعلیم شامل کرنا ہو گا تاکہ شہری سطح پر ذمہ داری میں اضافہ ہو۔

کیا اسے دیکھنا یاد ہے؟

برفانی چیتا خطرے میں

کوپ 30 سے پہلے عالمی رپورٹس: زمین، غربت اور عمل کا بحران

عالمی تجربات سے سیکھنے کے مواقع

دنیا کی حکومتیں فضائی آلودگی سے نمٹنے کے لیے جدید اور موئثر طریقے اپنا رہی ہیں۔ اگر ہم اپنے اطراف کے ممالک کا جائزہ لیں تو معلوم ہوتا ہے کہ چین نے 2014 میں ”کلین ائیر ایکشن پلان“کے ذریعے صرف پانچ سال میں اپنے بڑے شہروں میں PM2.5 کی سطح میں 42 فیصدکمی کی۔اسی طرح بھارت نے نیشنل کلین ایئر پلان(NCAP) متعارف کر کے 131 شہروں میں ہدفی کمی کا منصوبہ بنایا۔پاکستان بھی اگر واضح، قابلِ عمل اہداف اور فنڈنگ کے ساتھ یہ ماڈل اپنائے تو چند سالوں میں قابلِ ذکر بہتری ممکن ہے۔

پاکستان میں فضائی آلودگی کا مسئلہ وقتی نہیں بلکہ ساختی (structural) ہے جس کا تعلق توانائی، ٹرانسپورٹ، زراعت اور شہری منصوبہ بندی سے ہے۔اگر فوری، مربوط اور عوامی شمولیت پر مبنی اقدامات نہ کیے گئے تو آنے والی نسلیں صرف ”دھندلا آسمان“ہی نہیں بلکہ سانس لینے کی آزادی سے بھی محروم ہو سکتی ہیں۔اب وقت ہے کہ وفاقی و صوبائی حکومتیں، نجی شعبہ، کسان، صنعتیں اور عام شہری مل کر صاف فضا کے لیے مؤثر جدوجہد کریں کیونکہ ”صاف ہوا بنیادی انسانی حق ہے“۔

اپنا تبصرہ لکھیں