پلاسٹک فری جنوبی ایشیا منصوبہ،”پلیز پروگرام”، پلاسٹک آلودگی کم کرنے کی مہم ہے جس سے پاکستان سمیت آٹھ ممالک میں 10.2 ملین کلوگرام فضلہ رُک گیا
فروزاں تجزیاتی رپورٹ
پلاسٹک کی آلودگی عصر حاضر کا ایک سنجیدہ ماحولیاتی چیلنج بن چکی ہے۔ نہ صرف زمینی ماحول بلکہ دریا، سمندر اور ساحلی حصے بھی اسے شدت سے جھیل رہے ہیں۔ جنوبی ایشیا کے خطے میں، جہاں بڑے دریا، ساحلی پٹی اور تیز ی سے ترقی کرتے شہر موجود ہیں، وہاں یہ چیلنج خصوصی اہمیت اختیار کر جاتا ہے۔
پاکستان سمیت جنوبی ایشیا کے آٹھ ملکوں میں ”پلیز“ نامی منصوبہ جاری ہے جس کا مقصد”پلاسٹک فری دریا اور سمندر“بنانا ہے۔ اس منصوبے میں پاکستان کے ساتھ افغانستان بنگلہ دیش،بھوٹان،انڈیا، مالدیپ،نیپال اور سری لنکا شامل ہیں۔
یہ پانچ سالہ منصوبہ جو 2020 سے 2025 کے دورانیے پر مشتمل ہے کا مالی حجم 37’ملین ڈالر ہے۔’ساؤتھ ایشیا کو آپریٹو اینوائرمینٹ پروگرام“ ( ایس اے سی ای پی ) عالمی بینک کی مالی معاونت سے اس پر عمل درامد کا زمہ دار ہے۔ اس منصوبے کا سرکاری نام ”پلاسٹک فری ریور اینڈ سی فار ساؤتھ ایشیا “ہے۔
پسِ منظر اور ضرورت
اس امر سے ہم سب اب بخوبی واقف ہو چکے ہیں کہ پلاسٹک ایک سستا، ہلکا مواد ہے جو ایک بار استعمال کے بعد ضائع ہو جاتا ہے اور اکثرری سائیکل نہیں ہوتا۔ جنوبی ایشیا میں یہ پلاسٹک فضلہ بہت سے بڑے دریا، سیاحتی ساحل اور سمندری ماحول کو متاثر کر رہا ہے۔مثال کے طور پر، پاکستان میں انڈس ریورنظام کی تحقیق بتاتی ہے کہ اس دریا کے ذریعے سالانہ تقریباً 10,000 ٹن میکرو پلاسٹکس سمندر تک پہنچ رہی ہیں۔
مزید براں، اندازوں کے مطابق پاکستان میں سالانہ تقریباً 3.9 ملین ٹن سے زائدپلاسٹک فضلہ پیدا ہو رہا ہے، جن میں سے ایک بڑا حصہ ناقابلِ تصرف ہے۔ جنوبی ایشیا کے لیے ”پلیز“منصوبے کے ذریعےاندازہ لگایا گیا ہے کہ اس خطے میں سالانہ پلاسٹک فضلے کا رساؤ سمندر کی طرف انتہائی تشویشناک رفتار سے ہو رہا ہے، اور اگر بروقت اقدامات نہ کیے گئے تو اس کا حجم مزید بڑھ جائے گا۔

منصوبے کے تین اہم جز
مقابلتی بلاک گرانٹ سرمایہ کاری تاکہ پلاسٹک فضلہ کم کیا جائے اور سرکلر معیشت کی ترویج ہو۔ پبلک اور پرائیویٹ سیکٹر کا اشتراک، نجی شعبے، سول سوسائٹی، ٹیکنالوجی انویشن کے ذریعے علاقائی ادارہ جاتی تقویت۔” ایس اے سی ای پی” اور دیگر اداروں کی صلاحیت کو مضبوط کرنا، تاکہ ایک مربوط علاقائی حکمتِ عملی بنائی جائے۔
اہداف
پلاسٹک کے بہاؤ کو دریاؤں اور سمندروں میں کم کرنا۔ جنوبی ایشیا میں سرکلر پلاسٹک اقتصادی ماڈل (ریڈیوس ریسکیو ری سائیکل) کو فروغ دینا۔ علاقائی پالیسی، معیارات اور رہنماؤں میں ہم آہنگی پیدا کرنا۔
اس منصوبے کے بہت سے مثبت نتائج سامنے آئے ہیں، جیسے کہ گزشتہ پانچ سال میں اس منصوبے کے تحت 10.2 ملین کلوگرام (تقریباً 10.2 ہزار ٹن) پلاسٹک فضلہ دریاؤں و سمندروں میں جانے سے روکا گیا۔ اور اس دوران تقریباً 626,000 کلوگرام پلاسٹک ریسائیکل کیا گیا۔
پاکستان میں منصوبے کا اطلاق اور کیس اسٹڈیز
پاکستان اس منصوبے کا اہم حصہ رہا ہے، اور مندرجہ ذیل رپورٹس اور کیس اسٹڈیز کے ذریعیے پتہ چلتا ہے کہ
اعداد و شمار
پلیز منصوبے کی ویب سائٹ کے مطابق، پاکستان میں اس کے تحت دو گرانٹس جن میں ”ریجنل بلاک گرانٹس“ (آر بی جیزز ) اور ”اینوویشن گرانٹس“ ( آئی جیز ) دی گئی ہیں۔ ویب سائیڈ کے مطابق پاکستان میں پلاسٹک کی فیکٹری، مواد کی پیداوار اور ری سائیکلنگ کے امکانات کی تفصیلات دستیاب ہیں، مثلاً کراچی میں 60‘ایکو ریفِل اسٹیشنز’قائم کیے گئیہیں جن کے ذریعے صارفین نے کم از کم 7,000 کلوگرام سنگل یوز پلاسٹک کا استعمال نہ کرنے کا تخمینہ دیا ہے۔

پاکستان میں مائیکرو پلاسٹک کی تازہ تحقیق کے مطابق، مثلاً تھل کینال (پنجاب) میں پانی کی سطح پر مائیکروپلاسٹکس کی کثافت 6.4 ± 0.5 سے 8.8 ± 0.5 ذرات/m³ کے درمیان پائی گئی ہے۔ کل میونسپل ٹھوس فضلہ تقریباً 30 ملین ٹن سالانہ ہے، اور اس میں سے 10-14فیصد خطرناک فضلے کا حصہ ہے۔
کیس اسٹڈیز
کراچی میں ریفِل اسٹیشنز
کراچی شہر میں پلیزمنصوبے کے تحت قائم کی گئی 60 ایکو ریفِل اسٹیشنز میں صارفین کو شیمپو، ککنگ آئل، دیگر گھریلو مصنوعات دوبارہ بھرنے کی سہولت دی گئی، جس کے نتیجے میں تخمینہ ہے کہ تقریباً 7,000 کلوگرام سنگل یوز پلاسٹک استعمال نہیں ہوا۔
حیدر آباد (سندھ) میں پی ای فلم ری سایکلنگ پلانٹ
الٹاس پیک ویسٹ مینجمنٹ نے سندھ کے ضلع حیدرآباد میں ایک پلانٹ قائم کیا ہے، جو روزانہ تقریباً 5 ٹن پلاسٹک فضلہ کو پروسیس کر سکتا ہے، اور اسے ریسائکلڈ مواد مثلاً مین ہول کورز بنانے میں استعمال کیا جا رہا ہے۔
ری سائیکلڈ پلاسٹک سے کنسٹرکشن مواد بنانا
: ISP Environmental Solutions (Pvt.) Ltd لاہور میں“ایکو برِکس”بنانے کی ٹیکنالوجی متعارف کرائی ہے، جہاں پلاسٹک فضلہ کو ارتِداد (ریورس وینڈنگ) مشینوں کے ذریعے جمع کیا جا رہا ہے اور پھر کنکریٹ وغیرہ میں استعمال کیا جا رہا ہے۔
دریائے سندھ کا ماحولیاتی جائزہ
دریائے سندھ پاکستان کی زندگی ہے ۔یہی دریا زراعت، پینے کے پانی، مچھلیوں، اور حیاتیاتی تنوع کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ لیکن حالیہ برسوں میں پلاسٹک آلودگی نے اس دریا کے قدرتی نظام کو بری طرح متاثر کیا ہے۔
مختلف مطالعات کے مطابق، سندھ کے کناروں اور نالوں سے روزانہ بڑی مقدار میں پلاسٹک کچرا دریا میں شامل ہوتا ہے جو بالآخر بحیرہ عرب تک پہنچ جاتا ہے۔
”پلیز” منصوبے کے تحت ماحولیاتی ماہرین نے دریائے سندھ کے مختلف حصوں میں پلاسٹک آلودگی کے نمونے جمع کیے۔ ان کی تحقیقات سے پتا چلا کہ دریا کے کناروں پر سب سے زیادہ فضلہ پولی تھیلین بیگز، بوتلیں، پلاسٹک ریپرز، اور ڈسپوزایبل کپ کی صورت میں پایا گیا۔

اس منصوبے کے ذریعے دریا کے کنارے آباد کمیونٹیز کو شامل کیا گیا تاکہ وہ مقامی سطح پر پلاسٹک جمع کرنے، ری سائیکل کرنے اور دوبارہ استعمال کے طریقے سیکھ سکیں۔ اس عمل سے نہ صرف ماحول صاف ہو رہا ہے بلکہ کئی دیہات میں روزگار کے چھوٹے ذرائع بھی پیدا ہوئے ہیں۔
مزید یہ کہ منصوبے کے دوران نصب کیے گئے پلاسٹک فلٹر جال نے صرف 2024 کے دوران تقریباً 80 ٹن پلاسٹک کو دریا میں جانے سے روکا۔ یہ اعداد و شمار اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ اگر کمیونٹیز اور حکومت مل کر کام کریں تو دریائے سندھ کو پلاسٹک آلودگی سے محفوظ بنایا جا سکتا ہے۔
چیلنجز، مواقع اور پاکستان
چیلنجز
پالیسی اور اس کے ر نفاذ کے درمیان فرق بہت زیادہ ہے۔پلاسٹک پر پابندی یا اس کے ضابطے تو موجود ہیں، ان پر مگر عمل درآمد انتہائی کمزور ہے۔ری سائیکلنگ انفراسٹرکچر کی کمی کے ساتھ بہت سی جگہوں پر فضلہ جمع کرنے، تفریق کرنے، صفائی کرنے کے وسائل محدود ہیں۔
عام لوگوں میں رویوں اور شعور کی کمی کا مسئلہ اپنی جگہ اہمیت کا حامل ہے کیوں کہ عوامی سطح پر استعمال اور ضائع کرنے کے معمولات تبدیل کرنا آسان نہیں ہے۔وسائل و وقت محدود ہے کیوں کہ منصوبے کی مدت 2025 تک ہے، اس لیے وقت تیزی سے ختم ہو رہا ہے۔
مواقع
مقامی سطح پر روزگار کے مواقع پیدا ہوسکتے ہیں جیسے فضلہ جمع کرنے، ری سائیکلنگ ورکشاپس وغیرہ۔نجی شعبے میں سرمایہ کاری کے مواقعے پیدا ہو سکتے ہیں جیسیری سائیکلڈ پلاسٹک استعمال کرنے والی مصنوعات، کم پلاسٹک پیکیجنگ کی مارکیٹ۔اس حوالے سے علاقائی سطح پر تعاون بڑھایا جا سکتا ہے،پاکستان اور دیگر جنوبی ایشیائی ممالک اپنے تجربات ایک دوسرے سے شئیر کر سکتے ہیں۔
سفارشات
پلیز منصوبے کے تحت حاصل کردہ گرانٹس اور تجربات کو قومی سطح پر بڑھایا جائے۔مانیٹرنگ اور رپورٹنگ کا نظام مضبوط کیا جائے، تاکہ ہر منصوبے کی کارکردگی کا جائزہ لیا جا سکے۔عوامی شعور مہمات کو اسکولوں، کالجوں، شہری علاقوں میں عام کیا جائے ”ایک بار استعمال پلاسٹک“کے خلاف روایات بنائی جائیں۔نجی شعبے کی حوصلہ افزائی کی جائے کہ وہ ری سائیکلڈ مواد استعمال کریں، کم پلاسٹک پیکیجنگ اپنائیں، اور ماحولیاتی دوستانہ انوویشنس لائیں۔
دریائے سندھ اور دیگر بڑے آبی راستوں کے گرد”زیرو پلاسٹک فضلہ شہر“بنانے کا پاکستان نے جو منصوبہ جاری کیا ہے، اس کو عملی میدان میں جلد سے جلد نافذ کیا جائے۔ یہ منصوبہ جنوبی ایشیا کے لیے ایک امید کی کرن ہے کہ وہ پلاسٹک آلودگی، جو ہمارے دریاؤں، سمندروں، زمین اور انسانوں کو متاثر کر رہی ہے، کا مقابلہ کیاجاسکے۔
پاکستان میں اس کے تحت جو اقدامات کیے گئے ہیں، وہ مثبت سمت میں ایک آغاز ہیں، مگر ابھی بہت کام باقی ہے۔ اگر ہم سب مل کر اس پر کام کریں تو یقینی طور پر ایک“پلاسٹک فری دریااور سمندر”کا خواب حقیقت بن سکتا ہے۔
“پلیز منصوبہ”بلاشبہ جنوبی ایشیا کے لیے امید کی کرن ہے۔ اس نے پہلی مرتبہ خطے کے ممالک کو ایک مشترکہ ماحولیاتی مقصد کے تحت یکجا کیا۔
پلاسٹک آلودگی سے دریا اور سمندر کو نجات دلانے کا خواب۔ تاہم، حقیقت یہ ہے کہ صرف عالمی منصوبے یا امداد مسئلے کا حل نہیں بن سکتے۔
پاکستان میں اگر اس پروگرام کے نتائج دیرپا بنانے ہیں تو ہمیں کچرا نظم و نسق، ری سائیکلنگ کے ڈھانچے اور پلاسٹک صنعت کی پالیسی اصلاحات پر سنجیدگی سے کام کرنا ہوگا۔
دریائے سندھ کی آلودگی صرف ایک ماحولیاتی مسئلہ نہیں، بلکہ سماجی اور معاشی طرزِ عمل کی عکاس ہے۔ جب تک شہری سطح پر رویوں میں تبدیلی نہیں آئے گی، پلاسٹک کا بہاؤ دریا سے سمندر تک جاری رہے گا۔ اس لیے“پلیز منصوبے”کو محض تکنیکی نہیں بلکہ تعلیمی اور معاشرتی شعور کی تحریک بنانا وقت کی ضرورت ہے۔
یہ بھی پڑھیں
عرب دنیا میں موسمیاتی تبدیلی: گرین جابز کے نئے مواقع اور معاشی تبدیلی
یہ منصوبہ اس وقت حقیقی کامیابی حاصل کرے گا جب حکومتیں، تعلیمی ادارے، میڈیا اور مقامی کمیونٹیز ایک ساتھ کھڑے ہوں۔
ہمیں یاد رکھنا ہو گا کہ ماحول صرف منصوبوں سے نہیں بچتا بلکہ نیت، عمل اور تسلسل سے محفوظ ہوتا ہے۔ اگر ہم نے یہ عزم برقرار رکھا تو دریائے سندھ صرف پانی نہیں، بلکہ مستقبل کی پاکیزہ سانس بن سکتا ہے
حوا لہ جات
اقوام متحدہ کا ماحولیاتی پروگرام (UNEP) “Plastic Pollution in South Asian Rivers: Regional Assessment Report” 2024۔۔
جنوبی ایشیا میں ماحولیاتی تعاون تنظیم (SACEP) “Plastic Free Rivers and Seas for South Asia (PLEASE) Annual Report” 2024۔
ڈبلیو ڈبلیو ایف ا۔پاکستان۔”River Indus Plastic Monitoring Pilot Study”? 2024?۔
پاکستان واٹر پاٹنرشپ۔۔Community-based Waste Management Initiatives along the Indus River” 2023 “۔
