سندھ کے دریاؤں پر ڈیم پالیسی کا کیا اثر ہو رہا ہے؟ جانیں زرخیز زمین، ماحول اور پانی کے بحران پر پڑنے والے خطرناک نتائج کی حقیقت
کاشف حسن

پاکستان کی تاریخ اور جغرافیہ میں دریاؤں کا کردار نہایت اہم اور بنیادی ہے۔ خصوصاً سندھ کے دریاؤں کی اہمیت صرف پانی کے ذخیرے یا زراعت تک محدود نہیں بلکہ یہ خطے کی قدیم تہذیب، زرخیزی، معاشرتی زندگی اور ماحولیاتی توازن سے جڑے ہوئے ہیں۔ تاہم، حالیہ دہائیوں میں ڈیم پالیسیوں اور مختلف آبی منصوبوں نے ان دریاؤں کے قدرتی بہاؤ اور ماحولیاتی نظام پر گہرے اثرات ڈالے ہیں، جن پر سنجیدہ توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
دریائے سندھ، جو پانچ ہزار سال قبل ہندو مقدس کتابوں میں سندھو کے نام سے مشہور تھا، آج بھی اپنی تاریخی، ثقافتی اور ماحولیاتی اہمیت رکھتا ہے۔

چند صدیاں پہلے اسے “اباسین” کے نام سے بھی جانا گیا، لیکن اصل حقیقت یہ ہے کہ یہ دریا اپنی مستقل اہمیت کے ساتھ صدیوں سے انسانی زندگی کا محور رہا ہے۔
دریاؤں کا قدرتی بہاؤ اور زرخیز زمین
دریاؤں کا قدرتی بہاؤ ایک مکمل ماحولیاتی نظام کا حصہ ہوتا ہے۔ جب دریا بہتے ہیں تو وہ اپنے ساتھ ریت، مٹی اور غذائیتی عناصر لے کر آتے ہیں، جو ڈیلٹا کی زمین کو زرخیز اور آبادگار بناتے ہیں۔ یہ زمین صدیوں سے کسانوں اور ماہی گیروں کے لیے روزگار اور غذا کا ذریعہ رہی ہے۔
ڈیمز سے قدرتی بہاؤ کیسے رُکتا ہے؟
دریاؤں کے بہاؤ کی قدرتی راہیں انسانی زندگی کے ساتھ ساتھ جنگلات، جھیلوں اور دیگر حیاتیاتی نظام کے لیے بھی اہم ہیں۔ تاہم، حالیہ دہائیوں میں پانی کی پالیسی اور ڈیموں کے قیام نے اس نظام پر اثرات مرتب کیے ہیں۔
جب پانی ڈیموں میں محفوظ ہوتا ہے، تو وہ اپنی قدرتی راہوں سے سمندر تک نہیں پہنچ پاتا، جس کے نتیجے میں ڈیلٹا کی زمین بنجر ہو جاتی ہے۔
ڈیلٹا کی پچاس لاکھ ایکٹر سے زائد زمین اس وجہ سے متاثر ہوئی کہ پانی کی منصوبہ بندی زیادہ تر ٹھیکیداروں کی تجارتی سوچ اور سیاسی مفادات کی بنیاد پر کی گئی، نہ کہ ہائیڈرولوجسٹس اور ماہرین ماحولیات کے مشورے سے۔
دریاؤں کا قدرتی بہاؤ اور آبی منصوبوں کے اثرات
ڈیموں اور (ڈیم پالیسی)کے قیام سے سندھ کی قدیم اور سرسبز زمین کی حالت میں نمایاں تبدیلی آئی ہے۔ پانی کی قدرتی روانی رکنے سے مٹی اور ریت کی روانی بھی متاثر ہوئی، جس کے نتیجے میں ڈیلٹا کی زمین کی زرخیزی میں کمی واقع ہوئی۔
اس زمین پر صدیوں سے آباد لوگ، جو دریاؤں کے قدرتی بہاؤ اور ڈیلٹا کی زمین پر انحصار کرتے تھے، آج محدود وسائل کے ساتھ زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ مزید برآں، ڈیموں کے زیر اثر جھیلوں اور زمین کے پانی کے ذخائر میں کمی سے مقامی حیاتیاتی نظام بھی متاثر ہوا ہے۔
کمزور ڈیم پالیسی کی بنا پر وہ پرندے، مچھلیاں اور دیگر جنگلی حیات جو دریاؤں اور ڈیلٹا کی زمین پر منحصر ہیں، ان کی بقا خطرے میں آ گئی ہے۔ پانی کے قدرتی بہاؤ کی تبدیلی نے مقامی ماحول میں عدم توازن پیدا کیا ہے، جس کے اثرات آج بھی واضح ہیں۔
ڈیم پالیسی: تاریخی اور ثقافتی پہلو
سندھ کی زمین نہ صرف زرخیز ہے بلکہ یہ ایک قدیم تہذیب کی حامل بھی ہے۔ دریائے سندھ کے کنارے صدیوں سے انسانی آبادیاں رہی ہیں، اور یہ زمین صحت مند زراعت، معاشرتی ترقی اور ثقافتی روایتوں کی بنیاد رہی ہے۔
ڈیموں کے قیام اور پانی کی غلط پالیسی نے نہ صرف زمین کی زرخیزی کو متاثر کیا بلکہ یہ تاریخی ورثہ بھی خطرے میں ڈال دیا ہے۔
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ سندھ کی زمین ڈیموں سے قبل بھی سرسبز، شاداب اور زرخیز تھی۔ دریاؤں کے قدرتی بہاؤ کے بغیر یہ زمین اپنی اصل شکل میں آباد نہیں رہ سکتی۔

ماہرین ماحولیات کے مطابق، پانی کو اس کے قدرتی راستے سے سمندر تک جانے دینا ہی سب سے مؤثر اور پائیدار حل ہے۔ اس سے نہ صرف زمین زرخیز رہتی ہے بلکہ مقامی لوگوں کی روزگار اور خوراک کا نظام بھی مستحکم رہتا ہے۔
پانی کی غلط منصوبہ بندی سے سندھ کا ڈیلٹا کیسے متاثر ہوا؟
سیاسی اور سماجی پہلو
پاکستان میں پانی کی منصوبہ بندی اور ڈیموں کا قیام ایک حساس مسئلہ ہے۔ سندھ کے دریاؤں کو مکمل یا جزوی طور پر قابو میں لانے کے لیے بنائی جانے والی پالیسیوں کا اثر صرف ایک صوبے یا خطے تک محدود نہیں بلکہ پورے ملک کے ماحولیاتی اور زراعتی نظام پر پڑتا ہے۔
تاہم، سندھ کی زمین کی زرخیزی اور تاریخی اہمیت کو مدنظر رکھتے ہوئے، اس کی حفاظت ضروری ہے۔ اگر پانی کی منصوبہ بندی صرف کسی ایک صوبے کے فائدے کے لیے کی جائے تو اس کا نتیجہ ماحولیاتی اور سماجی نقصان کی صورت میں نکل سکتا ہے۔
مقامی لوگ، کسان، ماہی گیر اور زمین سے وابستہ کمیونٹیز اس تبدیلی کے براہِ راست اثرات برداشت کرتی ہیں۔ لہذا، ہر پانی کے منصوبے میں ماہرین ماحولیات، ہائیڈرولوجسٹس اور مقامی کمیونٹی کے مشورے کو شامل کرنا نہایت ضروری ہے۔
ماہرین ماحولیات کی رائے
ہائیڈرولوجسٹس اور ماہرین ماحولیات بارہا یہ کہتے آئے ہیں کہ ڈیمز اور پانی کی پالیسی صرف تجارتی یا سیاسی مفاد کی بنیاد پر نہیں بنائی جانی چاہیے۔
پانی کے قدرتی بہاؤ کو برقرار رکھنا زمین کی زرخیزی، مقامی آبادی کی فلاح اور ماحولیاتی توازن کے لیے لازمی ہے۔مزید برآں، قدرتی بہاؤ سے نہ صرف زمین کی زرخیزی بڑھتی ہے بلکہ ڈیلٹا کی زمین سمندر سے جڑ کر مختلف حیاتیاتی نظام کو بھی سہارا دیتی ہے۔
اس طرح کی پالیسی سے ماحولیات، زراعت اور انسانی زندگی کے درمیان توازن قائم رہتا ہے۔
حل اور سفارشات
قدرتی بہاؤ کو برقرار رکھنا
پانی کو اس کے قدرتی راستے سے سمندر تک جانے دینا، تاکہ ریت، مٹی اور غذائیتی عناصر زمین میں جمع ہوتے رہیں۔
ماہرین کی مشاورت
پانی کی منصوبہ بندی میں ہائیڈرولوجسٹس، ماہرین ماحولیات اور مقامی کمیونٹی کے مشورے لازمی ہوں۔
ڈیلٹا کی حفاظت
ڈیلٹا کی زمین کو زرخیز رکھنے کے لیے ڈیموں اور نہروں کا محتاط استعمال ضروری ہے۔
تاریخی اور ثقافتی تحفظ
سندھ کی زمین کی تاریخی اہمیت کو مدنظر رکھتے ہوئے پانی کے منصوبے ایسے بنائے جائیں کہ زمین، لوگ اور تہذیب محفوظ رہیں۔
یہ بھی پڑھیں
ڈیم: کیا پاکستان کے لیے سیلابی متبادل حل ہے؟
کیا پاکستان کا فلڈ وارننگ سسٹم عوام کو بچا سکتا ہے؟
حرف آخر
سندھ کے دریاؤں اور ڈیم پالیسی کے حوالے سے یہ بات واضح ہے کہ قدرتی بہاؤ کو قائم رکھنا زمین کی زرخیزی، مقامی لوگوں کی فلاح اور ماحولیاتی توازن کے لیے لازمی ہے۔
پانی کی منصوبہ بندی صرف تجارتی یا سیاسی مفاد کے لیے نہیں بلکہ ماہرین اور مقامی کمیونٹی کی مشاورت سے ہونی چاہیے۔
یہ زمین صدیوں سے انسانی تہذیب کا محور رہی ہے اور دریاؤں کے قدرتی بہاؤ کی بدولت سرسبز اور آباد رہی ہے۔ اس زمین کی حفاظت نہ صرف سندھ بلکہ پورے پاکستان کے لیے اہم ہے۔
پانی کی صحیح پالیسی اور ڈیموں کا محتاط استعمال نہ صرف ماحول، زراعت اور انسانی زندگی کے لیے فائدہ مند ہوگا بلکہ یہ قدیم تہذیب اور تاریخی ورثے کو بھی محفوظ رکھے گا۔
