فروزاں فروزاں کے مضامین

ڈیم: کیا پاکستان کے لیے سیلابی متبادل حل ہے؟

ڈیم

پاکستان میں ماحول دوست سیلاب تحفظ، ڈیم کے بغیر فطری فلڈ زون اور پانی کے بہاؤ کا انتظام مستقل متبادل حل ہیں

 ڈیم

پاکستان میں مون سون بارشوں سے پیدا ہونے والے سیلاب کے نتیجے میں ہونے والی تباہیوں نے ایک بار پھر اس بحث کو زندہ کر دیا ہے کہ کیا ہم مزید ڈیم بنائیں یا ان کے نقصانات پر غور کریں؟ یہ بحث نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر میں نئی نہیں، لیکن آج موسمیاتی تبدیلی کے عالمی منظرنامے میں اس کے جوابات پہلے سے زیادہ پیچیدہ اور دلچسپ ہیں۔یہ حقیقت ہے کہ دنیا کے کئی خطوں میں پرانے ڈیم توڑے جا رہے ہیں توکچھ جگہوں پر نئے منصوبے زیرِ غور ہیں، اور ساتھ ہی فطرت پر مبنی حل اور متبادل توانائی کے منصوبے تیزی سے ابھر کر سامنے آ رہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان کو اس عالمی مباحثے سے کوئیسبق لینا چاہیے؟

دنیا میں ڈیم کا بدلتا ہوا منظر

دنیا بھر میں لاکھوں چھوٹے اور بڑے ڈیم موجود ہیں جن میں سے بیشتر گزشتہ صدی میں تعمیر ہوئے۔ اب یہ ڈھانچے عمر، تحفظ اور ماحولیاتی چیلنجز سے دوچار ہیں۔ ماہرین کے مطابق سن 2050 تک دنیا بھر کے آبی ذخائر کی کارآمد صلاحیت تقریباً ایک چوتھائی کم ہو جائے گی، کیونکہ دریاؤں سے آنے والی مٹی(sediment) تیزی سے ان کو بھر رہیہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ پرانے ڈیم اپنی اصل افادیت کھوتے جا رہے ہیں۔

ڈیموں کا انہدام: ایک بڑھتا رجحان

اگر ہم امریکہ اور یورپ کی مثالوں کی بات کریں توصرف امریکہ میں سن 2024 میں 108 ڈیم گرائے گئے جو ایک ریکارڈ تعداد ہے۔ اور اب تک امریکہ بھر میں دو ہزار سے زائد ڈیم ہٹائے جا چکے ہیں۔

اس کی وجوہات میں حفاظت کے خدشات، مالی بوجھ، اور ماحولیاتی بحالی شامل ہیں۔سن 2024 میں امریکہ کے کلَیمتھ دریا پر چار بڑے ڈیم ہٹائے گئے۔

ایک طرف یہ ہ منصوبہ جدید تاریخ میں ڈیم ہٹانے کی سب سے بڑی کوشش تھی تو دوسری طرف اس کے نتیجے میں تقریباً 400 میل کا دریا دوبارہ آزاد ہو گیا اور سالمون جیسی انواع کی واپسی ممکن بنی۔

اسی طرح یورپ میں بھی پرانے ڈیم توڑے جا رہے ہیں تاکہ دریاؤں کو قدرتی بہاؤ واپس ملے اور مچھلیوں کی افزائش بحال ہو سکے۔

کیا نئے بڑے ڈیم بننا بند ہو گئے؟

یہ کہنا درست نہیں کہ دنیا میں ڈیم بننا بند ہو گئے ہیں۔ ایشیا اور افریقہ میں کچھ بڑے منصوبے اب بھی جاری ہیں، لیکن مجموعی طور پر میگا ڈیموں کے بننے کی رفتار سست ہو گئی ہے جس کی وجوہات میں بھاری لاگت اور طویل تاخیر،مقامی آبادیوں کی بے دخلی اور موسمیاتی تبدیلی کے باعث غیر یقینی بارشیں اور خشک سالی جیسے عوامل شامل ہیں۔

اگرچہ متعدد مطالعات کے مطابق اکثر بڑے ڈیم اپنے ابتدائی تخمینوں سے کہیں زیادہ مہنگے اور دیر سے مکمل ہوتے ہیں، جس کے باعث پالیسی ساز اب نسبتاً تیز، سستے اور ماحول دوست متبادلات کی طرف دیکھ رہے ہیں۔

ڈیم

ڈیم کے بغیر سیلاب کا حل: دنیا کے متبادل راستے

دنیا موسمیاتی تبدیلی کے تناظر میں متبادل راستے تلاش کرنے میں مصروف ہے جس میں ہوا اور شمسی توانائی سر فہرست ہیں جس کی لاگت دنیا بھر میں تیزی سے کم ہو تی جا رہی ہے، کئی خطوں میں یہ کوئلہ اور گیس سے بھی سستی ہے۔

پمپڈ اسٹوریج ہائیڈرو (واٹر بیٹری) ایسا ہی ایک نظام ہے جس میں پانی کو اونچائی پر پمپ کر کے بعد میں بجلی بنانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے، اور یہ دریاؤں کے بہاؤ کو روکے بغیر کام کرتا ہے۔

بیٹری اسٹوریج اور گرڈ کی توانائی کے نظام کو لچک دینے کے لیے یہ عالمی سطح پر تیزی سے اپنایا بھی جا رہا ہے۔ پاکستان میں مون سون بارشوں کے نتیجے میں آنے والے سیلاب اب کوئی نئی بات نہیں رہے۔

ہر سال یہ آفت ہزاروں گھروں کو بہا لے جاتی ہے، لاکھوں افراد بے گھر ہو جاتے ہیں اور معیشت کو بھاری نقصان پہنچتا ہے۔

سن 2022 کے تباہ کن سیلاب جس نے عالمی سطح پر توجہ حاصل کی اورموجودہ سیلاب سے یہ حقیقت ایک بار پھر آشکار ہوئی کہ صرف ڈیم یا بند تعمیر کرنا مسئلے کا مستقل حل نہیں۔

چناچہ ایسے میں دنیا کے مختلف ممالک کے تجربات ہمارے لیے رہنمائی فراہم کر سکتے ہیں۔ ہالینڈ کا ”روم فار دی ریور“ منصوبہ ایک کامیاب ماڈل کے طور پر دنیا کے سامنے آیا ہے، جس سے پاکستان بھی بہت کچھ سیکھ سکتا ہے۔

روم فار دی ریور: ایک عالمی ماڈل

ہالینڈ میں سن 1990 کی دہائی میں آنے والے شدید سیلابوں نے حکومت کو سوچنے پر مجبور کیا کہ اونچے بند باندھنے سے مسئلہ ختم نہیں ہو رہا بلکہ بڑھ رہا ہے۔

نتیجتاً سن 2006 میں ”روم فار دی ریور“ منصوبہ شروع کیا گیا جس کا مقصد یہ تھا کہ دریاؤں کو مزید تنگ کرنے کے بجائے ان کے لیے جگہ نکالی جائے۔

اس منصوبے کے تحت دریاؤں کے کناروں پر اضافی گنجائش پیدا کی گئی، فلڈ پلینز دوبارہ بحال کیے گئے، غیر ضروری بند توڑ دیے گئے اور کچھ مقامات پر پانی کے بہاؤ کے متبادل راستے نکالے گئے۔

یہ منصوبہ سن 2015 میں مکمل ہوا اور اس کے نتیجے میں نہ صرف سیلابی خطرات کم ہوئے بلکہ ماحولیات، زراعت اور شہری زندگی میں بھی نمایاں بہتری آئی۔

تقریباً 2.2 سے 2.3 بلین یورو کی لاگت سے مکمل ہونے والا یہ منصوبہ بظاہر مہنگا ضرور تھا مگر اس کے طویل المدتی فوائد میں سیلابی نقصانات میں کمی، ماحولیات کی بحالی اور شہروں کی ترقی نے اسے ایک کامیاب سرمایہ کاری ثابت کیا۔

پروگرام کے زیادہ تر منصوبے سن 2015 تک مکمل ہو گئے تھے، جبکہ چند بڑے پروجیکٹس سن 2018 میں پایہ تکمیل کو پہنچے۔

اس کے بعد ڈچ حکومت نے ”روم فار دی ریور 2.0“ کے نام سے اگلا مرحلہ شروع کیا ہے جو سن 2026 تک جاری رہے گا۔

یہ منصوبہ محض سیلابی تحفظ تک محدود نہیں بلکہ ایک جامع سوچ کے تحت ہے جس میں ماحولیاتی نظام، شہری زندگی اور معاشی مستقبل کو بھی ساتھ رکھا گیا ہے۔

روم فار دی ریور آج دنیا کے لیے ایک عملی مثال ہے کہ پانی کے خلاف بند باندھنے کے بجائے اگر اسے جگہ دی جائے تو یہ دشمن کے بجائے دوست بھی بن سکتا ہے۔

آج یہ ماڈل دنیا بھر میں ایک مثال کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ پاکستان کے تناظر میں ”روم فار دی ریور“ ماڈل ہمیں کئی اہم اسباق فراہم کرتا ہے۔

ہمارے ہاں اکثر سیلابی پانی کا قدرتی راستہ ہی بند کر دیا جاتا ہے، چاہے وہ غیر منصوبہ بندی کے تحت تعمیر شدہ بستیاں ہوں یا زرعی زمینوں کی توسیع۔ نتیجتاً پانی جب اپنا راستہ خود بناتا ہے تو تباہی ہم سب کے سامنے ہوتی ہے۔

ڈیم

دریائے سندھ کا ڈیلٹا اور کچے کے علاقے پانی کے قدرتی راستے تھے، لیکن ان پر مسلسل تعمیرات اور زرعی دباؤ نے ان راستوں کو محدود کر دیا ہے۔ اگر ان فلڈ پلینز کو دوبارہ کھولا جائے تو نہ صرف سیلابی دباؤ کم ہو گا بلکہ ڈیلٹا کا ماحولیاتی توازن بھی بحال ہو سکتا ہے۔

جنوبی پنجاب میں تونسہ اور مظفرگڑھ کے فلڈ پلینز اکثر شدید نقصان اٹھاتے ہیں کیونکہ ان میں بستیاں اور کھیتی باڑی قائم ہو چکی ہے۔ اگر یہ علاقے دوبارہ قدرتی بہاؤ کے لیے مختص کر دیے جائیں تو جانی و مالی نقصان کو بڑی حد تک کم کیا جا سکتا ہے۔

ڈیم

خیبرپختونخوا میں دریائے سوات اور کابل کے کنارے پر آباد بستیاں ہر سال بارشوں کے نتیجے میں متاثر ہوتی ہیں۔ اگر ان دریاؤں کے کناروں پر تعمیرات محدود کی جائیں اور پانی کے بہاؤ کے لیے اضافی جگہ فراہم کی جائے تو یہ تباہی بڑی حد تک روکی جا سکتی ہے۔

پاکستان میں سیلابی آفات کا سامنا کرنے کے لیے صرف ڈیم اور بند پر انحصار کافی نہیں۔ ہمیں ہالینڈ کے ماڈل سے یہ سبق لینا ہوگا کہ پانی کے ساتھ جنگ کرنے کے بجائے اسے گزرنے کے لیے جگہ دی جائے۔

روم فار دی ریور جیسے اقدامات پاکستان میں بھی نہ صرف انسانی جانوں کو بچا سکتے ہیں بلکہ زراعت، ماحولیاتی توازن اور شہری زندگی کے معیار کو بہتر بنانے میں بھی کلیدی کردار ادا کر سکتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں

کیااقوامِ متحدہ کا گلوبل اسٹاک ٹیک پاکستان کو موسمیاتی بحران سے بچا پائے گا؟

قائداعظم یونیورسٹی میں شجر کاری اور صفائی مہم کا انعقاد

اگر ہم آج فیصلہ نہیں کریں گے تو آنے والے مون سون ہر سال ہمیں اسی تباہی کا سامنا کرواتے رہیں گے۔ دنیا ہمیں دکھا رہی ہے کہ ڈیم کوئی سادہ سا حل نہیں۔

جہاں پرانے ڈیم ناکارہ یا خطرناک ہو رہے ہیں وہاں انہیں توڑا جا رہا ہے، اور جہاں توانائی یا پانی کی ضرورت ہے وہاں نئے لیکن محدود اور ماحول دوست ڈھانچے بن رہے ہیں۔

اصل سبق یہ ہے کہ پانی اور توانائی کے مسائل کا ایک ہی حل نہیں بلکہ ہمیں اس حوالے سے ایک متنوع حکمتِ عملی اپنانا ہوگی جو فطرت سے ہم آہنگ ہو، معاشی طور پر قابلِ عمل ہو اور مقامی کمیونٹی کو ساتھ لے کر چلے۔

فطری فلڈ زون کی بحالی ناگزیر ہے۔ علاوہ ازیں پانی کے بہاؤ کے قدرتی انتظام کا بندوبست کرکے بحال کرنا ہوگا۔

پاکستان اگر اس سمت میں سوچے تو نہ صرف سیلابی آفات کو کم کر سکتا ہے بلکہ اپنی توانائی اور پانی کی مستقبل کی ضروریات بھی بہتر طور پر پوری کر سکتا ہے۔

اپنا تبصرہ لکھیں