پاکستان میں کلائمیٹ چینج، حالیہ سیلاب، اور ماحولیات پر حکومتی حکمتِ عملی پر وزارتِ ماحولیات کے ترجمان کا اہم انٹرویو۔
فرحین العاص
کلائمیٹ چینج اور پاکستان
آج کل کلائمیٹ چینج پاکستان میں ایک اہم موضوع بن چکا ہے۔ خاص طور پر حالیہ سیلاب نے اس کی سنگینی کو سب کے سامنے لا کھڑا کیا ہے۔ لیکن اگر صرف 10 سے 15 سال پیچھے جائیں تو یہی موضوع میڈیا میں غیر اہم اور خشک سمجھا جاتا تھا۔
اس وقت کے ماہرین، جو آج ٹی وی چینلز پر دکھائی دیتے ہیں، کل تک کسی خاص اہمیت کے حامل نہ تھے۔ شاذ و نادر ہی ان کے مضامین پر توجہ دی جاتی تھی۔ حالانکہ وہ بار بار پاکستان میں کلائمیٹ چینج کی تباہ کاریوں کی پیش گوئیاں کرتے رہے۔
آج صورتحال یہ ہے کہ اگر اب بھی مؤثر اقدامات نہ کیے گئے تو آنے والی نسلوں کو تباہ کن اثرات کا سامنا ہوگا۔ اسی پس منظر میں وزارتِ ماحولیات و رابطہ کے ترجمان سلیم شیخ نے فروزاں سے ایک نٹرویو میں تفصیلی گفتگو کی ہے۔
وزارتِ ماحولیات کا بنیادی کام
ترجمان کے مطابق وزارتِ ماحولیات و رابطہ کا بنیادی کام قومی سطح پر کلائمیٹ چینج اور ڈیزاسٹر پالیسیز بنانا ہے۔ اس کے ساتھ تخفیف اور مطابقت پذیری کے اقدامات کے ذریعے پاکستان کی ماحولیاتی لچک میں اضافہ بھی وزارت کا مقصد ہے۔
کلائمیٹ پالیسی کا کردار
سلیم شیخ نے بتایا کہ سن 2012 میں پاکستان کی نیشنل ڈیزاسٹر/کلائمیٹ پالیسی بنی تھی۔ اس میں سیلاب اور دیگر موسمی خطرات سے بچاؤ کے اقدامات درج ہیں۔
انہوں نے وضاحت کی کہ ان اقدامات پر ملکی سطح پر عمل درآمد ہونا چاہیے۔ وفاق صوبوں اور این ڈی ایم اے کے ساتھ کوآرڈینیشن کرتا ہے تاکہ متاثرین کی بروقت مدد اور پیشگی تیاری یقینی بنائی جا سکے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی اور صوبائی ادارے عملی ریلیف و ریسکیو کام کرتے ہیں، جبکہ وزارتِ ماحولیات پالیسی سطح پر رہنمائی دیتی ہے اور عالمی اداروں کے ساتھ رابطہ رکھتی ہے۔
رواں برس کے سیلاب کے نقصانات
ترجمان نے کہا کہ رواں برس کا سیلاب انتہائی تباہ کن ثابت ہوا۔ تقریباً 1100 افراد جاں بحق ہوئے۔ پنجاب میں 5 سے 10 ہزار دیہات متاثر ہوئے۔ کل مالی نقصان تقریباً 410 ارب روپے رہا۔
ان میں سے صرف زرعی شعبے میں 300 ارب روپے کا نقصان ہوا۔ چاول اور گندم کی فصلیں مکمل طور پر تباہ ہوئیں۔ لائیو اسٹاک کو 11.5 ارب روپے اور رہائشی گھروں کو 8 ارب روپے کا نقصان پہنچا۔
انہوں نے مزید کہا کہ تعلیم، ٹرانسپورٹ، ہاؤسنگ اور صحت کے شعبے بھی شدید متاثر ہوئے۔ حکومت پاکستان ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کر رہی ہے لیکن صورتحال نہایت تشویشناک ہے۔
اجناس کی قیمتوں میں اضافہ
سیلاب کے بعد اجناس کی قیمتوں میں اضافے کا خدشہ بھی بڑھ گیا۔ فصلیں اور سبزیاں تباہ ہونے سے رسد کم ہوگئی۔ ترسیل کا نظام بھی متاثر ہوا۔ نتیجتاً آٹے اور سبزیوں کی قیمتوں میں اضافہ ناگزیر ہے۔
محکمہ موسمیات نے خبردار کیا ہے کہ آئندہ مون سون کا دورانیہ زیادہ طویل ہو سکتا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق مستقبل میں ہر سال تقریباً 10 لاکھ لوگ سیلابوں سے متاثر ہو سکتے ہیں۔ اربن فلڈز بھی شدت اختیار کریں گے۔ اس لیے ارلی وارننگ سسٹمز اور ڈرینیج کا بہتر انتظام لازمی ہے۔
یہ بھی پڑھیں:ڈیم: کیا پاکستان کے لیے سیلابی متبادل حل ہے؟
ڈیم پالیسی: کیا سندھ کے دریا اور زرخیز زمین خطرے میں ہیں؟
قائداعظم یونیورسٹی میں شجر کاری اور صفائی مہم کا انعقاد
اٹھارویں ترمیم کے بعد ذمہ داریاں
سلیم شیخ نے کہا کہ اٹھارویں ترمیم کے بعد ماحول اور کلائمیٹ بنیادی طور پر صوبائی سبجیکٹ ہیں۔ تاہم وفاق بین الاقوامی رپورٹنگ، فنڈنگ اور نیشنل پالیسی کے حوالے سے کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔ صوبے اکیلے اس چیلنج سے نہیں نمٹ سکتے۔ سب کو مل کر کام کرنا ہوگا۔
جامع حکمتِ عملی کی کمی
اسلام آباد میں اربن فلڈنگ کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ فی الحال کوئی جامع حکمتِ عملی موجود نہیں ہے۔ تاہم اس پر تیزی سے کام جاری ہے اور جلد مکمل ہو جائے گا۔
انہوں نے بتایا کہ تیز اربنائزیشن، آبادی میں اضافہ، نالوں پر قبضے، گرین ایریاز کی کمی اور اربن ہیٹ آئی لینڈ ایفیکٹ بڑی وجوہ ہیں۔ مثال کے طور پر اسلام آباد میں ایک گھنٹے میں 99 ملی میٹر بارش ہوئی، جس سے شدید اربن فلڈنگ کا سامنا کرنا پڑا۔
ڈیمز اور پانی کا مسئلہ
ڈیمز کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ ڈیم اور ریزروائرز بہت ضروری ہیں۔ یہ سیلابی پانی کو ذخیرہ کرتے ہیں، زیرِ زمین پانی ریچارج ہوتا ہے اور زرعی و شہری ضروریات پوری ہوتی ہیں۔ تاہم ویٹ لینڈز اور فلڈ پلینز کی بحالی بھی لازمی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ پاکستان میں ہر سال تقریباً 140 ملین ایکڑ فٹ پانی دستیاب ہوتا ہے۔ اس میں سے 90 فیصد زرعی شعبے میں استعمال ہوتا ہے، مگر صرف 30 فیصد مؤثر طریقے سے استعمال ہوتا ہے۔ باقی 70 فیصد ضائع ہو جاتا ہے۔
اس کا حل نہروں کی لائننگ، ڈیمز اور جدید آبپاشی کے طریقے ہیں۔ پاکستان کی کل زمین 80 ملین ایکڑ ہے، جن میں سے 7,80,000 ہیکٹر ویٹ لینڈز پر مشتمل ہے۔ یہ قدرتی اسپنج کا کردار ادا کرتی ہیں۔ مگر ان پر تجاوزات قائم ہو چکی ہیں۔ ان کی بحالی سے سیلاب کا زور کم ہوگا اور گراؤنڈ واٹر ریچارج بہتر ہوگا۔
نتیجہ
گفتگو کے اختتام پر سلیم شیخ نے کہا کہ عوامی آگاہی سب سے اہم ہے۔ اس عمل میں خواتین کو بھی شامل کرنا ہوگا۔ تجاوزات ختم کرنا، مقامی ایکشن پلانز بنانا اور صحت، تعلیم، ٹرانسپورٹ و زراعت کو کلائمیٹ ریزیلینٹ بنانا ہماری ترجیحات ہیں۔
انہوں نے کہا کہ صوبوں کو معیاری پروجیکٹس تیار کرنے چاہئیں تاکہ وہ گرین کلائمیٹ فنڈ اور دیگر عالمی اداروں سے فنڈنگ حاصل کر سکیں۔ وفاق ان منصوبوں کو بین الاقوامی سطح پر کنیکٹ کرے گا۔