گلوبل اسٹاک ٹیک رپورٹ پاکستان کے ماحولیاتی اہداف اور موسمیاتی بحران کی حقیقت آشکار کررہی ہے، گلوبل اسٹاک ٹیک پاکستان کے لیے دوہرا چیلنج ہے۔
فروزاں ڈیسک
موسمیاتی تبدیلی کے خلاف عالمی جدوجہد میں اقوامِ متحدہ کا کردار ہمیشہ مرکزی رہا ہے۔ تاہم اس ضمن میں گلوبل اسٹاک ٹیک رپورٹ اور سن 2015 کے پیرس معاہدے کے بعد سے عالمی برادری نے اس بات پر اتفاق کیا کہ ہر ملک اپنے ماحولیاتی اہداف طے کرے اور ان پر عمل درآمد کی باقاعدہ نگرانی کی جائے۔
اس تناظر میں اقوامِ متحدہ نے گلوبل اسٹاک ٹیک (Global Stocktake – GST) کا عمل شروع کیا ہے، جو ہر پانچ سال بعد اس بات کا جائزہ لیتا ہے کہ دنیا اپنے اہداف کی تکمیل میں کہاں کھڑی ہے؟
پہلی گلوبل اسٹاک ٹیک رپورٹ سن (2023) نے واضح کیا ہے کہ دنیا اب بھی 1.5 ڈگری سیلسیس ہدف سے دور ہے۔
پاکستان جیسے ترقی پذیر اور موسمیاتی لحاظ سے شدید متاثرہ ممالک کے لیے یہ رپورٹ نہایت اہم ہے، کیونکہ یہ نہ صرف عالمی پیش رفت کو اجاگر کرتی ہے بلکہ پاکستان کی اپنی پالیسیوں اور اہداف کی بھی عکاسی کرتی ہے۔
اس آرٹیکل میں ہم اقوامِ متحدہ کے گلوبل اسٹاک ٹیک کے بنیادی نکات اور پاکستان کی کارکردگی کا جائزہ لیں گے۔

گلوبل اسٹاک ٹیک کیا ہے؟
گلوبل اسٹاک ٹیک (GST) دراصل ایک احتسابی عمل ہے جس کے تحت یہ دیکھا جاتا ہے کہ دنیا پیرس معاہدے کے اہداف کے مطابق کتنی پیش رفت کر چکی ہے۔
علاوہ ازیں یہ ممالک کو اپنی پالیسیوں میں اصلاحات کا موقع ملتا ہے۔حتی کہ ترقی پذیر ممالک کے لیے مالی اور تکنیکی امداد کی ضرورت اجاگر کی جاتی ہے۔
اس رپورٹ کے مطابق، اگر موجودہ رفتار برقرار رہی تو دنیا 2100 تک 2.5 سے 2.8 ڈگری سیلسیس درجہ حرارت میں اضافے کی جانب بڑھ رہی ہے، جو ماحولیاتی لحاظ سے تباہ کن ثابت ہوگا۔

پاکستان کا ماحولیاتی منظرنامہ
پاکستان دنیا کے ان 10 ممالک میں شامل ہے جو سب سے زیادہ موسمیاتی تبدیلی سے متاثر ہیں، حالانکہ عالمی گرین ہاؤس گیسوں میں اس کا حصہ ایک فیصد سے بھی کم ہے۔
سن 2022 کے سیلاب نے پاکستان کو 30 ارب ڈالر سے زائد کا نقصان پہنچایا۔ سن 2023 اور سن 2024 کی شدید گرمی کی لہروں نے لاکھوں افراد کو متاثر کیا۔
زرعی پیداوار میں کمی، پانی کی کمی اور صحت کے مسائل بڑھتے جا رہے ہیں۔ یہ صورتحال ظاہر کرتی ہے کہ پاکستان کے لیے گلوبل اسٹاک ٹیک کی رپورٹس محض کاغذی کارروائی نہیں بلکہ ایک وجودی معاملہ ہیں۔
گلوبل اسٹاک ٹیک: پاکستان کے وعدے اور اہداف
پاکستان نے پیرس معاہدے کے تحت اپنے ”قومی طور پر طے شدہ اہداف” (Nationally Determined Contributions – NDCs) پیش کیے تھے۔ ان میں شامل ہے کہ سن 2030 تک گرین ہاؤس گیسوں میں 50 فیصد کمی (مشروط اہداف کے تحت، بین الاقوامی مالی امداد کے ساتھ)کی جائے گی۔
توانائی کے شعبے میں 60 فیصد بجلی قابلِ تجدید ذرائع سے پیدا کرنے کا ہدف رکھا گیا۔
تیس ( 30 ) فیصد برقی گاڑیاں متعارف کرانے کا منصوبہ۔
دس (10)”بلین ٹری سونامی” جیسے بڑے شجرکاری منصوبے۔
تاہم ان اہداف پر عمل درآمد میں کئی مشکلات حائل ہیں۔
یہ بھی پڑھیں
کیا پاکستان کا فلڈ وارننگ سسٹم عوام کو بچا سکتا ہے؟
شمالی پاکستان میں گلیشیائی جھیل پھٹنے کا خطرہ
پاکستان کی پیش رفت: کامیابیاں
شجرکاری مہم: ”ٹین بلین ٹری سونامی” منصوبے کے تحت اب تک تقریباً 2 ارب درخت لگائے جا چکے ہیں، جسے اقوامِ متحدہ اور ورلڈ اکنامک فورم نے سراہا ہے۔
قابلِ تجدید توانائی کے حوالے سے پاکستان میں ونڈ اور سولر پروجیکٹس کی رفتار بڑھی ہے، خاص طور پر سندھ اور بلوچستان میں۔
قانون سازی کے ضمن میں پاکستان نے ”نیشنل کلائمیٹ چینج پالیسی” اور ”الٹرنیٹ انرجی پالیسی سن 2019 ” متعارف کرائی۔
عالمی قیادت میں کردار ادا کرتے ہوئےسن 2022 کے بعد پاکستان نے اقوامِ متحدہ میں ماحولیاتی انصاف (Climate Justice) کا بیانیہ پیش کیا اور ”Loss and Damage Fund” کے قیام میں کلیدی کردار ادا کیا۔
پاکستان کی مشکلات اور کمزوریاں
مالی وسائل کی کمی: پاکستان کو اپنے اہداف کے لیے سالانہ 10 سے 14 ارب ڈالر کی ضرورت ہے، لیکن عالمی امداد اس کا صرف 5 فیصد بھی پوری نہیں کر پاتی۔
: توانائی کا بحران
پاکستان اب بھی اپنی 60 فیصد سے زائد توانائی فوسل فیول سے حاصل کرتا ہے۔
: زرعی شعبہ
موجودہ نظام غیر پائیدار ہے اور گرین ہاؤس گیسوں کا بڑا ذریعہ ہے۔عمل درآمد کا فقدان: پالیسی سازی تو موجود ہے لیکن اس پر عملدرآمد انتہائی سست ہے۔
: سیاسی عدم استحکام
حکومتوں کی تبدیلی اور پالیسی تسلسل کی کمی نے ماحولیاتی اہداف کو متاثر کیا ہے۔
گلوبل اسٹاک ٹیک میں پاکستان کی پوزیشن
سن2023 کی رپورٹ میں پاکستان کو ایک ایسے ملک کے طور پر اجاگر کیا گیا جو موسمیاتی تبدیلی کا شکار تو ہے لیکن اس کا ذمہ دار نہیں۔جس نے اہداف مقرر کیے مگر مالی وسائل کی کمی کے باعث ان پر مکمل عمل نہیں ہو سکا۔جس کے لیے بین الاقوامی تعاون اور ”کلائمیٹ فنانس” ناگزیر ہے۔
بین الاقوامی تعاون کی ضرورت
گلوبل اسٹاک ٹیک نے واضح کیا ہے کہ ترقی پذیر ممالک، بالخصوص پاکستان، کو فوری طور پرکلائمیٹ فنانس تک رسائی (100 ارب ڈالر سالانہ کا عالمی وعدہ)۔ٹیکنالوجی کی منتقلی (renewable tech, carbon capture, smart irrigation)۔صلاحیت سازی (capacity building)کی ضرورت ہے۔ بصورت دیگر اہداف کاغذی رہ جائیں گے۔
گلوبل اسٹاک ٹیک اور پاکستان کے لیے سفارشات
توانائی کا انقلاب: قابلِ تجدید ذرائع میں سرمایہ کاری کو ترجیح دی جائے۔شہری منصوبہ بندی: شہروں کو اربن ہیٹ آئی لینڈ ایفیکٹ سے بچانے کے لیے ”گرین انفراسٹرکچر” اپنایا جائے۔
زرعی اصلاحات: کم پانی استعمال کرنے والی فصلوں اور ”کلائمیٹ اسمارٹ ایگریکلچر” کو فروغ دیا جائے۔عوامی شمولیت: نوجوانوں اور سول سوسائٹی کو اس عمل میں شامل کیا جائے۔ب
ین الاقوامی دباؤ: عالمی فورمز پر موسمیاتی انصاف کا مطالبہ مزید زور سے کیا جائے تاکہ ترقی یافتہ ممالک اپنے وعدے پورے کریں۔
اقوامِ متحدہ کا گلوبل اسٹاک ٹیک واضح کرتا ہے کہ دنیا اب بھی اپنے اہداف سے پیچھے ہے۔ پاکستان جیسے ممالک کے لیے یہ ایک دوہرا چیلنج ہے۔
ایک طرف وہ شدید موسمیاتی اثرات کا سامنا کر رہے ہیں اور دوسری طرف ان کے پاس وسائل محدود ہیں۔
پاکستان نے کچھ اہم اقدامات ضرور کیے ہیں لیکن اصل امتحان ان اہداف پر مستقل اور مربوط عملدرآمد ہے۔
عالمی برادری کو چاہیے کہ وہ پاکستان جیسے ممالک کے لیے مالی اور تکنیکی مدد میں اضافہ کرے، کیونکہ موسمیاتی تبدیلی ایک عالمی مسئلہ ہے اور اس کا حل بھی صرف عالمی تعاون سے ممکن ہے۔
پاکستان کی کارکردگی یہ ظاہر کرتی ہے کہ نیت اور وژن تو موجود ہے، مگر وسائل اور تسلسل کی کمی سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔
اقوامِ متحدہ کے تازہ ترین گلوبل اسٹاک ٹیک نے واضح کیا ہے کہ دنیا پیرس معاہدے کے اہداف کے مطابق درجہ حرارت کو 1.5 ڈگری سیلسیس تک محدود کرنے میں ناکام ہو رہی ہے اور صدی کے اختتام تک 2.5 سے 2.8 ڈگری اضافے کا خدشہ ہے۔
پاکستان، جو عالمی گرین ہاؤس گیسوں میں نہ ہونے کے برابر حصہ رکھتا ہے، ان اثرات کا سب سے زیادہ شکار ہے۔
تاہم مالی وسائل کی کمی، توانائی کے بحران اور پالیسی تسلسل کی کمی بڑی رکاوٹیں ہیں۔ گلوبل اسٹاک ٹیک اس حقیقت کو اجاگر کرتا ہے کہ پاکستان کے لیے یہ محض ایک رپورٹ نہیں بلکہ بقا کا سوال ہے۔

عالمی حوالہ جات
یو این ایف سی سی سی (2023). گلوبل اسٹاک ٹیک رپورٹ۔ بون: اقوامِ متحدہ فریم ورک کنونشن برائے موسمیاتی تبدیلی۔آئی پی سی سی (2023). ششم جائزہ رپورٹ: موسمیاتی تبدیلی 2023۔ بین الحکومتی پینل برائے موسمیاتی تبدیلی۔انٹرنیشنل انرجی ایجنسی (2024). عالمی توانائی سرمایہ کاری 2024۔ پیرس: آئی ای اے۔ورلڈ ریسورسز انسٹی ٹیوٹ (2024). نیٹ زیرو ٹریکر: عالمی سطح پر ماحولیاتی وعدوں کی پیش رفت۔ واشنگٹن ڈی سی: ڈبلیو آر آئی۔رائٹرز (2025). پاکستان سمیت ترقی پذیر ممالک کو ماحولیاتی اہداف کے لیے اضافی سرمایہ کاری درکار۔ دستیاب: reuters.com۔دی گارڈین (2024). گلوبل اسٹاک ٹیک میں ترقی پذیر دنیا کی مشکلات اجاگر۔ دستیاب: theguardian.com۔ایسوسی ایٹڈ پریس (2023). پاکستان نے عالمی برادری سے کلائمیٹ فنانس کے وعدوں کی تکمیل کا مطالبہ کیا۔ دستیاب: apnews.com۔