بیلہ اور لیاری کا ثقافتی ورثہ مٹی کے گھر، باگر، اور قدیم ورثہ موسمیاتی تبدیلی اور پانی کی کمی سے زوال پذیر، سندھ کی ثقافت کی مٹتی نشانی۔
خلیل رونجھو

بیلہ اور لیاری کا ثقافتی ورثہ: مٹی کے گھروں سے خاموش بستیوں تک کی کہانی
بیلہ کی قدیم پہچان اور طرزِ تعمیر
لسبیلہ کا تاریخی شہر بیلہ اپنے قدیم طرزِ تعمیر اور روایتی ثقافت کے باعث ماضی میں ایک منفرد شناخت رکھتا تھا۔
یہاں کے مکانات لکڑی کے فریموں پر تعمیر کیے جاتے تھے جن پر مٹی کی مضبوط تہہ چڑھائی جاتی تھی اور اس کے اوپر ڈرب و مٹی کی مکس چنائی کی جاتی ہے۔
ایسے گھروں کو مقامی زبان میں“مُکھڑے والا گھر”کہا جاتا تھا۔ ان گھروں کی چھتوں پر ہوا اور روشنی کے گزر کے لیے ایک خاص ساخت بنائی جاتی تھی، جسے“باگر”کہا جاتا تھا۔ بیلہ کی تپتی گرمی میں باگر ہی روشنی اور ٹھنڈک کا واحد ذریعہ تھا۔
یہ طرزِ تعمیر بیلہ کے ثقافتی ورثے اور قدرتی ماحول سے ہم آہنگ طرزِ زندگی کی عکاسی کرتا ہے۔
تاریخی حقیقت: بیلہ لسبیلہ ضلع کا پرانا دارالحکومت رہا ہے اور یہاں 18ویں صدی کے لسبیلہ قلات قبیلے کے نوابوں کی حویلیاں اب بھی موجود ہیں۔
جدیدیت اور موسمیاتی تبدیلی کا اثر
مگر اب وقت بدل گیا ہے۔ شدید موسمیاتی حالات کی وجہ سے کچے گھروں کی جگہ پکے مکانات نے لے لی ہے، اور مٹی کی دیواروں کی جگہ سیمنٹ کے بلاکوں نے ۔ وہ مٹی کی خوشبو، لکڑی کی ساخت، اور باگر سے آتی ٹھنڈی ہوا اب صرف یادوں میں باقی ہے۔
یہ تبدیلی صرف تعمیراتی انداز میں نہیں بلکہ ثقافتی انحطاط کی علامت بھی ہے جو بتاتی ہے کہ کس طرح موسمیاتی تبدیلی اور شہری طرزِ زندگی نے بیلہ اور لیاری کے ثقافتی ورثے کو بدل دیا۔
تحقیقاتی دورہ: بیلہ سے لیاری تک
اسی زوال پذیر ورثے کو سمجھنے کے لیے گزشتہ دنوں ایک خاتون محقق کے ساتھ بیلہ اور اس کے اطراف کا تحقیقی دورہ کیا گیا۔
تحقیق کا یہ سفر ہمیں بیلہ سے آگے، کوسٹل ہائی وے کے کنارے واقع ایک اور خاموش بستی لیاری تک لے گیا۔
لیاری: کبھی زندگی سے بھرپور، آج خاموش بستی
اوتھل کے قریب واقع یہ بستی کبھی زندگی سے بھرپور تھی۔ یہاں کے ہندو محلے میں گھروں سے دھواں اٹھتا تھا، مندروں کی گھنٹیاں بجتی تھیں، اور گلیوں میں بچوں کی ہنسی گونجتی تھی۔
مگر آج وہی گلیاں سنسان ہیں۔ راستے ریت سے اٹے ہوئے، بجلی کے کھمبے بغیر تاروں کے، دروازے بند، اور دیواریں ٹوٹی ہوئی ہیں۔

تاریخی حقیقت: لیاری کے قریب واقع پرانے مندر نانی ماتا مندر کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ 200 سال پرانا ہے، اور آج بھی سال میں ایک بار ہندو یاتری یہاں آ کر عبادت کرتے ہیں۔
بنیادی سہولتوں کی کمی اور نقل مکانی
اس ویرانی کی سب سے بڑی وجہ اس علاقے میں پینے کے پانی کی کمی اور بجلی کی عدم فراہمی ہے۔
حکومت اوتھل شہر سے لیاری تک پینے کے صاف پانی کی فراہمی برقرار نہ رکھ سکی، اور نہ ہی لاکھڑا پاور اسٹیشن سے بجلی کی ترسیل ممکن ہوسکی۔
جب زندگی کی بنیادی سہولتیں ختم ہوئیں، تو لوگ اپنا سب کچھ چھوڑ کر وندر، اوتھل اور بیلہ جیسے شہروں کا رخ کرنے لگے۔
یہی وہ لمحہ تھا جب بیلہ اور لیاری کا ثقافتی ورثہ اپنی روح کھونے لگا۔

نانی ماتا مندر اور میلے کی یادیں
رفتہ رفتہ بستی کے مکین کم ہوتے گئے، گھر سانس لینا بھول گئے، اور ہوا نے ان گلیوں کو اپنی سلطنت بنا لیا۔ اب یہاں صرف ایک قدیم نانی ماتا مندر باقی ہے۔
کبھی کبھار نانی ماتا کے یاتری آ کر دیا جلاتے ہیں، پھول چڑھاتے ہیں، اور ماضی کی یادوں کو سلام کرتے ہیں۔
سال میں ایک بار لگنے والا نانی ماتا میلہ ہی اس بستی کو چند دنوں کے لیے زندگی بخشتا ہے۔
مندر کے آس پاس چند چھوٹی دکانیں اب بھی کھلی ہیں، جہاں قریبی دیہات کے لوگ روزمرہ کا سامان لینے آتے ہیں۔
ریت سے اٹے راستے، بند گھروں کے زنگ آلود تالے، اور مندر سے آتی مدھم گھنٹی کی آواز یہ سب مل کر ایک ایسے ماضی کی یاد دلاتے ہیں جو وقت کے دھارے میں دھندلا تو چکا ہے، مگر مٹا نہیں۔
موسمیاتی بحران اور بستیوں کا زوال
بیلہ سے لیاری تک پھیلا یہ خطہ کبھی زندگی، محبت، محنت اور مٹی کی خوشبو سے لبریز تھا۔
مگر اب موسمیاتی تبدیلی نے اس دھرتی کے رنگ پھیکے کر دیے ہیں۔
پانی کی مسلسل قلت نے زمین کو پیاسا اور لوگوں کو مایوس کر دیا ہے۔
سن2022 کی شدید بارشوں نے بچے کچے گھروں کو بھی مسمار کر دیے ہیں۔
حالیہ بارشوں سے قبل لوگ آج بھی جوٹروں کا کھارا پانی پینے پر مجبور ہیں۔
جو چند خاندان اب بھی یہاں آباد ہیں، وہ سخت موسمی حالات، پانی اور بجلی کی کمی، اور معاشی دباؤ کے باعث پریشانی میں زندگی گزار رہے ہیں۔

ثقافتی ورثے کا تحفظ کیوں ضروری ہے؟
یہ اجڑتی بستیاں صرف مکانوں اور مٹی کا زوال نہیں بلکہ ہماری تاریخ، لوک ورثہ، اور تہذیب کے مٹتے ہوئے نشانات ہیں۔
یہ وہ کہانیاں ہیں جو کبھی دیواروں پر مٹی کے نقشوں میں زندہ تھیں، جنہیں اب وقت کی دھول نے ڈھانپ لیا ہے۔
اگر ہم نے ان بستیوں، ان ثقافتی آثار، اور اس زمین کے فطری نظام کو محفوظ نہ کیا۔
تو آنے والی نسلیں صرف کتابوں اور تصویروں میں دیکھیں گی کہ یہاں کبھی انسان، فطرت اور ثقافت ایک دوسرے سے جڑے ہوئے تھے۔
نتیجہ: بیلہ اور لیاری کی خاموشی — تاریخ کی صدا
بیلہ اور لیاری کا ثقافتی ورثہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ جب زمین بولنا چھوڑ دے، تو تاریخ بھی خاموش ہو جاتی ہے۔
یہ خاموشی صرف ماضی کا نوحہ نہیں بلکہ مستقبل کے لیے ایک انتباہ ہے۔